آج بھی وہ آزادی حاصل نہیں جو بھائی کے پاس ہے، حبا علی خان
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
اداکارہ حبا علی خان کا کہنا ہے کہ انہیں وہ آزادی حاصل نہیں جو ان کے بھائی کے پاس ہے۔
اے آر وائی پوڈ کاسٹ میں حال ہی میں اداکارہ حبا علی خان نے شرکت کی اور اس دوران مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ بچیوں کو دل بہلانے کے لیے کہانی سنائی جاتی ہے کہ تم پر شک نہیں کررہے تم پر تو بھروسہ ہے زمانہ بہت خراب ہے، اس کا اب ہم کیا علاج لائیں، لڑکیاں کہتی ہیں کہ سہی کہہ رہے ہیں۔
حبا علی خان نے کہا کہ میں انڈسٹری میں کام کرتی ہوں، گاڑی چلاتی ہوں، جو دل میں آتا ہے پہنتی ہوں لیکن بہت سی آزادی آج میرے پاس نہیں ہے جو بھائی کے پاس 12 سال کی عمر سے ہوں۔
اداکارہ نے کہا کہ اگر میں کہوں کہ میرا دوست کہہ رہا تھا تو خاندان والے پلٹ جاتے ہیں کہ ’کہہ رہا تھا۔‘ یا تم ہمیں اتنا کمزور سمجھا ہوا ہے، اگر عورتیں ہیں تو لڑکا دوست نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکے بہت غلط ہیں کہ لڑکیوں کو دوست نہیں سمجھتے۔
حبا علی خان نے کہا کہ عورتوں کو دیکھ کر زیادہ پریشان عورتیں ہی ہیں اور وہ اپنا غصہ مرد پر نکالتی ہیں، میرے پاس کپڑے، گاڑی نہیں ہے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: حبا علی خان نے کہا کہ
پڑھیں:
کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟
قوم اس مرتبہ اپنا اناسی واں یوم آزادی جوش و خروش سے منائے گی۔ ہر سال ہی ہر پاکستانی اپنی اپنی بساط کے مطابق 14 اگست کی تیاری کرتا ہے بلکہ ملکی اور قومی سطح پر بھی یوم آزادی کو شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ قومی پرچم گھروں اور سرکاری عمارتوں کی چھتوں پر دکھائی دیتے ہیں، میڈیا پر اس حوالے سے خصوصی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں، اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ آزادی کو بھرپور انداز سے منانے کی باوجود ہم صحیح معنوں میں آزادی کے فلسفے سے روشناس نہیں ہوئے۔
وجہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ ہم نے آزادی کو محض ایک دن کے طور پر منانا تو قبول کرلیا ہے لیکن اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں لاسکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی آزادی کے وہ معنی سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں جن کےلیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟ کیا ہم نے آزادی کی حقیقی روح کو سمجھ کر اسے مکمل طور پر حاصل کرلیا ہے؟
آزادی کا مطلب ہے ہر فرد کا اپنے خیالات، عقائد، اور زندگی کے ہر شعبے میں مکمل خودمختاری کا ہونا۔ ذہنی آزادی، معاشرتی آزادی، اقتصادی آزادی، اور سیاسی آزادی، یہ سب مل کر حقیقی آزادی کی تعریف کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص بلا خوف و خطر اپنی رائے کا اظہار کرسکے، جہاں انصاف ہو، اور جہاں ہر فرد کو برابر کے مواقع ملیں، وہی حقیقی آزادی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے لیکن کئی آوازیں دبا دی جاتی ہیں۔ معاشرتی آزادی بھی پابندیوں کا شکار ہے۔ رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر معاشرے میں تفریق پائی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ساری ذمے داری اگرچہ حکومت کی بھی نہیں ہے، ہمیں انفرادی انداز میں ملک کی ترقی کےلیے آگے بڑھنا چاہیے لیکن ہم فرقہ واریت، نسلی تعصب، جھوٹ، مکر و فریب اور دیگر سماجی برائیوں سے اپنا دامن نہیں چھڑاتے۔ اپنی اخلاقی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے، خواہ وہ سڑک پر سے کوڑا کرکٹ اٹھانا ہو یا کسی غریب کی مدد کرنا ہو، یا کسی کے راستے سے پتھر ہٹانا ہو، ہم چھوٹی چھوٹی نیکیاں نہیں کماتے۔
ہماری آزادی کو محدود کرنے والے کئی عوامل ہیں۔ بدعنوانی اور ناانصافی نظام کو کمزور کرتے ہیں، اور معاشرت میں عدم مساوات کو بڑھاتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں خامیاں شعور اور سوچ کو محدود کرتی ہیں، جس کی وجہ سے لوگ اپنی آزادی کی قدر نہیں سمجھ پاتے۔ قدامت پسند رسم و رواج بھی بہت سے افراد، خصوصاً خواتین، کو مکمل آزادی حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔ ساتھ ہی، دہشت گردی اور داخلی و خارجی مسائل کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام پایا جاتا ہے، جو حقیقی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
حقیقی آزادی حاصل کرنے کےلیے ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر بہتری کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور شعور کو بڑھانا ہوگا تاکہ ہر فرد اپنی حقوق اور ذمے داریوں کو سمجھ سکے۔ جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ہر شخص کی آواز کو سنا جاسکے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ انصاف کا نظام شفاف اور مؤثر بنانا ہوگا تاکہ ہر ظلم کے خلاف ایک مضبوط قانونی راستہ موجود ہو۔ سماجی تبدیلی کو فروغ دینا ہوگا، خصوصاً برداشت اور رواداری کے جذبے کو فروغ دینا ہوگا۔
نوجوانوں کی توانائی اور جذبے کو مثبت انداز میں استعمال کرنا ہوگا تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
14 اگست محض ایک دن نہیں بلکہ ایک عہد ہے جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو عظیم تر حقیقی معنوں میں بنائیں گے، خود میں تبدیلی پیدا کریں گے، اپنی اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور عالمی دنیا میں پاکستان کا پرچم باوقار انداز میں لہرائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔