Express News:
2025-12-01@12:01:15 GMT

حُسن نیّت: ہم دردی، اخلاص و ایثار کا جوہر

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

اسلام میں اخلاص اور حُسن نیّت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو تمام حالات میں خلوصِ نیّت کی ترغیب دیتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اور احادیث نبوی میں رسول اکرم ﷺ نے اہل ایمان کو تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال اور اعمال و احوال میں نیّت کو مستحضر رکھنے، اُس کو ٹٹولتے رہنے اور اُس میں اخلاص کی چاشنی کو باقی رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ بلاشبہ! تمام اعمال کا دار و مدار اخلاصِ نیّت پر ہی ہوتا ہے اور اچھی نیّت ہی تمام اعمال و افعال کی جڑ اور بنیاد ہوتی ہے۔ چناں چہ نیّت اگر خالص ہوگی تو اعمال جان دار ہوں گے اور نیّت اگر خراب ہوگی تو اعمال میں وزن نہیں رہے گا۔

اچھی نیّت سے اعمال اچھے اور بُری نیّت سے اعمال بُرے ہوجاتے ہیں۔ نیّت صاف ہو تو انسان کی منزل اُس کے لیے آسان ہوجاتی ہے اور اگر نیّت خراب ہو یا اُس میں فتور واقع ہوجائے تو قدم قدم پر انسان کو ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے اور بالآخر منزل مقصود تک پہنچنا اُس کے لیے ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔

اخلاصِ نیّت کی اہمیت پیش نظر قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:

’’اور اُنہیں اِس کے سوا اور کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اﷲ کی عبادت اِس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یک سُو ہوکر صرف اُسی کے لیے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی سیدھی سچی اُمت کا دین ہے۔‘‘ (سورۃ البینہ)

مفہوم: ’’اﷲ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے، نہ اُن کا خون، لیکن اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (سورۃ الحج)

مفہوم: ’’اے رسول (ﷺ)! لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اﷲ اسے جان لے گا۔‘‘ (سورۂ آلِعمران)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اخلاصِ نیّت کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے، چناں چہ ایک حدیث میں آتا ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ہر عمل کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیت درُست ہے تو اجر کا مستحق ہے، جو اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہجرت کرتا ہے تو اُس کی ہجرت اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہوتی ہے، لیکن اگر دُنیا یا کسی عورت کے لالچ میں ہجرت کرتا ہے تو جس غرض کے لیے ہجرت کرتا ہے اُس کی ہجرت اسی غرض کے لیے شمار کی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے، جس کی بنیاد خلوص پر ہو۔‘‘ (سنن نسائی)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’آخر زمانے میں ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا، لیکن جب یہ ’’بیداء‘‘ نامی مقام میں پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر یہ لوگ قیامت میں اپنی نیّتوں کے موافق اُٹھائے جائیں گے، اِس لشکر میں بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے، جو زبردستی شریک کر لیے گئے تھے، اُن کی نیّت کعبہ پر حملہ کی نہ تھی، ایسے لوگوں سے کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص کے پاس مال بھی ہے اور علم بھی، اور یہ اچھے کام کرتا ہے اور غرباء کا حق سمجھتا ہے، تو قیامت میں یہ اعلیٰ منازل میں ہوگا، لیکن ایک شخص کے پاس مال اور علم تو نہیں، لیکن اُس کی یہ نیّت ضرور ہے کہ اگر میرے پاس مال اور علم ہوتا، تو میں بھی یہی کام کرتا جو فلاں شخص کر رہا ہے تو قیامت میں دونوں کو اَجر برابر ملے گا۔‘‘ (جامع ترمذی)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر کسی شخص نے نیکی کرنے کی نیّت کی، لیکن اُس کی نیکی کا وقوع نہیں ہُوا، تب بھی اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص نے بستر پر لیٹتے وقت یہ نیّت کی کہ رات کو تہجّد کی نماز پڑھوں گا، مگر رات کو آنکھ نہیں کھلی، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، تو اُس کے لیے تہجّد کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور یہ سونا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس بندے پر احسان کے طور پر رہا۔‘‘ (سنن نسائی)

جہانگیر بادشاہ نے اپنی ’’تزک‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک سلطان گرمی کے موسم میں ایک باغ کے دروازہ پر پہنچا، وہاں ایک بوڑھا باغبان کھڑا تھا، اُس کو دیکھ کر سلطان نے پوچھا: ’’ کیا اِس باغ میں انار ہے؟‘‘

باغبان نے کہا: ’’جی موجود ہے‘‘

سلطان نے کہا: ’’ایک پیالا انار کا رَس لاؤ!‘‘

باغبان کی ایک لڑکی جو صورت کے جمال اور سیرت کے حسن سے بھی آراستہ تھی، باغبان نے اُس سے انار کا رَس لانے کو کہا، وہ گئی اور ایک پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، پیالے پر انار کی کچھ پتیاں رکھی ہوئی تھیں، سلطان نے اُس کے ہاتھ سے پیالا لیا اور پورا پی گیا، پھر لڑکی سے پوچھا: ’’پیالے کے رَس کے اوپر تم نے پتیاں کس لیے رکھ دی تھیں؟‘‘

لڑکی نے عرض کیا: ’’اِس گرمی میں آپ پسینے میں غرق تھے، رَس کا ایک سانس میں پی جانا آپ کے لیے مناسب نہ تھا، میں نے احتیاطاً اِس پر پتیاں ڈال دی تھیں کہ آپ آہستہ آہستہ اِس کو نوشِ جان فرمائیں۔

سلطان کو یہ حسن ادا بہت پسند آئی، اُس کے بعد اُس باغبان سے پوچھا کہ تم کو ہر سال اِس باغ سے کیا حاصل ہوتا ہے؟‘‘

اُس نے جواب دیا: ’’تین سو دینار‘‘

سلطان نے پوچھا: ’’حکومت کو کیا دیتے ہو؟‘‘

 باغبان نے کہا: میرا بادشاہ درخت سے کچھ نہیں وصول کرتا، بل کہ کھیتی سے عشر لیتا ہے۔‘‘

سلطان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ میری مملکت میں بہت سے باغ اور درخت ہیں، اگر باغ سے بھی عشر لیا جائے تو کافی رقم جمع ہوسکتی ہے اور رعیت کو بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا، اِس لیے میں حکم دوں گا کہ باغات کے محصولات سے بھی خراج لیا جائے، یہ سوچ کر اُس نے انار کا رَس پھر پینے کو مانگا، لڑکی رَس لانے گئی تو بہت دیر میں آئی، جب پیالا لائی تو سلطان نے کہا: ’’پہلی بار تم گئیں تو بہت جلد آئیں، اِس بار دیر بھی کی اور رَس بھی کم لائیں۔‘‘

لڑکی نے کہا: ’’پہلی بار ایک انار میں پیالا بھر گیا تھا، اِس بار میں نے پانچ چھے انار نچوڑے پھر بھی رَس پورا نہیں ہُوا۔‘‘

یہ سن کر سلطان کو حیرت ہوئی، باغبان نے عرض کیا: ’’محصول کی برکت بادشاہ کی نیک نیّت پر منحصر ہے، میرا خیال ہے کہ آپ باد شاہ ہیں، آپ نے جس وقت باغ کی آمدنی مجھ سے پوچھی، اُسی وقت آپ کی نیّت میں تبدیلی پیدا ہوئی اور پھل سے برکت چلی گئی۔‘‘

یہ سن کر سلطان متاثر ہُوا اور دل سے باغ کی آمدنی کا خیال دُور کردیا، اِس کے بعد پھر انار کا رَس مانگا ، لڑکی گئی اور جلد ہی پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، تب سلطان نے باغبان کی فراست کی داد دی، اپنے دل کی بات بتائی اور اُس لڑکی کا خواست گار ہُوا۔ (بہ حوالہ: تزکِ جہانگیری)

یقیناً اِنسان کی نیّت کا اثر اُس کی زندگی کے تمام حالات پر پڑتا ہے، نیّت اچھی اور خالص ہوگی تو زندگی بھی اچھی اور آسان گزرے گی، اہل و عیال میں برکت نصیب ہوگی، مال و دولت میں فراوانی حاصل ہوگی، عبادات ادا کرنے کی توفیق ملے گی، اﷲ تعالیٰ کا دھیان اور اُس کا قرب نصیب ہوگا، اور اگر نیّت خراب ہوئی اور اُس میں فتور ہُوا تو زندگی سے سکون اُٹھ جائے گا، مال و دولت میں کمی واقع ہوجائے گی، عبادات کی توفیق چھن جائے گی، اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور اُس کی خفگی مقدر بنے گی اور انسان کو زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہوتی نظر آئے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا انار کا ر س ا س کے لیے اﷲ تعالی کرتا ہے اور ا س کی نی ت نی ت کی نے کہا لیکن ا ہے اور سے بھی

پڑھیں:

عبدالقادر حسن کی یاد میں

آج پانچ برس بیت گئے، 30 نومبر2020 کی ایک خاموش مگر سرد شام کو میرے ابو جی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے اور یکم دسمبر کو انھیں آبائی گاؤں کھوڑہ وادی سون میں اپنے والد کے پہلو میں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

مگر ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں، ان کا شمار پاکستان کے اُن کالم نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے صحافت کو محض خبر رسانی یا تبصرہ نگاری نہیں بلکہ تہذیب، زبان، تاریخ اور فکری ارتقاء کے ساتھ جوڑے رکھا۔

ان کے کالم صرف رائے نہیں ہوتے تھے بلکہ قاری کو تہذیبی شعور، سیاسی بصیرت اور لسانی حُسن کا ایک مرکب پیش کرتے تھے۔ ان کی تحریر کے اندر ایک ایسا خلوص، طنز اور فکری گہرائی تھی جو آج خال خال ہی دکھائی دیتی ہے ۔

یہ دنیا لفظوں کی دنیا ہے لیکن ہر شخص کو یہ نعمت نہیں ملی کہ وہ لفظوں سے دلوں کے در کھول سکے۔ عبدالقادر حسن وہ درویش اورقلندر صحافت تھے جنھوں نے لفظوں کو فقط قلم کی زینت نہیں بنایا بلکہ انھیں ایک تہذیب کا نمایندہ، ایک معاشرت کا نقیب اور ایک قوم کا حافظہ بنا دیا۔

وہ کالم نگار نہیں، ایک عہد تھے۔ایک ایسا عہد جس میں صحافت، ادب اور تاریخ ایک صفحے پر یکجا ہو جایا کرتے تھے۔ان کی شخصیت میں ایک عجیب طرح کا وقار اور تنہائی کا بانکپن تھا۔

وہ کسی سیاسی جماعت کے ترجمان نہیں تھے، کسی مکتبِ فکر کے مبلغ نہیں تھے بلکہ وہ اپنے ضمیر، اپنی بصیرت اور اپنے تجربے کے سفیر تھے۔ ان کی تحریروں میں ایک ایسی خودداری، ایسا اعتماد اور ایسی صداقت تھی جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھی۔

کالم نگاری اگر فقط خبر کی تہہ میں چھپے تجزیے کا نام ہے تو عبدالقادر حسن نے اس فن کو نثر کے ایک نئے اسلوب سے نوازا۔ ان کے جملوں میں فارسی اور اردو کے الفاظ اس طرح سے ملتے کہ جیسے کسی پرانی مسجد کی محراب میں روشنی چھن چھن کر آ رہی ہو۔

ان کے ہاںمزاح اورطنزکا رشتہ محض ہنسی کا سامان نہیں بلکہ وہ اس سے معاشرتی زوال پر ایک گہرا نوحہ تحریر کرتے تھے۔انھوں نے کبھی اپنی تحریر کو چیخنے نہیں دیا مگر اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔

ان کا قلم بہت مہذب تھالیکن اس کے وار بہت گہرے ہوتے تھے۔ وہ حکمرانوں پر تنقید کرتے تو تہذیب کی چادر اوڑھ کر اور عوام کی بات کرتے تو درد کی زبان میں۔ وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے، ان کے کالموں میں امید بھی ہوتی تھی اور خبردار کرنے والی چنگاری بھی۔

کالم لکھتے وقت وہ کبھی تیزی نہیں دکھاتے تھے، ان کی رفتار گھوڑے کی نہیں اونٹ کی تھی، متین، بامعنی، گہری اور دوررس۔ ہر کالم ایک ایسا چشمہ ہوتا جو صحافت کے پیاسے قاری کو سیراب کر دیتاتھا ۔

ان کی زبان میں شوخی تھی مگر شائستگی کا ساتھ بھی تھا۔ انھوں نے زبان کو کبھی بازاری نہیں ہونے دیا اور نہ ہی خیالات کو سطحی ہونے دیا۔شاید اس لیے ان کا ہر جملہ آج بھی ایک حوالہ ہے۔

جب سیاست دان اپنی چالاکیوں میں الجھے ہوتے تب عبدالقادر حسن کا قلم ایک ایسا آئینہ بن جاتا جس میں ہر چہرہ بے نقاب ہو جاتا۔ ان کا اندازِ بیان سادہ مگر پرتاثیر، ان کی سوچ نظریاتی مگر زمینی اور ان کی وفاداری صرف سچ اور پاکستان کے ساتھ تھی۔

ان کی زندگی کے آخری برسوں میں جب صحافت کارپوریٹ مشین بن چکی تھی، جب سچ بولنا جرم سمجھا جانے لگا، تب بھی ان کا قلم جھکا نہیں۔ انھوں نے اپنی خودداری، اپنی فکری آزادی اور اپنی صحافتی سچائی کا سودا نہیں کیا اور ان کی تحریریں اس کی گواہ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اُن کے جانے کے بعد پاکستانی صحافت کا ایک پورا باب بند ہو گیا۔عبدالقادر حسن کی کمی محسوس ہوتی ہے اور شاید ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی کیونکہ وہ صرف لکھتے نہیں تھے وہ ہمیں آئینہ دکھاتے تھے۔

اور آج جب ہم اُس آئینے سے منہ چُرا رہے ہیں تو ان کے کالموں کی بازگشت ہمیں اپنی اصل یاد دلاتی ہے۔ ان کے دیہی پس منظر، عربی و فارسی کی تعلیم اور کلاسیکی ادب سے گہری وابستگی نے ان کی نثر کو جو تہذیب، وقار اور معنویت عطا کی وہی دراصل ان کی شناخت بنی۔

تحریر کا اصل جوہر اُس وقت نکھرتا ہے جب اس کے پیچھے صرف مشق یا علم نہ ہو بلکہ ایک جیتی جاگتی زندگی، ایک خاص تہذیب، اور گہرے مشاہدے کی آنچ ہو۔ عبدالقادر حسن انھی چند گنے چنے اصحابِ قلم میں شامل تھے جنھوں نے کالم نگاری کو محض تجزیے کا میدان نہیں رہنے دیا بلکہ اسے تہذیبی فہم، لسانی، جمالیات اور فکری گہرائی کا مرکب بنا دیا۔

وہ گاؤں کے باسی تھے مگر ان کی تحریر شہروں کی فصیلوں سے بلند اور تاریخ کے دریچوں سے آشنا تھی۔ان کے قلم کی بنیاد صرف اردو زبان پر نہیں تھی بلکہ انھوں نے باقاعدہ عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں ایک ایسا بانکپن، ایک ایسی کلاسیکی سنجیدگی اور لسانی لطافت نظر آتی ہے جو آج کے بیشتر کالم نگاروں کی تحریر میں مفقود ہے۔ وہ فارسی کے اشعار کو فقط برائے وزن،ِ بیت استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اشعار ان کے فکر کا نچوڑ، ان کی دلیل کا حُسن اور ان کے کالم کا روحانی عکس ہوتے تھے۔

ان کی تحریر میں اگرچہ طنز کی کاٹ موجود تھی مگر اس کا آہنگ ہمیشہ شائستہ اور اس کی بنیاد ہمیشہ فکری صداقت پر ہوتی تھی۔ ان کے کالموں میں جہاں معاصر سیاست کا جائزہ ہوتا، وہیں کسی گوشہ نشین صوفی کی بات یا کسی فارسی شاعر کا مصرعہ اُس تحریر کو روحانی بُعد دے دیتا۔ مثلاً جب وہ غالب، سعدی یا حافظ کو کوٹ کرتے تو محض اس لیے نہیں کہ پڑھنے والا متاثر ہو بلکہ اس لیے کہ وہ خود اُن اشعار کو جِیا کرتے تھے۔

ایک دیہاتی کا تہذیب یافتہ ہونا، صرف لباس یا زبان سے ثابت نہیں ہوتا، وہ اس کی سوچ، اس کے رویے اور اس کی تحریر میں جھلکتا ہے۔ عبدالقادر حسن اس کی بہترین مثال تھے۔ ان کے ہاں دیہات کی سادگی، زمین کی خوشبو اور روایتی علم کا وقار سب ایک ساتھ چلتے تھے۔

وہ سیاسی مسائل پر لکھتے مگر انداز بیان ایسا ہوتا جیسے کوئی بزرگ داستان گو اپنے پوتوں کو کسی پرانی جنگ کا قصہ سنا رہا ہو۔ان کی عربی و فارسی کی تعلیم نے انھیں صرف زبان نہیں دی بلکہ اُن زبانوں کی تہذیب، صبر، لطافت اور علم سے آشنا کیا۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے کالم پڑھتے ہوئے قاری کو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ صرف خبر نہیں پڑھ رہا بلکہ وہ کسی فکری مجلس میں شریک ہے۔ ان کی تحریر میں ماضی کا وقار، حال کا تجزیہ اور مستقبل کی بصیرت ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے تھے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عبدالقادر حسن کبھی لفاظی کے اسیر نہ ہوئے۔ انھوں نے زبان کو بوجھل نہیں ہونے دیابلکہ سادگی اور شائستگی کے ساتھ اپنی بات اس انداز میں کہی کہ نہ صرف عام قاری اُن سے وابستہ رہا بلکہ خواص بھی ان کی تحریر کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔

وہ ایک ایسی دنیا کے نمایندہ تھے جو آج معدوم ہو رہی ہے جہاں علم ادب سے جُڑا ہوتا تھا اور قلم ضمیر سے۔عبدالقادر حسن چلے گئے لیکن ان کا لہجہ آج بھی اُن کے جملوں میں زندہ ہے۔ وہ لہجہ جس میں ایک دیہاتی کی معصومیت، ایک عالم کی گہرائی اور ایک صوفی کی خامشی بولتی تھی۔ ان کا فراق محض ایک صحافی کی موت نہیں بلکہ ایک تہذیب کے قافلے کا توقف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگے گا کہ نہیں؟
  • غزہ صرف فلسطینیوں کا
  • برصغیر کا پولینڈ
  • جنگ کی صلیب پر رکھا ہوا یوکرین
  • عبدالقادر حسن کی یاد میں
  • طلاق 90 روز کی مدت پوری ہونے تک مؤثر نہیں ہوسکتی: سپریم کورٹ
  • پاکستان معدنی وسائل، مقامی مواد اور نوجوانوں کے جوہر میں دنیا سے کم نہیں: ڈاکٹر طاہر عرفان
  • پوپ لیو کی پہلے غیرملکی دورے کے دوران استنبول کی مشہور سلطان احمد مسجد آمد
  • جمہوری افغانستان بہتر ہو گا!
  • غزہ اور عالمی طبی برادری کی بے حسی