اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مارچ 2025ء) بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور حکومت میں جبری طور پر لاپتہ کم از کم 330 افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔

جبری گمشدگیوں کے انکوائری کمیشن (CEED) کے سربراہ معین الاسلام چوہدری نے اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ شیخ حسینہ کی سربراہی میں کام کرنے والے اعلیٰ حکام جبری گمشدگیوں کے جرم میں ملوث تھے۔

خیال رہے کہ سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ اپنی حکومت کے خلاف پر تشدد مظاہروں کے بعد گزشتہ اگست میں استعفیٰ دے کر پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئی تھیں۔

بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی تنظیم اودھیکار کے مطابق شیخ حسینہ کے 2009ء سے 2024 ء تک جاری رہنے والے اقتدار میں سات سو سے زائد جبری گمشدگیوں کی اطلاعات درج کی گئیں۔

(جاری ہے)

تاہم بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی جانب سے، جبری طور پر لا پتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کے لیے پانچ رکنی کمیشن کی تشکیل کے بعد، ماضی میں مزید افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں، اور ان کی تعداد اب 1,752 تک پہنچ چکی ہے۔

اگرچہ جبری گمشدگیوں کے کچھ متاثرین زندہ اپنے گھروں کو لوٹ بھی آئے، لیکن دیگر مبینہ طور پر مردہ پائے گئے۔ غم کا کوئی مداوا نہیں

معین الاسلام چوہدری کا کہنا تھا کہ کمیشن اس امکان پر غور کر رہا ہے کہ متاثرین میں سے کچھ کو بھارت میں بھی قید کیا ہوا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں گزشتہ دو سے ڈھائی سالوں کے دوران بھارتی جیلوں میں قید 1,067 بنگلہ دیشیوں کی فہرست ملی ہے۔

ہم یہ جانچنے کے عمل میں ہیں کہ آیا ان میں سے کوئی جبری گمشدگی کا شکار بھی ہوا تھا۔‘‘

نسرین جہاں اسمرتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چوہدری کا بیان سن کر وہ بکھر کر رہ گئیں۔ نسرین کے شوہر اسماعیل حسین بیٹن حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک کارکن تھے اور وہ 2019 ء سے لاپتہ ہیں۔ نسرین کا کہنا تھا، ''چھ سال قبل ریب کی جانب سے اغوا کیے جانے کے بعد سے اب تک میں اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہوں۔

‘‘

بنگلہ دیش کی ریپڈ ایکشن بٹالین (ریب) انسداد دہشت گردی کے لیے قائم کی گئی ایک ایلیٹ فورس ہے۔ نسرین کے مطابق، ''شیخ حسینہ کی بے دخلی کے بعد، جب جبری گمشدگیوں کے چند متاثرین کو برسوں کی قید کے بعد رہا کیا گیا، مجھے امید تھی کہ میرے شوہر بھی جلد باہر آ جائیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''اب، کمیشن کے چیئرمین کے بیان نے ہماری تمام امیدوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔

جب سے ہم نے یہ خبر سنی ہے، میرے بچے بے بسی سے رو رہے ہیں۔‘‘ شیخ حسینہ کے دوراقتدار پر سخت تنقید

انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے شیخ حسینہ کو آہنی ہاتھوں کے ساتھ حکومت کرنے پر شدید تنقید کا سامنا رہا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے 2022ء میں جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے ''معتبر اور مستقل شواہد‘‘ کے باوجود، شیخ حسینہ کی حکمران جماعت، عوامی لیگ نے ''استثنیٰ کے کلچر کا سہارا‘‘ لے کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کے مطالبات کو نظر انداز کیا۔

2024ء میں حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد ملکی فوج کے ایک سابق بریگیڈیئر جنرل عبداللہ الامان اعظمی اور وکیل احمد بن قاسم کو رہا کر دیا گیا تھا۔ ان دونوں کو آٹھ سال قبل اغوا کیا گیا تھا۔ اسی طرح 2019ء سے لاپتہ ایک سیاسی کارکن مائیکل چکما کو بھی حال ہی میں قید سے رہائی ملی۔ انسانی حقوق کے گروپ طویل عرصے سے کہتے آ رہے ہیں کہ فوج کی خفیہ ایجنسی، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فورسز انٹیلیجنس (ڈی جی ایف آئی) جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کو قید میں رکھنے کے لیے کئی خفیہ حراستی مراکز چلاتی ہے۔

اعظمی، قاسم اور چکما نے بتایا کہ انہیں ڈی جی ایف آئی کے زیر انتظام ایک خفیہ جیل کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کا نام آئینہ گھر یعنی ''آئینوں کا گھر‘‘ ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق، حسینہ کے دور اقتدار میں ریب اور ڈی جی ایف آئی، پولیس اور دیگر سکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیاں جبری گمشدگیوں میں ملوث تھیں۔

330 افراد کا کوئی سراغ نہیں

شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد ڈی جی ایف آئی نے ایک بیان جاری کیا، جس میں تسلیم کیا گیا کہ حسینہ کے دور اقتدار میں بہت سے بنگلہ دیشی جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے۔ تاہم بیان میں یہ واضح کیا گیا، ''لیکن ہم اب کسی کو قید میں نہیں رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کے لیے قائم کردہ کمیشن کے ایک رکن سجاد حسین نے کہا کہ ان کی تحقیقاتی ٹیم کو ایک ہزار سے زائد لاپتہ افراد میں سے 330 کے بارے میں کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم نے مختلف انٹیلیجنس ایجنسیوں اور سیکورٹی فورسز کے بہت سے دفاتر کے دورے کیے اور دارالحکومت ڈھاکہ اور اس سے باہر مختلف مقامات پر 14 خفیہ حراستی مراکز کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے مزید کہا، ''کمیشن کو ان حراستی مراکز میں زندہ بچ جانے والے یا متاثرین کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ جبری گمشدگیوں کے 1,752 متاثرین میں سے، 330 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

‘‘

حسین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کمیشن کو ایسے شواہد ملے ہیں، جن میں شیخ حسینہ سمیت ان کی حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ثبوت ملا ہے۔ انہوں نے کہا، ''مقدمات کا جائزہ لینے کے بعد، ہم نے پہلے ہی سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کئی اعلیٰ عہدے داروں کی شناخت کر لی ہے، جو جبری گمشدگیوں میں ملوث تھے۔

‘‘

شیخ حسینہ اور ان کی حکومت کے سینئر حکام نے بارہا ایسی خبروں کی تردید کی ہے۔

شواہد کی تلفی

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیمیں جبری گمشدگیوں میں ملوث ریاستی اداروں پر اپنے جرائم کے حوالے سے شواہد کو مٹانے کا الزام بھی لگاتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران ملکی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینے والے ادارے کیپیٹل پنشمنٹ جسٹس پراجیکٹ کے محمد اشرف الزمان نے کہا، ''یہی وجہ ہے کہ فوج نے حال ہی ایک سرکاری وفد کو ڈی جی ایف آئی کے زیر انتظام حراستی مراکز تک رسائی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

‘‘

انہوں نے کہا، ''ڈی جی ایف آئی مسلح افواج کی ایک طاقتور انٹیلیجنس ایجنسی ہے، جسے مکمل استثنیٰ حاصل ہے اور وہ اپنے اعمال کے لیے جواب دہی سے گریز کرتی ہے۔‘‘

تلاش جاری رکھیں

جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ حکام لاپتہ افراد کی تلاش جاری رکھیں۔ بےبی اختر کا کہنا تھا، ''بہت سے بنگلہ دیشی برسوں سے بھارتی جیلوں میں پڑے ہیں۔

اس بات کا امکان ہے کہ میرے شوہر کو زبردستی ملک سے باہر بھیجے جانے کے بعد، وہ بھی اب وہیں ہوں۔ ہمارے حکام کو اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہیے اور ان کی جیلوں میں بنگلہ دیشی جبری گمشدگی کے متاثرین کو تلاش کرنا چاہیے۔‘‘

بےبی اختر کے شوہر طارق الاسلام تارا کو مبینہ طور پر سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے 2012 ء میں ڈھاکہ سے اغوا کر لیا تھا، وہ اس کے بعد سےگھر واپس نہیں آئے۔ بےبی اختر نے کہا، ''مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے شوہر کے اغوا کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا، یہ بہت المناک بات ہے۔‘‘

شیخ عزیز الرحمان، ڈھاکہ (ش ر⁄ م م )

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جبری گمشدگیوں کے انسانی حقوق کی حراستی مراکز شیخ حسینہ کی انہوں نے کہا بنگلہ دیش ڈی جی ایف حسینہ کے میں ملوث حکومت کے کیا گیا کیے گئے اور ان کے لیے کے بعد

پڑھیں:

کراچی، 9 محرم مرکزی جلوس میں جبری گمشدہ شیعہ عزاداران کے اہلخانہ کا احتجاج

مقررین نے کہا کہ مطالبہ کیا کہ بے گناہ مظلوموں کو جلد از جلد رہا کیا جائے، اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور انہیں اہنے دفاع کا حق دیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد میں نو محرم الحرام کے مرکزی جلوس عزاء میں جبری گمشدہ شیعہ عزاداران کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ایم اے جناح روڈ پر امام بارگاہ علی رضاؑ کے سامنے نماز دوران مرکزی جلوس کے بعد جبری گمشدہ شیعہ افراد کے اہلخانہ کی جانب سے کئے گئے احتجاج میں مرد و خواتین، لاپتہ شیعہ افراد کے معصوم بچے بھی موجود تھے۔ احتجاجی مظاہرے میں مجلس وحدت مسلمین کراچ کے صدر مولانا صادق جعفری، ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ کے مرکزی رہنما مولانا اصغر شہیدی، شیعہ علماء کونسل کراچی کے صدر مولانا بدر الحسنین عابدی و لاپتا شیعہ عزادار کے والد علمدار رضوی نے خطاب کیا۔ اس موقع پر مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ، مولانا باقر زیدی، علامہ مبشر حسن، سمیت ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے دیگر علماء کرام و رہنما بھی شریک تھے۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حسینؑ کے ماننے والوں نے سر کٹوائے، جیلیں کاٹیں، اسیر ہوئے، گھر چھوڑے، ہجرتیں کیں، شہادتوں کو گلے لگایا، لیکن کبھی بھی ظالموں سے مفاہمت نہیں کی، شیعہ قوم نہ اسیری و شہادتوں سے ڈرنے والی قوم ہے اور نہ ہی لاپتا و گمشدگی سے خوفزدہ۔ انہوں نے کہا کہ کئی کئی سالوں سے مائیں بہنیں و بیٹیاں اپنے لاپتا پیاروں کی تصاویر اٹھائے سراپا احتجاج بن کر عزاداران سید الشہداء (ع) کے سامنے بھی کھڑی ہیں اور ملک کی مقتدر قوتوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ مقررین نے کہا کہ کئی کئی سالوں سے بے گناہ شیعہ جوانوں کو جبری گمشدہ کیا ہوا ہے، انکے بوڑھے والدین، بیویاں، بہنیں، بیٹیاں اپنے پیاروں کا انتظار کر رہے ہیں، انکا فقط ایک مطالبہ ہے کہ قانون کے مطابق عمل کیا جائے۔ مقررین نے کہا کہ ریاستی اداروں کے ساتھ ہمارے کئی مزاکرات بھی ہوئے، ہمیں یہ وعدہ بھی دیا گیا کہ ہم قانون کے مطابق عمل کرینگے، مظلوموں کو رہا کرینگے، لیکن وعدے پر عمل نہیں ہوا، پوری قوم مظلوموں کے ساتھ ہے۔ 

لاپتا شیعہ عزادار کے والد علمدار رضوی نے مطالبہ کیا کہ بے گناہ مظلوموں کو جلد از جلد رہا کیا جائے، اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور انہیں اہنے دفاع کا حق دیا جائے، اگر کوئی جبری گمشدہ شیعہ اسیر عزادار حراست میں شہید ہو گیا ہے تو کم از کم ہم ورثا کو لاش حوالے کی جائے۔ لاپتا شیعہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے احتجاجی کیمپ میں علمائے کرام سمیت بڑی تعداد میں عزاداران امام حسینؑ نے شرکت کی۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی، مرکزی جلوس میں لاپتا شیعہ عزاداران کے اہلخانہ کا احتجاج
  • کراچی، 9 محرم مرکزی جلوس میں جبری گمشدہ شیعہ عزاداران کے اہلخانہ کا احتجاج
  • مظفرآباد، سیاحوں کی گاڑی دریائے نیلم میں جاگری، 6 افراد جاں بحق
  • مظفرآباد میں افسوسناک حادثہ: سیاحوں کی کار دریائے نیلم میں گرنے سے 6 افراد جاں بحق
  • اندوہناک حادثہ! نیلم ویلی میں سیاحوں کی گاڑی دریا برد، 6 جانیں ضائع
  • وادی نیلم:سیاحوں کی گاڑی دریا میں جاگری،6 افراد جاں بحق، ایک لاپتہ
  • وادی نیلم میں گاڑی دریا میں جاگری،6 افراد جاں بحق، ایک لاپتہ
  • امریکی صدر ٹرمپ کا ’بگ بیوٹی فل بل‘ کیا ہے؟ 55 فیصد امریکی کیوں مخالف ہیں؟
  • بھارت میں سیلاب سے ساٹھ سے زائد افراد ہلاک، درجنوں لاپتہ
  • عمران خان کی 9 مئی مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں  مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری