اسرائیلی بربریت کیخلاف 11 اپریل کو لاہور میں بڑا مارچ کریں گے: حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
لاہور،اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+خبر نگار) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے فلسطین کی موجودہ صورتحال اور خصوصی طور پر عید کے روز سے جاری غزہ پر صہیونی افواج کی سفاکیت کے تناظر میں ملک گیر سطح پر بھرپور عوامی موبلائزیشن کے آغاز کا اعلان کیا ہے جس کے تحت چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، کارنر میٹنگز، امریکی سفارت خانہ اور قونصل خانوں کی جانب مارچز کا انعقاد کیا جائے گا۔ منصورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی فی الحا ل ’’حق دو عوام کو تحریک‘‘کے تحت جاری سرگرمیوں کو ری شیڈول کر رہی ہے اور آج سے ہی پورے ملک میں غزہ پر عوامی موبلائزیشن کا آغاز کر رہی ہے۔11 اپریل کو پورے پاکستان میں اور خصوصی طو ر پر لاہور میں احتجاج اور امریکی قونصل خانہ کی جانب مارچ ہوگا، اسرائیلی بربریت کے خلاف لاہور میں بڑا مارچ کریں گے۔ 13 اپریل کو کراچی میں شا ہراہ فیصل پر اور 20 اپریل کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کی جانب مارچ کیا جائے گا۔ نائب امیر لیاقت بلوچ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل اظہر اقبال حسن، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، امیر پنجاب وسطی جاوید قصوری، امیر لاہور ضیاء الدین انصاری ایڈووکیٹ اور ڈائریکٹر ڈیجیٹل میڈیا سلمان شیخ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ امیر جماعت نے عوام سے اپیل کی کہ مارچز اور مظاہروں میں بھرپور شرکت یقینی بنائیں۔ ا نہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان سے پارلیمنٹیرین کا وفد ترکی، سعودی عرب، اردن، مصر، ایران، قطر اور دیگر اسلامی ممالک کی حکومتوں کے ممبران سے ملے اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے علاقہ کی جانب مارچ کرے۔ بدقسمتی سے حکومتی اوراپوزیشن پارٹیوں میں سے کوئی بھی امریکہ اور اسرائیل کی مذمت نہیں کر رہا، سب ٹرمپ کی خوشنودی کا حصول چاہتے ہیں، اس موقع پر حماس کی حمایت نہ کرنا اور غزہ میں جاری ظلم پر خاموشی سب سے بڑی منافقت ہے، ہمیں حکمرانوں کے’’معیشت کمزور‘‘کے بہانوں کی ضرورت نہیں، معیشت انہوں نے ہی کمزور کی ہے جو برسہا برس سے عوام پر مسلط ہیں۔ انہوں نے صدرآصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے اپیل کی وہ کہ مسئلہ فلسطین پر عملی کردار ادا کریں۔ انہوں نے صدر پاکستان کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ انہوں نے کے پی اور شمالی پنجاب کے عوام سے اپیل کی کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد مارچ میں شرکت کریں، اس طرح زندہ دلان لاہور اور کراچی کے عوام بھی شایان شان طریقے سے مارچز میں شریک ہوں، انہوں نے صحافیوں سے اپیل کہ وہ انسانیت کو بچانے کے لیے عالمی میڈیا تنظیموں سے رابطے کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں جو حماس کو بدنام کرے گا وہ صہیونیوں اور امریکہ کا آلہ کار ہوگا، اگر کوئی پاکستانی اسرائیل کے دورہ پر گیا ہے اور پاکستان میں موجود ہے اسے گرفتار کیا جائے اور پوچھا جائے کہ وہ کس کی اجازت سے وہاں گیا ہے، حکومت اس معاملہ پر وضاحت جاری کرے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کی جانب مارچ انہوں نے اپریل کو سے اپیل
پڑھیں:
سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی نیتن یاہو پر شدید تنقید، ٹرمپ سے سمجھانے کی اپیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی جارحیت کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران اور عالمی سطح پر اسرائیل کو درپیش تنہائی کے پیش نظر صہیونی ریاست کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے موجودہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایہود اولمرٹ نے عالمی برادری کو درپیش سنگین مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل پر زور دیا اور غزہ میں جنگ کو جاری رکھنے کو ایک ’جرم‘ قرار دیا۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو کی حکومت اندرونی و بیرونی سطح پر شدید دباؤ کا شکار ہے۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق ایہود اولمرٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست اپیل کی کہ وہ نیتن یاہو کو اپنے آفس بلائیں اور میڈیا کے سامنے انہیں واضح الفاظ میں کہیں کہ اب بہت ہو چکا ہے، ختم کرو یہ سب۔
یہ مطالبہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی جنگ کے جاری رہنے پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔اولمرٹ کا یہ بیان جو ایک سابق سربراہ حکومت کی حیثیت سے سامنے آیا ہے، نیتن یاہو کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے نیتن یاہو کو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کا ذمے دار ٹھہرایا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک وزیرِاعظم کی حیثیت سے نیتن یاہو کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا تھی، جس میں وہ ناکام رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حملے کے بعد عالمی برادری نے ابتدا میں اسرائیل کے حقِ دفاع کو تسلیم کیا اور اس کی حمایت کی، لیکن صورتحال اس وقت پلٹ گئی جب نیتن یاہو نے جنگ بندی ختم کر کے فوجی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، جس سے عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو گئی اور اب دنیا کے بیشتر ممالک اسرائیل کے اس اقدام پر تنقید کر رہے ہیں۔
اولمرٹ کے مطابق نیتن یاہو نے اپنی ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی، جس کا خمیازہ اسرائیل کو دنیا میں تنہا ہو کر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایک سنگین الزام ہے جو نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر مزید سوالات کھڑے کرتا ہے۔ نیتن یاہو پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے دباؤ میں ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر جنگ روک دی گئی تو ان کے اتحادی حکومت سے نکل جائیں گے، جس کے نتیجے میں دوبارہ الیکشن کرانا پڑیں گے۔
سابق وزیراعظم نے پیش گوئی کی کہ ایسے کسی بھی الیکشن میں نیتن یاہو کی شکست واضح ہو گی۔ یہ سیاسی تجزیہ اسرائیل کی موجودہ حکومت کے اندرونی ڈھانچے اور نیتن یاہو کی قیادت کو درپیش چیلنجز کو واضح کرتا ہے۔