Daily Ausaf:
2025-11-19@08:36:28 GMT

آر ایس ایس کی مسلم دشمنی اور آبی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

پہلگام فالس فلیگ آپریشن دراصل پلوامہ ڈرامے کی نئی قسط ہے۔ لاکھوں بھارتی فوجیوں، پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کی موجودگی میں دہشت گرد نہتے سیاحوں کو قتل کر کے چلتے بنے۔ یہ واردات سیکورٹی اداروں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ دس منٹ کے اندر درج کی جانے والی جھوٹی ایف آئی ار نے بھارتی ڈرامے کو مزید بےنقاب کردیا۔ بی جے پی کی رگوں میں مسلم دشمنی خون بن کر دوڑتی ہے۔ بھارتی میڈیا اور سرکاری ذرائع یہ واویلا مچا رہے ہیں کہ دہشت گردوں نے سیاحوں کا مذہب دریافت کیا اورچن چن کر ہندو سیاحوں کو اپنا نشانہ بنایا ۔یہ واویلا صرف اس لئے کیا جا رہا ہےکہ ہندوستان میں بسنے والی مسلم برادری کو دہشت گرد قراردیاجاسکے۔ پورے ہندوستان میں بی جے پی کے غنڈے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں، بےگناہ نہتے اور بے ضرر مسلمان طالب علموں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ جنونی ہندو یہ دعوے کر رہے ہیں کہ 26 سیاحوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے 2600 مسلمانوں کا خون بہایا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کی قیادت میں بی جےپی سرکار نےجس طرح ریاستی اداروں اور اختیارات کو ہندوستانی مسلمانوں کا وجود مٹانے کے لئے استعمال کیا ہے اسے کیا نام دیاجائے؟
بابری مسجد کی شہادت، گائے ذبح کرنے کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل ، مساجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی مہم، مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی، مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل اور آسام میں مسلمانوں کی شہریت کی منسوخی جیسے نفرت انگیز اقدامات کو کیا نام دیا جائے؟ بی جے پی دراصل اپنی مادر تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے۔ آر ایس ایس کے بانی گوالکر نے ہندوتوا کی صورت بھارت کو ایک ہندو ریاست میں ڈھالنے کا تصور پیش کیا۔ یہ وہی تنظیم ہے جس کے ایک شدت پسند نتھو رام گوڈسے نے ہندوستان کے بابائے قوم موہن لال گاندھی کو صرف اس لیے قتل کر دیا کہ وہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ہندوستان سے مسلمانوں سمیت دیگر مذہبی اقلیتوں کا صفایا کرنا آر ایس ایس کا بنیادی منشور رہا ہے ۔ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد اس ایجنڈے پر تیزی سے کام کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کی منسوخی سے لےکر آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنےکے لئے وہاں غیرکشمیریوں کی منتقلی جیسے اقدامات نےاصل ایجنڈے کو بےنقاب کردیا ہے۔ پہلگام حملےکا بہانہ بناکر ایک جانب مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں ریاستی مظالم کے لیےجواز پیدا کر رہی ہےتودوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کےلیے پاکستان پر سرحد پاردہشت گردی کے جھوٹے الزام عائدکررہی ہے۔ ساتھ ساتھ ہی بہار میں آنے والے الیکشن میں پاکستان کے خلاف جنگ کا ڈھنڈورا پیٹ کر ووٹ بٹورنےکا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ڈپٹی وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس پی ار اور دفترخارجہ کے ترجمان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارت کی جعلسازی اورمسلم دشمنی سے متعلق ناقابل تردید شواہد پیش کئے ہیں
عالمی برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت نے پاکستان کی جانب سے شفاف تحقیقات کی پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا۔ پہلگام حملے کو بنیادبناکرسندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ منسوخی دراصل عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ماضی میں اوڑی حملے کے بعد بھی مودی نے پاکستان کا پانی بند کرنے کی زہریلی دھمکیاں دی تھیں۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آر ایس ایس کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے آبی جنگ کا آغاز کرنا چاہتی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کے مطابق پاکستان کے پانی کو روکنے کہ کسی بھی کوشش کو اقدام جنگ تصور کیا جائے گا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ بھارت کی مسلط کردہ آبی جنگ کے خطرے سے نمٹنے کے لئے ایک متفقہ قومی حکمت عملی تشکیل دی جائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: آر ایس ایس بی جے پی رہا ہے کے لئے

پڑھیں:

’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے

علامہ محمد اقبال ؒ ، جنہیں اہلِ ایران محبت سے اقبالِ لاہوری کہتے ہیں،ہمارے قومی شاعر ہیں۔ اُنہیں جدید دَور کے علمائے فلاسفہ میں بھی بلند مقام حاصل ہے ۔ ہم اُنہیں شاعرِ مشرق ، حکیم الامت اور یکے از بانیِ پاکستان کے خوبصورت اور دلکش ناموں سے بھی یاد کرتے اور پکارتے ہیں ۔ اِس موقع پر مجھے ’’اقبال کے حضور‘‘ نامی ایک نہائت شاندار تصنیف یاد آ رہی ہے ۔ اِسے جناب سید نذیر نیازی نے تحریر کیا۔یہ دراصل علامہ اقبال کے دولت کدے پر برپا لاتعداد مجالس کی ڈائری ہے ۔

سید نذیر صاحب مرحوم اِن بلند علمی مجالس میں باقاعدہ شریک ہوتے تھے ۔ حکیم الامت کی زبان سے جو کچھ بھی سُنتے ، ڈائری میں لکھ لیتے اور بعد ازاں علامہ اقبال کو اپنے لکھے الفاظ دکھا اور پڑھا کر اِسے محفوظ کر لیتے ۔ یہی محفوظ الفاظ بعد ازاں کتابی شکل میں ’’اقبال کے حضور‘‘ کے زیر عنوان شائع ہُوئی ۔ اِس دلکشا تصنیف میں ہم علامہ اقبال ؒ کو اپنے کلام ، نظریات اور افکار کی تشریح وتفسیر اور گرہ کشائی فرماتے دیکھتے ہیں ۔مذکورہ تصنیف میں مصنف نے، محبت و احترام سے، علامہ اقبال ؒ کو ہر جگہ ’’حضرت علامہ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے ۔

یہی بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ، فلسفی اور ہمارے نظریہ ساز، علامہ اقبالؒ، اپنے ایک معروف شعر میں فرماتے ہیں کہ دُنیا میں وہی قومیں اپنی منزل پر پہنچنے میں رکاوٹوں اور کٹھن کا سامنا کرتی ہیںجو آئینِ نَو سے ڈرتی اور طرزِ کہن پر اَڑتی ہیں ۔

یہ طرزِ فکر و عمل ٹھیک نہیں ہے : آئینِ نَو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا/ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں! حضرت علامہ ؒ نے تو ہمیں شعر کی زبان میں ہمارے اجتماعی مرض کی نشاندہی کرتے ہُوئے مدتوں قبل فرما دیا تھا کہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی راہ میں کونسے عناصر ’’کٹھن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اب جب کہ آئینِ پاکستان میں 27ویں ترمیم کی صورت میں ’’آئینِ نَو‘‘ سامنے آ چکا ہے ، دونوں ایوانوں سے منظور بھی ہو چکا ہے اور صدرِ مملکت اِس پر دستخط بھی فرما چکے ہیں تو پرانے آئین پر بدستور اَڑنے اور اَکڑنے کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے ؟

لیکن نہیں صاحب ! بعض لوگ ’’آئینِ نَو‘‘ سے ڈرتے ہُوئے اور اپنی طرزِ کہن پر اَ ڑتے ہُوئے اپنے بلند عہدوں سے مستعفی ہورہے ہیں ۔ حالیہ27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں سپریم کورٹ سے اپنے بلند عہدوں سے بطورِ احتجاج مستعفی ہوتے ہُوئے جن دو صاحبان نے بنامِ صدر جو خطوط لکھے ہیں(ویسے دورانِ ملازمت بھی خط لکھنا ان کا خاص مشغلہ رہا )، اِن خطوط کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین عہدوں اور اعلیٰ ترین مراعات کی حامل ملازمتوں سے رخصت ہوتے ہُوئے اُنہیں خوش رنگ ’’چمن‘‘ کی یاد بھی شدت سے آتی رہی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے فلیش بَیک میں مستعفی ہونے والے معزز افراد کے یہ احتجاجی خطوط دراصل ’’دُکھے دِلوں کی فریاد ‘‘ اور صدا ہے تو اِسے بے جا بھی نہیں کہا جائیگا ۔ استعفیٰ دینے والے دو صاحبان میں سے ایک بڑے صاحب کا دُکھی خط تومبینہ طور پر 13صفحات کو محیط ہے ۔ اِسی سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چوٹ کتنی گہری ہے اور رُخصتی کسقدر بادلِ نخواستہ ہے ۔ آئینِ نَوسے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑنے پر مُصر اِن مستعفی حضرت نے دُکھے دِل اور اپنے ’’ضمیر کی آواز‘‘ کی عکاسی کرتے ہُوئے کچھ اشعار بھی شاملِ خط کیے ہیں ۔ مثلاً:’’مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی/ مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے‘‘۔ وغیرہ۔

ستم ظریف اور’’ بیدرد‘‘وفاقی وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، نے اِس خط اور اشعار پر ردِ عمل دیتے ہُوئے ’’ایکس‘‘ پر لکھا:’’ یہ شعر اُس وقت کیوں یاد نہ آئے جب انصاف کا قتلِ عام ہورہا تھا؟ جب ایک ٹولہ مل کر آئین اور قانون کے محافظ کی بجائے کسی کے سیاسی مفادات کے محافظ بنے ہُوئے تھے ۔ یہ سیاسی پارٹی کے ورکر بنے ہُوئے تھے ۔‘‘خواجہ صاحب نے ردِ عمل دیتے ہُوئے بعض ایسے الفاظ بھی ’’ایکس‘‘ پر لکھ مارے ہیں جن کا ہم یہاں اعادہ نہیں کر سکتے ۔ اتنا مگر ضرور ہے کہ خواجہ صاحب کے یہ الفاظ سُن اور پڑھ کر مستعفی حضرات مزید دُکھی ہُوئے ہوں گے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جو صاحبان بھی مستعفی ہُوئے ہیں، عوام میں اُن کے استعفے پذیرائی حاصل کر سکے ہیں نہ اُنہیں عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو سکی ہیں ۔

عوام کے مصائب اور دُکھوں سے لاتعلقی کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ، مگر جب اقتدار اور اختیار کے شہ زور گھوڑے پر انسان بیٹھا ہو تو اُسے بیکس اور انصاف سے محروم طبقات و افراد کہاں نظر آتے ہیں ؟ وقت کا سفاک اور بیدرد کارواں مگر تھمتا نہیں ہے ۔ دو جسٹس صاحبان کے استعفے اگر سامنے آئے ہیں تو نئی وفاقی آئینی عدالت کے نئے سربراہ ، جناب جسٹس امین الدین خان ، اور تین جج صاحبان بھی اگلے تین برسوں کے لیے حلف بھی اُٹھا چکے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان صاحب کو وفاقی آئینی عدالت کا پہلا سربراہ بننے کا شرف ملا ہے ۔ ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب بھی مستعفی ہونے والوں کی ٖفہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔

آئینِ نَو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑیل ٹٹو کی طرح اَڑنے والے کچھ افراد ، گروہ اور عاقبت نااندیش ہماری مغربی سرحد کے پار بھی بَس رہے ہیں ۔ یہ لوگ اب افغان طالبان، ٹی ٹی پی ، ٹی ٹی اے ، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ مہلک ، لالچی اور اجتماعی طور پر اُمتِ اسلامیہ و اُمتِ پاکستان کے خلاف عناد پر آمادہ مذکورہ گروہوں کا خیال ہے کہ طرزِ کہن پر اَڑے رہنے ہی میں وہ اپنے نجی، گروہی ، بھارتی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں ۔

پاکستان کے خلاف یہی لالچ افغانستان کے مقتدر طالبان مُلّاؤں اور ملوانوں کے وزیر خارجہ، امیر متقی، کو بھارت لے گیا ۔ اور اب اِنہی پاکستان دشمن افغان طالبان رجیم کے نائب وزیر اعظم ، مُلّا عبدالغنی برادر، نے طرزِ کہن پر اَڑے رہنے کی جبلّت کا ثبوت فراہم کرتے ہُوئے 12نومبر2025ء کو اعلان کیا ہے :’’ ہم پاکستان کے ساتھ اپنی جملہ لین دین بند کررہے ہیں۔‘‘برادر کشی کردار کے حامل،عبدالغنی برادر، نے افغان تاجروں کویہ بھی تنبیہ کی ہے کہ ’’ اگلے تین ماہ کے اندر (پاکستان سے ) اپنا تجارتی حساب کتاب بیباک کرو اور تجارت کے لیے نئے ممالک میں نئے راستے تلاش کرو، وگرنہ (پاکستان کے معاملے میں ) ہم کسی افغان تاجر و ٹریڈر کی مدد نہیں کر سکیں گے ۔‘‘

افغان نائب وزیر اعظم کے مذکورہ بیان کا پاکستان نے مناسب ترین اور ترنت جواب دیا ہے ۔ خواجہ آصف نے بھی خوب کہا ہے کہ ’’افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے ۔‘‘ مُلّا عبدالغنی برادر(جو کبھی برسوں پاکستان کی مفت روٹیاں کھاتا اور پاکستانی اداروں کی میزبانیوں سے بے تحاشہ لطف اندوز ہوتا رہا ہے ) نے مذکورہ اعلان کرکے دراصل بھارت، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی اُجیت ڈووَل کی زبان بولی ہے۔ اِس اعلان کے بعد راقم نے کئی بھارتی اخبارات کا مطالعہ کیا ہے ، سبھی عبدالغنی برادر پر نہال ہو رہے ہیں ۔

گویا افغانستان کی غیر نمایندہ حکومت کے عبوری وزیر خارجہ (امیر خان متقی) کے دَورئہ بھارت کے نتائج نکلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ افغان نائب وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کررہا ہے اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اپنے ’’ امن جرگہ‘‘ ( منعقدہ 12 نومبر2025) میں مطالبہ کرتی سنائی دے رہی ہے کہ ’’افغانستان کے ساتھ سارے تجارتی راستے کھولے جائیں ۔‘‘ ایسے ہی موقع پر شائد بولا جاتا ہے: ناطقہ سر بگریباں ہے کیا کہیئے!ہم سمجھتے ہیں کہ مُلّا برادر کا اعلان پاکستان کے لیے Blessing in Disguise ہے ۔ خس کم ،جہاں پاک۔شائد اِسی لیے ہمارے وزیر دفاع نے بھی کہا ہے :’’افغانستان سے آمدورفت کم ہوگی تو پاکستان میں دہشت گردی بھی کم ہوگی۔‘‘ اور اگر ہم روزنامہ ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ میں 14 نومبر2025ء کو ممتاز رپورٹر شہباز رانا کی رپورٹ بالتفصیل پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مُلّا برادر کے اعلان پر اگر پوری طرح عمل ہوتا ہے تو افغانستان ہی کو بھاری تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھ لیں افغان طالبان طرزِ کہن پر اَڑ کر !!

متعلقہ مضامین

  • نو مسلم بھارتی خاتون کا پولیس پر شادی ختم کرنے کیلیے دباؤ ڈالنے کا الزام
  • قاضی احمد،پرانی دشمنی کا شاخسانہ ،نوجوان قتل
  • پاکستان کا بھگت سنگھ حسن ناصر
  • میرواعظ حسن افضل فردوسی کا دہلی کار دھماکے کے بعد کشمیر کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • عرفان صدیقی کی سینیٹ کی نشست پر الیکشن 9 دسمبر کو ہوگا
  • بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر
  • ’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے
  • سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست کی قرارداد، اسرائیلی وزراء کا اظہارِ تحفظات
  • ملکی استحکام کے لئے مزید ترامیم کرنا پڑیں تو بھی کریں گے، طلال چوہدری