بڑے شہروں کے مسائل اور ہماری ترجیحات
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
پاکستان کے حکمرانی کے نظام میں بہت زیادہ شفافیت کا عمل نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ عام آدمی سے لے کر پڑھے لکھے افراد تک یا پالیسی سازی کی سطح پر فیصلے کرنے والے افراد اور ادارے موجودہ حکمرانی کے نظام سے مطمئن نظر نہیں آتے۔حکمرانی کے نظام میں بہتری کے لیے ہمیں جن بڑی اصلاحات یا جدیدیت کے نظام کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس سے گریز کرنے کی پالیسی نے ہماری مشکلات میں اور زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔
بالخصوص بڑے شہروں کے مسائل بہت زیادہ گھمبیر ہو چکے ہیں اور اگر ہم نے فوری طور پر ان مسائل پر توجہ نہ دی یا کوئی ہنگامی اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں یہ بڑے شہر مزید بدحالی کا منظر نامہ پیش کریں گے۔اگر ہم کراچی،لاہوراور راولپنڈی،ملتان،فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ کو دیکھیں تو ان بڑے شہروں کا نظام بہت سی خرابیوں کے ساتھ ہماری توجہ کا مستحق ہے۔
ناجائز طور پر تجاوزات، بھاری بھرکم ٹریفک،پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا،صاف پانی کی عدم دستیابی، سیوریج کا ناقص نظام،سڑکوں کی حالت زار،صفائی کے نظام کا نہ ہونا،امن وامان کی صورتحال اور جرائم میں اضافہ،کھیلوں کے میدان کی کمی،پولیس کا کمزور نظام،سرکاری اسپتالوں کے حالات ،ریگولیٹری اتھارٹیوں کی عدم شفافیت،کمزور نگرانی اور جواب دہی احتساب کا نظام جیسے مسائل سرفہرست نظر آتے ہیں۔
عمومی طور پہ حکمرانی کے نظام میں بڑے اور چھوٹے شہروں کے درمیان ایک بنیادی نوعیت کا فرق رکھا جاتا ہے۔ یہ فرق بڑے شہروں کے مسائل کی درجہ بندی کرتے ہوئے بہت سے غیر معمولی اقدامات کو تجویز کرتا ہے۔عمومی طور پر دنیا کے حکمرانی کے نظام میں بڑے شہروں کی سطح پرموجود نظام میں ماسٹر پلان کو بنیادی فوقیت حاصل ہوتی ہے۔بڑے شہروں کے ماسٹر پلان 10 سے 20 برسوں پر محیط ہوتے ہیں اور اسی ماسٹر پلان کو کامیاب بنا کر بڑے شہروں کے مسائل کو منصفانہ و شفاف بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے۔
بڑے شہروں کے مسائل کے حل میں مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کو بنیادی فوقیت حاصل ہوتی ہے۔یعنی بڑے شہروں میں سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کو اس انداز سے کیاجاتا ہے کہ اس سے شہروں کی حقیقی ترجیحات متاثر نہ ہوں اور وسائل کی تقسیم بھی اس بنیاد پر ہو کہ کمزور لوگوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہو سکیں۔بڑے شہروں کے مسائل اس لیے بھی بڑھ گئے ہیں کہ ہمارے چھوٹے شہر بنیادی اعلی سہولتوں سے محروم نظر آتے ہیں۔جب چھوٹے شہروں میں بنیادی نوعیت کی سہولیات میسر نہیں ہوں گی تو لوگ اپنی بقا کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔اسی لیے آج کے جدیدیت کے نظام میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کو بھی بنیادی سہولتوں سے آباد کیا جائے اور یہ ہی عمل بڑے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے بڑے شہروں کو ایک بے ترتیبی کے ساتھ آگے بڑھایا ہے اور کسی بھی سطح پر کسی روڈ میپ یا ماسٹر پلان کو فالو نہیں کیا گیا ، ہم نے شہروں کو بڑی بے ترتیب بنیادوںپر جوڑا ہے اور جو بھی حکمران آیا ہے اس کی ترجیحات ماضی کے حکمرانوں سے مختلف ہوتے ہیں اور وہ اقتدار میں آکر شہروں کے نقشے بدل دیتے ہیں۔بڑے شہروں کی تعمیر و ترقی میں ہم عام آدمی یا کمزور طبقات کے مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں مثال کے طور پر آپ کو بڑے شہروں میں فٹ پاتھ نظر نہیں آتے یا سڑکوں پرسائیکل سواری کے ٹریک دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔اسی طرح بڑے شہروں میں گاڑیوں کی بھرمار نے پورے شہر کے ٹریفک کے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ ہم لوگوں کو کئی کئی گھنٹوں تک سڑکوںہی پر خواری کرنی پڑتی ہے۔اسکولوں، کالجوں اور دفتری اوقات کار میں شہر کی ٹریفک بدترین منظر پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور ان کو کنٹرول کرنے کا نظام بھی ناقص ہے۔
اگرچہ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کے جدید نظام متعارف کروائے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بڑے شہروں میں موٹر سائیکل رکشہ موجود ہے اور اگر ان کو نکال دیا جائے تو شہروں میں چھوٹے علاقوں سے بڑے علاقوں تک کا سفر مشکل ہو جائے گا۔اسی طرح بڑے شہروں کے کھیلوں کے میدان اس حد تک کمرشلائز ہو گئے ہیں کہ عام نوجوان بغیر پیسے دیے ہوئے ان میدانوں میں کھیل نہیں سکتے۔لڑکیوں کے لیے تو بڑے شہروں میں کھیلوں کے میدان ہی موجود نہیں ہیں۔بڑے شہروں میں کمیونٹی سینٹرز کی عدم موجودگی بھی لوگوں کو مختلف تفریحی مواقعوں سے محروم کرتی ہے۔بڑے شہروں کی آلودگی بھی شہریوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے۔
اسی طرح سے بڑے شہروں میں بننے والی بلڈنگز یاکاروباری سطح کی عمارات کی تعمیر میں بھی نہ صرف ایک بے ترتیبی ہے بلکہ تعمیرات سے جڑے قانون کو بھی فالو نہیں کیا جاتا۔بڑے شہروں میں بہت سے ترقیاتی منصوبے بغیر منصوبہ بندی کے شروع ہوتے ہیں اور بہت سے منصوبوں کی صوبائی اسمبلیوں سے منظوری بھی نہیں لی جاتی۔اسی طرح وہ علاقے جہاں کمرشلائزیشن نہیں ہونی چاہیے تھی وہاں بھی کمرشلائزیشن نے شہروں کی صورتحال کو مزید بدنما کردیا ہے۔
ہم شہروں کو درست کرنے کی بجائے ان کا پہلے سے موجود حلیہ بگاڑ رہے ہیں۔ بڑے شہروں کی ترقی جہاں ترقیاتی منصوبوں سے جڑی ہوئی ہے وہیں انسانی ترقی اور شہروں کی ترتیب کی شفافیت کو ممکن بنانا بھی حکومتی ترجیحات اور خاص طور پر ماحولیاتی آلودگی سے شہروں کو بچانا ان کا فرض بھی ہے۔
بنیادی طور پر آج کے جدیدیت اور مبنی حکمرانی کے نظام میں خود مختار اور شفاف مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔مقامی حکومتوں کا مربوط اور جامع نظام ہی بڑے شہروں کے مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔بڑے شہروں کا ماسٹر پلان جہاں صوبائی حکومت کی ترجیحات کا حصہ ہوتا ہے وہیں مقامی حکومتیں اپنی ترجیحات کی بنیاد پر اس ماسٹر پلان پر اتفاق رائے کے عمل کو پیدا کرتی ہیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام ہی منصفانہ نگرانی اور جواب دہی کے نظام کو ممکن بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔لیکن ہم دنیا کے جدید نظام سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ 1973 کے آئین میں مقامی حکومتوں کو تیسری حکومت کا درجہ ملنے کے باوجود ہم مقامی حکومتوں کے نظام کو مستحکم بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس وقت بھی پنجاب مقامی حکومتوں کے نظام سے محروم ہے اور دیگر صوبوں میں بھی موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے شہر اپنی ترقی کے تناظر میں بہتری کو پیدا کرنے کی بجائے خرابیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کی منظوری کے باوجود ہمارے بڑے شہر اختیارات کی تقسیم سے محروم ہیں اور صوبائی سطح پر اضلاع میں مقامی حکومتوں کے نظام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اصل میں ہمارا مجموعی سیاسی اور ریاستی نظام اختیارات کی تقسیم کے خلا ف ہے اور ہم اختیارات کی اس تقسیم کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں اصولی طور پر بڑے شہروں سے جڑے مسائل کا بہتر طور پر ادراک کرنا ہوگا اور وہاں موجود مسائل کو اس کی ترجیحات کی بنیاد پر سمجھنا ہوگا۔سیاسی جماعتیں اور ان سے جڑی قیادت کو بھی بڑے شہروں کے مسائل پر وہ ادراک نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود بڑی سیاسی جماعتوں کا اپنا روڈ میپ موجود نہیںاور نہ ہی وہ اقتدار میں آکر وہ کردار ادا نہیں کرتیںجو لوگوں کی ان سے توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔
اسی طرح اب وقت آگیا ہے کہ ہم بڑے شہروں کی ترقی کے ماڈل پر غور کریں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا وجہ ہے ہم ان بڑے شہروں میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کے باوجود ترقی کے ماڈل کو شفافیت میں تبدیل نہیں کرسکیں۔ہمیں بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کی ترقی کے ماڈل کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا کیونکہ جب تک چھوٹے شہروں یا دیہی علاقوں سے لوگوں کی آمد کو بڑے شہر میں آنے سے نہیں روکیں گے بڑے شہروں کا بوجھ بڑھتا ہی جائے گا ۔
اس کا حل چھوٹے شہروں کی ترقی سے ہی جڑا ہوا ہے۔لیکن ہماری حکمرانی کے نظام میں ترجیحات کی عدم شفافیت ہی بڑی خرابی کے زمرے میں آتی ہے۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم دنیا میں ہونے والی ترقی کے عمل سے سیکھیںاور اپنی موجودہ ترجیحات کو تبدیل کریںکیونکہ موجودہ حکمرانی کا نظام ہماری ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا۔بڑے شہروں کے حالات ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم اب بڑے شہروں کے ماڈل کو نئے سرے سے ترتیب دیں اور کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں۔
یہ جو پالیسی ہے کہ ہم نے روائتی طور طریقوں سے حکمرانی کے نظام کو آگے بڑھانا ہے اس سے اب ہمیں گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ لوگ بڑے شہروں میں رہنا چاہتے ہیں مگریہاں موجود مسائل ان کے لیے کافی گھمبیر ہوگئے ہیں اور وہ ان مسائل کا حقیقی طورپرحل چاہتے ہیں۔لیکن یہ کام آسانی سے نہیںہوگا بلکہ بڑے شہروں کے غیر معمولی حالات ہیں ان میں غیر معمولی اقدامات ہی مسائل کا حل بن سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مقامی حکومتوں کے نظام کو حکمرانی کے نظام میں بڑے شہروں کے مسائل یہ ہی وجہ ہے کہ شہروں کی ترقی بڑے شہروں میں بڑے شہروں کا بڑے شہروں کی چھوٹے شہروں اختیارات کی ماسٹر پلان چھوٹے شہر کی تقسیم مسائل کو شہروں کو ہے کہ ہم کرنے کی کا نظام بڑے شہر ترقی کے ہیں اور کے ساتھ میں بہت کے ماڈل کے لیے ہیں کہ ہے اور کی عدم
پڑھیں:
کوکنگ آئل اور ہماری صحت
سائنسی نقطہ نگاہ سے ایک اسٹڈی کی گئی کہ سب سے بہتر کھانے کا تیل کون سا ہے۔ جس میں 30کے قریب آئل کے برانڈز کو ٹیسٹ کیا گیا کیونکہ بہت سی خطرناک بیماریاں یعنی کینسر اور دل کے امراض ناقص تیل کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں ۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون سے تیل استعمال کرنے چاہیں اور کون سے نہیں ۔اس وقت اولیو آئل ، پام آئل ، کینولا آئل ، سن فلاور وغیرہ پوری دنیا میں بہت زیادہ استعمال ہو رہے ہیں ۔ آئل میں دو قسم کے فیٹfat) (ہوتے ہیں ۔
پہلا سیچوریٹڈ فیٹ اور دوسرا ان سیچوریٹڈ فیٹ ، دیسی گھی ،مکھن اور ڈالڈا میں بھی سیچوریٹڈ فیٹ ہوتے ہیں لیکن یہ کمرے کے درجہ حرارت پر پگھلتے نہیں اس لیے یہ نقصان دہ ہیں ۔ اگر ہمارے جسم میں مناسب مقدار میں فیٹ نہیں ہونگے تو ہماری باڈی وٹامن کو جذب نہیں کر سکے گی ۔اس کے علاوہ یہ فیٹ ہماری باڈی کے سیلزسٹریکچر کو بھی بناتے ہیں ۔ لیکن جب ہم دیسی گھی مکھن استعمال کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ ہمارا کولیسٹرول لیول بڑھنا شروع ہو جاتا ہے ۔ ہمارے جسم کو اومیگا تھری اور اومیگا سکس چاہیے ہوتا ہے جو انسانی دماغ کے لیے بہت ضروری ہے ۔ جب کہ اومیگا تھری خون کی نالیوں کو کھولتا ہے ۔ اس طرح ہمیں دل کے اٹیک سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اگر اومیگا سکس کو بہت زیادہ استعمال کیا جائے جو سرسوں کے تیل میں ہوتا ہے تو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
علاوہ اس کے الزائمر دل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ دل کی نالیوں کو تنگ کرتا ہے ۔ اگر آپ ایک ایسے تیل کا استعمال کر رہے ہیں تو یہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے ۔ اس کے لیے ہمیں ایک ایسا کوکنگ آئل استعمال کرنا چاہیے جس میں اومیگا تھر ی اور اومیگا سکس کی مناسب مقدار ہو ۔ اومیگا تھری ہمارے جسم کے اندر نہیں بنتا ، چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مچھلی آئل اور خشک میوہ جات استعمال کرنے چاہیے ۔مچھلی آئل دماغ کے لیے بہت مفید ہے ۔ یہ حافظے کو طاقتور بناتا ہے ، مچھلی آئل دل کی صحت اور بلڈ پریشر کے لیے بہت مفید ہے۔ جسم کی اندرونی سوجن کو ٹھیک کرتا ہے ، دماغ کے لیے بہت اچھا ہے ، خاص طور پر طالبعلموں کی دماغی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے ۔
جب آپ کسی کوکنگ آئل کو انتہائی درجہ حرارت پر گرم کرتے ہیں تو سرسوں کا تیل کسی اور کیمیکل میں بدل جاتا ہے ۔ کیونکہ اس تیل کو بار بار اور بہت زیادہ پکانے سے ان ہوٹلوں یا ان جگہوں پر جہاں اس تیل کو بار بار استعمال کیا جائے یعنی ایک ہی تیل کو تو اس جگہ پر ایک خاص قسم کی بدبو پیدا ہو جاتی ہے ۔ ایسے تیل کے استعمال کی وجہ سے ذیابیطس ٹائپ ٹو ہونے کا شدید خطرہ ہوتا ہے ۔ ایسے زہریلے آئل کی وجہ سے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، ذہانت کم ہو سکتی ہے اور مزید یہ کہ دل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں ۔
ایکسٹرا ورجن آئل کا استعمال سائنسی نقطہ نگاہ سے انسانی جسم کے لیے بہت مفید اور محفوظ ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ اولیو آئل صرف اس صورت میں فائدہ مند ہے جب ہم چائے کے چھوٹے چار چمچ سلاد پر ڈال کر کھائیں لیکن اگر ہم اسکو انتہائی درجہ حرارت پر پکائیں گے یا اس میں کھانا پکائیں گئے تو یہ اپنی شکل تبدیل کرکے ایک ایسے کیمیکل میں بدل جائے گا جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ اولیو آئل کو پکانے کے لیے صرف فرائی پین میں استعمال کرسکتے ہیں یعنی انڈہ ، شامی کباب وغیرہ یعنی وہ تمام اشیاء جو کم درجہ حرارت پر پک سکتی ہیں ۔ جب کہ اولیو آئل تمام کوکنگ آئل میں ایک مہنگا آئل ہے ۔
کیتھرائنا ریڈل ایک ریسرچ میں بتاتی ہیں کہ جن کا تعلق کوئین مارگریٹ یونیورسٹی ہے انھوں نے پام آئل پر ریسرچ کی جس کا پوری دنیا میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ اس آئل کا استعمال ہوٹلوں اور بیکریوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ خاص طور پر اس تیل سے کیک اور بسکٹ بنائے جاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سیچوریٹڈ فیٹس بہت زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں جوانسانی صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ چنانچہ ان خاتون نے پام آئل کی ایک نئی قسم ایجاد کی ۔اس میں سیچوریٹڈ فیٹ عام پام آئل کے مقابلے میں 88فیصد کم ہوتے ہیں لیکن اس پام آئل کی قسم ہمارے ملک میں ابھی دستیاب نہیں ہے۔
اب آتے ہیں سرسوں کے آئل کی طرف جو ایشیاء میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتاہے لیکن اس پر بہت زیادہ ریسرچ نہیں ہوئی ہے ۔ اس میں بھی اومیگا سکس اور اومیگا تھری کی بڑی اچھی مقدار پائی جاتی ہے لیکن سرسوں کے تیل میں اومیگا سکس کی کچھ زیادہ مقدار ہی پائی جاتی ہے ۔ اس لیے سرسوں کے تیل کا زیادہ استعمال بھی انسانی صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ کیونکہ اس کا زیادہ استعمال یورک ایسڈ بڑھا سکتا ہے ۔سن فلاور بھی ایک اچھا تیل ہے اور اس کے علاوہ کینولا آئل کا استعمال بھی بہتر ہے ، لیکن یاد رہے مکھن کا استعمال نقصان دہ ہے لیکن دیسی گھی اگر آپ کم مقدار میں استعمال کریں تو ٹھیک ہے ۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو حالیہ اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پنجاب فوڈز اتھارٹی نے تقریباً 10ہزار لیٹر ناقص کوکنگ آئل ضبط اور2000کلو سے زائد مردہ مرغیاں تلف کردی ہیں ۔ جسے فائیو اسٹار ریسٹورنٹس میں بھی سپلائی ہونا تھا۔ اس کے علاوہ ہزاروں لیٹر کیمیکل دودھ ہر ہفتے کئی مرتبہ تلف کیا جارہا ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں یہ جرم قتل آمد کے زمرے میں آتا ہے جس کی سزا کم از کم عمر قید یا سزائے موت ہونی چاہیے ۔ علاوہ ازیں ان جرائم پیشہ افراد کی تمام دولت ، جائیداد بحق سرکار ضبط کرنی چاہیے خالی خولی معمولی جرمانوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ خطرناک بیماریوں میں مبتلا افراد ان بیماریوں کا علاج کرواتے کرواتے مالی طور پر تباہ وبرباد ہو جاتے ہیں ۔ اعلی عدلیہ سے گزارش ہے کہ اس انتہائی اہم عوامی مسئلہ پر فوری طور پر سو موٹو نوٹس لیا جائے ۔