Express News:
2025-06-09@10:43:33 GMT

حسینہ گھر کی نہ گھاٹ کی

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

حال ہی میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے چین کا کامیاب دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں چین کے صدر شی چنگ پنگ سے بڑے خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ملاقات میں بنگلہ صدر نے سابق حکومت کے خاتمے کے بعد کے حالات سے آگاہ کیا ہوگا، ساتھ ہی بھارت کی جانب سے ان کی حکومت کو ناکام بنانے کی سازش سے بھی آگاہ کیا ہوگا۔

اس وقت بنگلہ دیش میں مکمل امن اور سکون ہے کیونکہ عبوری حکومت عوامی انقلاب سے وجود میں آئی ہے۔ عوام نے بنگلہ دیش میں بھارت کی بالادستی اور مداخلت کو ختم کر دیا ہے۔ عبوری حکومت عوامی امنگوں اور قومی مفادات کی مکمل ترجمانی کر رہی ہے ۔شیخ حسینہ مسلسل پندرہ سال حکومت کرتی رہی ہے۔ یہ حکومت عوامی مفادات کے بجائے بھارت کے مفادات کی ترجمانی کر رہی تھی۔ حکومت مخالف لوگوں کے لیے ہر شہر میں ٹارچر سیل قائم کیے گئے تھے ۔ بہاریوں کا جینا حرام کر دیا گیا تھا۔کسی بھی سیاسی پارٹی کو کھل کر کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، خالدہ ضیا کو گرفتار رکھاگیا تھا حالانکہ وہ بیمار ہیں۔ 

خالدہ ضیا کی پارٹی نے گزشتہ دو عام انتخابات میں بھرپور ووٹ حاصل کیے تھے مگر دھاندلی سے ہرا دیا گیا تھا۔ حسینہ کو یہ بات پتا تھی کہ اس کی حکومت کو کسی بھی وقت عوامی غیض و غضب بہا کر لے جا سکتا ہے پھر حسینہ حکومت کا خاتمہ اس طرح شروع ہوا کہ مشرقی پاکستان کو بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے والی مکتی باہنی کی اولادوں کو تو دھڑا دھڑ سرکاری نوکریاں دی جارہی تھیں مگر عام بنگلہ دیشی نوجوان پر نوکریوں کے دروازے بند تھے۔

اس زیادتی پر نوجوانوں نے احتجاج شروع کر دیا، پھر یہ احتجاج بڑھتا ہی گیا، گویا یہ ایک چنگاری تھی جس نے شعلے کی شکل اختیار کر لی۔ عام لوگ جو حسینہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے سخت پریشان تھے وہ بھی اس احتجاج میں شامل ہوتے گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا بنگلہ دیش عوامی احتجاج سے گونجنے لگا۔ بالآخر عوامی غیض و غضب کا سیلاب حسینہ کی حکومت کو بہا لے گیا۔ حسینہ نے جان بچا کر اپنے آقا مودی کے دامن میں پناہ حاصل کر لی، دیگر عوامی رہنما بھی بھاگ کر بھارت پہنچ گئے۔ مودی نے حسینہ کو کیوں پناہ دی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ حسینہ اپنے ہی عوام کی دشمن تھی اسے تو کسی بھی ملک نے پناہ دینے سے انکار کردیا تھا چنانچہ بھارت حسینہ کو پناہ دے کر بنگلہ دیشی عوام کا اصل دشمن قرار پا چکا ہے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے بھارت کو اس کے حوالے کرنے کو کہا ہے مگر بھارت اپنی پٹھو حسینہ کو کیونکر کھو سکتا ہے؟ وہ تو اسے دوبارہ بنگلہ دیش کا اقتدار دلانے کے لیے ساز باز کر رہا ہے مگر یہ مودی کی خام خیالی ہے، اب حسینہ کی کسی بھی بھارتی پٹھو کو وہاں کے عوام قبول نہیں کریں گے وہ اب جتنے بھارت کے خلاف ہیں اتنے ہی پاکستان کے حق میں ہیں۔ حسینہ نے بھارت کے حکم پر جن پاکستان نواز پارٹیوں کو دیوار سے لگا دیا تھا ان میں جماعت اسلامی سرفہرست تھی، اس پر ظلم کی انتہا کر دی گئی تھی۔ اس کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

اب تمام سیاسی پارٹیاں آزاد ہیں۔ اس وقت عبوری حکومت شان دار طریقے سے حکومت چلا رہی ہے جب کہ حسینہ کو یقین تھا کہ یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چل پائے گی بنگلہ بندو کی محبت عوام میں جاگ جائے گی اور وہ عبوری حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے مگر نہ ایسا ہوا اور نہ آگے ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس وقت عوام کے پاکستان کی جانب جھکاؤ اور بھارت سے ناراضگی سے پتا چلتا ہے کہ 1971 میں جو کچھ ہوا وہ عوامی لیگ کے غنڈوں اور بھارتی مکتی باہنی کا کیا دھرا تھا ورنہ وہاں کے عوام پاکستان سے علیحدگی کے ذرا حق میں نہیں تھے۔

اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دورۂ بنگلہ دیش سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ حسینہ سمجھ رہی تھیں کہ انھیں بھارت میں چند دن ہی مہمان بن کر رہنا ہوگا کیونکہ عوام انھیں آزادی دلانے والے ان کے والد مجیب الرحمن کی محبت میں انقلابیوں کو شکست دے دیں گے اور ان کی حکومت کو بحال کرا دیں گے مگر وہاں تو مجیب الرحمن سے بابائے قوم کا ٹائٹل ختم کر کے خالدہ ضیا کے شوہر ضیا الرحمن کو بابائے قوم تسلیم کر لیا گیا ہے۔

مجیب کی تمام سرکاری دفاتر سے تصاویر ہٹا دی گئی ہیں، کرنسی سے بھی مجیب الرحمن کی تصویر ہٹائی جا رہی ہے، قومی ترانے کو تبدیل کر دیا گیا ہے، قومی پرچم کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے، اس طرح بنگلہ دیش ایک خالص مسلم ملک بننے جا رہا ہے۔ باقی تمام تبدیلیاں نئے انتخابات میں منتخب ہونے والی حکومت کرے گی، وہاں عام انتخابات دسمبر میں ہونے والے ہیں۔ بھارتی حکومت بنگلہ دیشی عبوری حکومت سے سخت ناراض ہے حالانکہ دو عالمی کانفرنسوں کے مواقعے پر مودی کی محمد یونس سے ملاقات ہو سکتی تھی مگر مودی نے یونس سے ملنے سے گریز کیا، مگر اب یونس کے چین کے کامیاب دورے نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اب چین بنگلہ دیش کی نئی حکومت کا طرف دار بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش اور چین کے مابین کئی معاشی اور دفاعی معاہدے ہوئے ہیں، ساتھ ہی تیشا ندی پر ڈیم کی تعمیر چین کے حوالے کر دی گئی ہے۔ یونس نے وہاں بھارتی سیون سٹر ریاستوں کے بارے میں اہم بیان دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام لینڈ لاک ہیں ان کا بیرونی دنیا سے تعلق صرف بنگلہ دیش کے ذریعے ممکن ہے۔ اس بیان پر بھارتی حکومت سخت تذبذب کا شکار ہو گئی ہے اور اس بیان کو بھارت دشمنی قرار دیا ہے مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ ان تمام ریاستوں میں چونکہ آزادی کی جنگ چل رہی ہے اور ایک دن وہ ضرور آزاد ہو جائیں گی تب انھیں بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے بنگلہ دیش کا ہی سہارا لینا ہوگا۔

اس طرح یونس کا بیان درست ہے اور دور اندیشی پر مبنی ہے۔ مودی کے یونس کو خط لکھنے سے لگتا ہے وہ یونس کے کامیاب دورۂ چین سے گھبرا گیا ہے اور اپنی اکڑ چھوڑ کر تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خط لکھ دیا ہے مگر اس کے لیے اسے حسینہ کو ملک بدرکرنا ہوگا اور چونکہ حسینہ کو کوئی بھی ملک قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے چنانچہ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ لگتا ہے وہ نہ گھر کی رہے گی اور نہ گھاٹ کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عبوری حکومت کی حکومت کو بنگلہ دیشی بنگلہ دیش حسینہ کو نے بھارت کسی بھی ہے اور کر دیا گیا ہے رہی ہے چین کے ہے مگر رہا ہے دیا ہے

پڑھیں:

کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی

پی ڈی پی کی خاتون لیڈر نے کہا کہ بھارت کی واحد اور سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاست کے طور پر ہم کشمیریوں کو عبادت کا حق حاصل ہے، بنیادی ڈھانچے سے زیادہ ہمیں عزت اور جان کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی حکام نے آج تاریخی جامع مسجد سرینگر میں نماز عید ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حکام نے مسجد کے دروازے بند کر دئے گئے اور باہر پولیس اہلکار تعینات کر دئے گئے۔ میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا "افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج نہ عیدگاہ میں نماز کی اجازت ملی اور نہ ہی جامع مسجد کھولی گئی، یہ مسلسل ساتواں سال ہے کہ مجھے بھی میرے گھر میں نظربند کر دیا گیا ہے۔ درایں اثنا درگاہ حضرت بل سرینگر میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی کے خاتون لیڈر التجا مفتی نے جامع مسجد میں نماز عید کی ادائیگی پر پابندی اور میرواعظ عمر فاروق کو گھر میں نظربند کرنے پر حکومت پر کڑی تنقید کی۔محبوبہ مفتی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "ہم نے فلسطین کے لوگوں کی بھلائی کے لئے دعا کی، ہم دعا کرتے ہیں کہ فلسطین جلد اسرائیل کے مظالم سے آزاد ہو"۔

اس دوران التجا مفتی نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومت نے اس مقدس دن میں جامع مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور میر واعظ عمر فاروق کو نظربند کر دیا گیا۔ التجا مفتی نے کہا "میں ریاستی حکومت کے خلاف بھی احتجاج کرتی ہوں جو صرف سب کچھ دیکھ رہی ہے اور کچھ نہیں کر رہی"۔ پی ڈی پی کی خاتون لیڈر التجا مفتی نے کہا "میں نیشنل کانفرنس کی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ جب آپ سب کچھ نارمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو میرواعظ کو ابھی تک نظر بند کیوں رکھا گیا ہے"۔ التجا مفتی نے مزید کہا کہ "بھارت کی واحد اور سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاست کے طور پر ہم کشمیریوں کو عبادت کا حق حاصل ہے، بنیادی ڈھانچے سے زیادہ ہمیں عزت اور جان کی حفاظت کی ضرورت ہے"۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور بارے اپنی ہی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف
  • راولپنڈی میں لرزہ خیز واردات؛ باپ کو 2 بیٹوں سمیت موت کے گھاٹ اتاردیا گیا
  • بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
  • بی جے پی بھارتی کسانوں کو دھوکہ دے رہی ہے، اکھلیش یادو
  • عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کے خلاف بیان
  • پاراچنار میں نماز عید کا روح پرور اجتماع
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • بنگلہ دیش کا دعویٰ: بھارت نے 1,200 سے زائد افراد کو سرحد سے دھکیل دیا
  • پاکستان کا ٹھوس مؤقف اور بھارت کی آئیں بائیں شائیں: سوشانت سنگھ بھارتی حکومت و فوج پر برس پڑے
  • عبوری حکومت کا بنگلہ دیش میں آئندہ عام انتخابات اگلے سال اپریل میں منعقد کرنے کا اعلان