چین نے ڈبلیو ٹی او قوانین کو کمزور کرنے پر امریکہ کی مذمت کر دی
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
چین نے ڈبلیو ٹی او قوانین کو کمزور کرنے پر امریکہ کی مذمت کر دی WhatsAppFacebookTwitter 0 1 May, 2025 سب نیوز
بیجنگ :ڈبلیو ٹی او کمیٹی برائے سبسڈیز اینڈ کاؤنٹر ویلنگ اقدامات کے اجلاس میں چینی نمائندے نے امریکہ اور دیگر اراکین کی جانب سے چین کے خلاف لگائے گئے جھوٹے الزامات کی سختی سے تردید کی، ڈبلیو ٹی او کے قوانین کو سنگین طور پر پامال کرنے پر امریکہ کی نام نہاد محصولات” اور امتیازی سبسڈی پالیسیوں کی مذمت کی، اور ممبران پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے سے متحد ہوکر تعاون کریں، یکطرفہ اور تحفظ پسندی کی مخالفت کریں اور ڈبلیو ٹی او پر مبنی کثیر الجہتی تجارتی نظام کا دفاع کریں۔جمعرات کے روز چینی فریق نے کہا کہ امریکہ اور دیگر ارکین کی جانب سے “حد سے زیادہ پیداواری قوت ” کی تشہیر کی اصل یہ ہے کہ وہ اپنی مسابقت اور مارکیٹ شیئر کے بارے میں فکرمند ہیں، اور “حد سے زیادہ پیداواری قوت” سے چین کو بدنام کرنے اور دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنے یکطرفہ اور تحفظ پسند انہ اقدامات کے لئے ایک فضول بہانہ تلاش کرتے ہیں۔
چینی فریق نے نشاندہی کی کہ امریکہ کے نام نہاد “ریسیپروکل محصولات” عالمی تجارت میں خلل ڈالتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں، جبکہ چین عالمی تجارتی ترقی کا “اسٹیبلائزر” ہے اور ہمیشہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پیداواری قوت کے معاملے پر چین پر بار بار الزام تراشی اور بدنامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ “زیرو سم گیم” اور “امریکہ فرسٹ” پر عمل کیا ہے، صرف اپنے مفادات کی پرواہ کی ہے، اور یہ نہیں مانتا کہ وہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کے ذریعے جیت کے نتائج حاصل کرسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی چین نے امریکی امتیازی سبسڈی پالیسی کے ایجنڈے کے تحت امریکی “چپس اینڈ سائنس ایکٹ” اور دیگر متعلقہ امتیازی سبسڈیز اور نام نہاد “ریسیپروکل محصولات” کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ ان اقدامات سے مارکیٹ کو مسخ کیا جا رہا ہے،اور “دوہرے معیار” کی پیروی کرتے ہوئے ڈبلیو ٹی او کے قوانین کو کمزور کیا جائے گا۔ چینی فریق نے نشاندہی کی کہ امریکی طرز عمل معاشی مارکیٹ کے قانون سے انحراف کرتا ہے اور بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے معمول کے نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ چین اراکین پر زور دیتا ہے کہ وہ تعاون کو مضبوط بنائیں، امریکہ کی طرف سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی مخالفت کریں اور مشترکہ اصولوں پر مبنی کثیر الجہتی تجارتی نظام کو برقرار رکھیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربرکس ممالک طاقتور ممالک کو روکنے کے لیے واضح طور پر کھڑے ہوں، چینی وزیر خارجہ برکس ممالک طاقتور ممالک کو روکنے کے لیے واضح طور پر کھڑے ہوں، چینی وزیر خارجہ چین کا نیا ترقیاتی ڈھانچہ – “100 ملین جوتوں” سے “ایک چپ” تک بڑی اسٹریٹجک منتقلی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی وفاقی حکومت کا بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کا عندیہ اوگرا نے مئی کیلئے ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کر دی وائٹ پیپر’’نوول کورونا وائرس وباء کی روک تھام، کنٹرول اور وائرس کی ابتداء کا سراغ لگانے پر چین کے اقدامات اور موقف‘‘ کا اجراءCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ڈبلیو ٹی او قوانین کو امریکہ کی
پڑھیں:
اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک کو نیٹو کے طرز پر اتحاد بنانا چاہیے، مجھے مسلم ممالک کے اجلاس میں مایوسی نہیں ہوئی، حماس کی قیادت امریکہ کی مرضی سے قطر میں بیٹھی تھی، قطر میں اسرائیلی حملہ امریکی کی مرضی سے ہوا۔ بڑا واقعہ ہے کچھ وقت لگے گا لیکن کچھ نا کچھ ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے قطر میں اسرائیلی حملہ امریکی کی مرضی سے ہوا، مسلم دنیا کو سمجھنا چاہیے، اپنے دوست نما دشمن میں تفریق کر لیں۔ گز شتہ روز نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا مسلم ممالک کو نیٹو کے طرز پر اتحاد بنانا چاہیے، مجھے مسلم ممالک کے اجلاس میں مایوسی نہیں ہوئی، حماس کی قیادت امریکہ کی مرضی سے قطر میں بیٹھی تھی، قطر میں اسرائیلی حملہ امریکی کی مرضی سے ہوا۔ بڑا واقعہ ہے کچھ وقت لگے گا لیکن کچھ نا کچھ ہوگا۔
انہوں نے کہا غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے یہ سب کچھ امریکہ کی مرضی کیساتھ ہوا ہے، شام میں امریکہ کی مرضی سے حکومت آئی ہے، اسرائیل اس پر بھی حملے سے باز نہیں آ رہا۔ وزیر دفاع نے کہا اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، اس کو سوڈان سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لائے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا امریکہ اور مغرب میں جو رائے عامہ بن رہی ہے، یہ اسرائیل کیلئے زیادہ خطرناک ہے، امریکہ اور باقی دنیا میں رائے عامہ اسرائیل کیخلاف ہو رہی ہے۔