Express News:
2025-08-18@07:44:36 GMT

ریاستی بحران اور سیاسی حکمت عملیاں

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

پاکستان کا بحران غیر معمولی ہے۔اس غیرمعمولی صورتحال کا نہ صرف ہمیں گہرائی سے ادراک ہونا درکار ہے بلکہ جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس میں بھی طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کو بھی ہر صورت برتری حاصل ہونی چاہیے۔جو بھی بحران ہے وہ محض آج کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اس بحران تک پہنچنے میں ہمیں کئی دہائیاں لگی ہیں اور اس میں تمام ہی حکومتوں سمیت دیگر فریقین بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔

موجودہ حالات پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز سے ایک ذمے دار کردار کی توقع رکھتے ہیں۔کیونکہ اگر ہم نے اپنے معاملات میں درست سمت میں درستگی نہ کی تو اس سے معاملات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہو سکتے۔ ہیں۔طاقت کا استعمال یقینی طور پر ایک حکمت عملی کے طور پر موجود ہوتا ہے۔لیکن یہ آخری حربے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے اور اس سے قبل سیاسی راستہ ہی اختیار کرنا ہماری ترجیح ہونا چاہیے تاکہ مفاہمت کا راستہ بھی سامنے آسکے ۔سیاسی راستے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ واپسی کا راستہ دیتا ہے اور تمام مفاہمتی راستوں کے دروازوں کو بند کرنے کے بجائے کھولنے کا سبب بنتا ہے۔

اس وقت پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ واقعی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی سازشوں کا شکار ہیں۔ ان صوبوں کے حالات کی درستگی اور وہاں امن کا قائم ہونا لازم ہے۔پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے کئی طرح کے آپریشن کیے اور اس میں سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔یہاں تک کہ نیشنل ایکشن پلان جو 20 نکات پر مشتمل تھا وہ بھی سامنے آیا۔اس نیشنل ایکشن پلان میں سیاسی اور عسکری قیادت نے دیگر فریقین کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی بھی تیارکی مگر اس کے نتائج وہ نہیں نکل سکے جو بطور ریاست ہمیں درکار تھے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کسی بھی طرح کے آپریشن وقتی طور پر یقینی طور پر کچھ بہتر نتائج دیتے ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیں ہوتے۔مستقل حل ریاستی اور حکومتی سطح پر سیاسی بنیادوں پر تلاش کیے جاتے ہیں ۔بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں سرکاری ملازمین اور انتظامی افسران کو وارننگ دی ہے کہ وہ حالات کو کنٹرول کریں یا گھر چلے جائیں۔ اس سے لگتا ہے کہ سرکاری مشینری میں بھی مسائل ہیں۔

خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کا پہلو نمایاں ہے اور اس میں جہاں داخلی مسائل ہیں وہیں ہمیں علاقائی مسائل بھی درپیش ہیں۔ پچھلے دنوں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف نے گورننس کے معاملات سے جڑے مسائل پر کھل کر بات کی اور ان کے بقول ہمیں اپنا گورننس کا ماڈل تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حالات کی درستگی گورننس کے تناظر میں کیسے ہوگی اور کون کرے گا۔کیونکہ پاکستان کی مجموعی گورننس پر کئی طرح کے سنجیدہ سوالات ہیں ۔

پاکستان اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک بڑے قومی بیانیہ کی تلاش میں ہے۔وہ بیانیہ جس میں ایک بڑا قومی اتفاق رائے ہر سطح پرنظر آنا چاہیے اور اس اتفاق رائے میں کسی بھی سطح پر کوئی بڑی سیاسی اور مذہبی تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ہمارے موجودہ حالات میں سیاسی تقسیم کا پہلو بہت گہرا ہے اور یہ مسئلہ خود ایک بڑے اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

کیونکہ ہم قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں سیاسی مسائل کو حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے اور سیاسی مسائل کی موجودگی خود ایک بڑے سیاسی بحران کا سبب بن رہی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے ہمیں زیادہ بحران کا سامنا ہے اور وہاں جو بیانیہ دہشت گردی کے تناظر میں بنایا جا رہا ہے وہ ریاستی مفاد کے برعکس ہے۔لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات کی ہے کہ قومی میڈیا میں بھی بگاڑ ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے عملا ہمیں ایک مضبوط میڈیا درکار ہے جو قومی بیانیے کی تشکیل میں ایک مثبت کردار ادا کرسکے۔

اسی طرح ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنا کسی حکومت یا ادارے کے بس کی بات نہیں ،اس کا علاج تمام فریقین کی باہمی مشاورت اور باہمی عمل درآمد کے نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم حالات کی نزاکت کا احساس کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر ہم نے درست حکمت عملیاں اختیار نہ کیں تو معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارا درست سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہی پاکستان کی ریاست اور عوام کے مفاد میں ہے۔ہمیں ریاستی نظام میں لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ریاست خود لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اتفاق رائے میں سیاسی کے ساتھ اور اس ہے اور

پڑھیں:

امریکا کے کہنے پر ہمیں غیر مسلح کیا تو لبنان تباہ ہوجائے گا؛ سربراہ حزب اللہ

حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم نے لبنانی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ امریکا کے کہنے پر سیکویرٹی فورسز ہمارے مدِ مقابل آئیں تو لبنان تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔

عرب میڈیا کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ نعیم قاسم نے ان خیالات کا اظہار ایران کے اعلیٰ سیکیورٹی عہدیدار علی لاریجانی سے ملاقات کے بعد ٹی وی پر نشر ہونے والے خطاب میں کیا۔

اپنے خطاب میں انھوں نے زور دیکر کہا کہ جب تک اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور قبضہ برقرار ہے، حزب اللہ ہتھیار نہیں پھینکے گی۔ ہم اس امریکا-اسرائیل گٹھ جوڑ کا مقابلہ کریں گے۔

حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے ہتھیاروں کے دفاع کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی حکومت تخفیفِ اسلحہ کے ذریعے ملک کو اسرائیل کے حوالے کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔

نعیم قاسم نے بتایا کہ فی الحال حزب اللہ اور امل تحریک نے امریکی حمایت یافتہ تخفیفِ اسلحہ منصوبے کے خلاف احتجاج ملتوی کر دیا کیونکہ بات چیت کے دروازے ابھی بند نہیں ہوئے۔

تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ منصوبہ منسوخ نہ کیا گیا تو مستقبل میں احتجاج براہِ راست امریکی سفارت خانے تک پہنچ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ لبنان کی کابینہ نے ملکی فوج کو ایک سال کے اندر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا حکم دیا جسے حزب اللہ سمیت دیگر جماعتوں نے امریکی دباؤ میں لیا گیا فیصلہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

 

 

 

متعلقہ مضامین

  • ہمیں علاقائی بھیڑیوں کے سامنے غیر مسلح نہیں ہونا چاہیئے، لبنانی مفتی
  • خشک سالی اور ڈیم: افغانستان میں پانی کا بحران علاقائی شکل اختیار کر گیا
  • بھارتی حکمران خطے میں برتری کے خواہشمند ہیں جو  کبھی نہیں ہوسکتا؛ سپیکر پنجاب اسمبلی
  • قلم کے شہید
  • دشمن کی گیدڑ بھبکیوں سے ہمیں کوئی خوف نہیں، حزب اللہ لبنان
  • کتاب سے دوری؛ کیا ہماری تہذیب کے خدوخال مٹ رہے ہیں؟
  • وزیرداخلہ محسن نقوی سے امریکی رابطہ کار لوگروف کی ملاقات
  • امریکا کے کہنے پر ہمیں غیر مسلح کیا تو لبنان تباہ ہوجائے گا؛ سربراہ حزب اللہ
  • دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پختونخوا پولیس نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا، وزیراعظم
  • محسن نقوی سے امریکی وفد کی ملاقات، انسداد دہشت گردی سمیت اہم امور پر اتفاق