Express News:
2025-09-20@18:56:57 GMT

ایک صدی قبل کا قصہ… اکبر بنام اقبال

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

جنگی جنون کے اس ہنگام میں ذہن ماضی کی طرف رجوع پر مائل رہا کہ یہ خطہ کبھی ایک تھا۔ ایک طویل سیاسی اور معاشرتی کشمکش اور جدوجہد نے موجود جغرافیائی حدود کو شکل دی۔ اس دوران ایک صدی قبل کے علمی اور فکری ماحول پر مبنی ایک کتاب نے گویا ایک گم گشتہ دنیا کو مطالعے کی حد تک مجسم کر دیا… ’’خطوط اکبر بنام اقبال۔‘‘

اکبر الہ آبادی اپنی طرز کے منفرد شاعر تھے۔ اکبر الہ آبادی مسلمانوں کے حالات اور سیاسی آزار سے شاکی رہے، کڑھتے رہے۔ دل کے یہی پھپھولے ان کی شاعری میں ظریفانہ طرز میں پھوٹتے رہے اور ایک عالم کو متاثر کرتے رہے۔

ان کا انتقال 1921ء میں ہوا۔ زندگی کے آخری دس بارہ سالوں میں اس زمانے میں مشہور ومعروف ہوئے ۔ معروف شاعر اور فلاسفر نوجوان شیخ محمد اقبال سے اکبر کا قلبی اور ذہنی تعلق قائم ہوا۔ جانبین سے باہمی محبت اور احترام کا یہ تعلق اکبر کی وفات تک قائم رہا۔ دونوں کے درمیان 1910سے خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔

متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ان دو عظیم ہستیوں کے درمیان خط وکتابت ایک وقیع علمی خزانہ ہے۔ معروف محقق اور اردو کے استاد ڈاکٹر زاہد عامر نے کئی برسوں کی تلاش اور محنت سے یہ خزانہ اس کتاب کی صورت میں محفوظ کر دیا جسے قلم فاؤنڈیشن لاہور نے انتہائی عمدگی سے شایان انداز میں شایع کیا۔

علامہ اقبال کا یہ دستور بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نام وصول ہونے والے خطوط کا جلدازجلد جواب لکھنے کے بعد خطوط کو تلف کر دیتے تھے۔ اس دستور میں صرف ایک استثناء تھا اور وہ تھا اکبر الٰہ آبادی کے خطوط کا جنھیں وہ نہ صرف سنبھال کر رکھتے تھے بلکہ بعد میں بھی گاہے گاہے تنہائی میں پڑھتے رہتے تھے۔

مولانا روم کے علاوہ شاید اکبر ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کو اقبال نے پیر ومرشد کا درجہ دیا تاہم یہ خطوط شایع ہو کر عوام تک نہ پہنچ سکے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر ایک عرصے سے ان خطوط کی تلاش میں تھے، بالآخر چوہدری محمد حسین کے پوتے ڈاکٹر ثاقب نفیس کی وساطت سے ان خطوط تک ان کی رسائی ممکن ہو سکی۔

اس رسائی کے بعد کا مرحلہ بھی کچھ آسان نہ تھا۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی خط شکستہ میں پرانے بزرگوں کی تحریریں پڑھنے میں کیا کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھیں کسی مشکل مخطوطے کی تدوین متن کا تجربہ ہو۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ان سب مراحل کو کمال محنت سے طے کیا۔ ان کی زندگی بھر کی تصنیفی اور تدوینی مساعی کا نچوڑ اس ادبی خدمت کے طور پر سامنے آیا۔

علامہ اقبال کی نظر میں اکبر نہایت اہم شخصیت تھے۔ اس بات کا اندازہ ان کے خیالات سے ہوتا ہے۔ مثلاً اکبر کے نام 1911ء کے ایک خط میں لکھا: میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں۔

خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں… اسی سال ایک اور خط میں انھوں نے اکبر کو لکھا: آپ کے خطوط جو میرے پاس سب محفوظ ہیں، بار بار پڑھا کرتا ہوں اور تنہائی میں بھی یہ خاموش کاغذ میرے ندیم ہوتے ہیں… 1914کے ایک خط میں لکھا:حضرت! میں آپ کو اپنا پیر ومرشد تصور کرتا ہوں… 1918 کے خط میں لکھا: آپ کے خطوط سے مجھے نہایت فائدہ ہوتا ہے اور مزید غور وفکر کی راہ کھلتی ہے، اسی واسطے میں ان خطوط کو محفوظ رکھتا ہوں کہ یہ تحریریں نہایت بیش قیمت ہیں اور بہت سے لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے…

خوبی قسمت کہ علامہ اقبال کو تین بار اکبر سے ملاقات کے مواقع ملے، تینوں بار اقبال اکبر سے ملنے الٰہ آباد گئے۔ پہلی بار ان کی ملاقات جنوری 1913 میں ہوئی۔ یہ ملاقات چند گھنٹوں کی تھی جسے اکبر نے ’’کرم اور نیک دلی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اقبال صاحب جملہ حالات کے اس وقت آیات الٰہی میں سے ہیں۔ اسی سال اقبال اکبر سے ملنے ایک بار پھر الٰہ آباد گئے۔ یہ ملاقات سات ستمبر 1913کو ہوئی۔ تیسری اور آخری ملاقات 19 فروری 1920 کو ہوئی۔

1911 میں علامہ اقبال کے نام ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: میں ہنوز معذور اور پابند بستر ہوں۔ قضائے حاجات کو بہت تکلف اور تکلیف سے اٹھ سکتا ہوں۔ ٹرکی و اٹلی کے معاملے میں غریب مسلمانوں کا سکوت بہ نسبت نقلی سانچے میں ڈھلے ہوئے برائے نام مسلمانوں کے بابوانہ ریزولیشنوں کے زیادہ موثر ومعزز ہے۔

پولیٹیکل اسلام کے نوحہ خواں ملحد بھی نظر آتے ہیں، ہر قوم کا آدمی اپنی گزشتہ دنیاوی عظمت کے لیے آہ کرتا ہے لیکن روحانی اسلام کے ساتھ دلبستگی بہت کم، بڑا حصہ قوم کے جوش طبع کا پولیٹیکل اور ریلیجس اسلام کی مضرت رسانی میں صرف ہو رہا ہے۔

اس وقت بدقسمتی سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اپنے اکابر کی توہین اپنے دین سے غفلت، یورپ کی تقلید اور اس انداز ہی پر ترقی منحصر ہے، اس پر ترقی منحصر نہیں ہے ہاں مٹ جانا اس پر منحصر ہے۔ ہم کو تو اپنے نفس کو ہلاکت سے بچانا اور آخرت میں نجات پانا مقصود ہے۔ یہ ایک طویل بیان ہے اور آپ تو عاقل ہیں۔

1912کے ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: میرے حق میں بھی دعا فرماتے رہیں، شعر گوئی میں دل نہیں لگتا۔ میرے ظریفانہ اشعار سے کبھی بہت زندہ دلی اور شوخی کا کیا ہو سکتا ہے لیکن عادتاً وہ بھی ایک اسلوب ادائے خیال ہے ورنہ بے حد افسردہ رہتا ہوں، اور نہ بھی افسردہ ہوں تو ایک حیرت سی رہتی ہے۔ اب اعتراض کس پر کروں، وہ زمانہ گزر گیا…

جب قوم تھی تو سب کہہ سکتے تھے خیر جو کچھ ہو اب آپ کے سپرد چارج ہے۔ ہم تو آپ کی ملاقات کی مسرت کا مول لینے پر مستعد ہیں…

1920 کے ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: جو واقعات و حالات پیش آتے جاتے ہیں خیالات کو بہت منتشر کرتے ہیں۔ مجھ کو آپ کے ساتھ بہت ہمدردی ہے، خدا آپ کے دل کو خوش کرے۔ میں تو دنیا سے رخصت ہو چکا۔

اتنا بھی حس نہیں ہے کہ خوش یا حزیں ہوں میں

اس کے سوا کہ زندہ ہوں اب کچھ نہیں ہوں میں

…’’عقل کو تنقید سے فرصت نہیں‘‘ بڑی بات آپ نے کہہ ڈالی ہے۔ اس کو عدیم الفرصت رہنے دیجیے۔ آپ ایسے ذہین، بلیغ اور کثیر المعلومات کے لیے عقل کی عدیم الفرصتی ضروری ہے، مبارک ہے۔

اپنی وفات سے ایک ماہ قبل لکھا ہوا خط 1921 میں کچھ یوں ہے: برادرم کوئی بات ہے چند روز سے آپ کا خیال زیادہ رہتا ہے۔ زندگی ہے اور ملنا مقدر ہے تو باتیں ہوں گی۔ میں قیاس کرتا ہوں کہ آپ نے خدا کے کرم سے بلند تر مقام حاصل کر لیا ہے اور حاصل کرتے جاتے ہیں گو احساس نہ ہو… اپنا حال کیا لکھوں بہ نسبت زندگی کے موت سے زیادہ قریب ہوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ایک خط میں علامہ اقبال میں اکبر ہے اور

پڑھیں:

آبِ حیات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-03-5

 

 

ایڈووکیٹ مدثر اقبال

 

 

’’اہداف طے کرنا وہ پہلا قدم ہے جو ناممکن کو ممکن میں بدل دیتا ہے‘‘۔ ٹونی رابنز انسانی زندگی میں مقصد نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مقصد کے بغیر گویا زندگی ایک ایسے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی مانند ہو جس کی کوئی منزل ہی نہ ہو۔ جہاں انسانی زندگی کوششوں اور کاوشوں کے جیسے حسین امتزاج سے مزین ہوتی ہے وہیں توکل خلوص نیت اور منزل کا ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ آپ کے پاس توکل کوشش اور خلوص نیت جیسے اوصاف تو موجود ہیں لیکن آپ کے ذہن میں منزل کا خاکہ نہیں ہے تو آپ کی کوششیں رائیگاں اور بے معنی ہو جاتی ہیں۔ اگر فرض کریں کہ منزل کا تصور تو موجود ہے مگر آپ اس تصور سے انحراف کرتے اورآپ ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں تو یقینا آپ اپنی منزل سے دور ہو جائیں گے آپ اپنے مقصد کو چھوڑ دیں گے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ایک سائیکل ریس میں حصہ لیتے ہیں۔ اس ریس میں مشرق کی جانب ایک منزل مقرر کر دی جاتی ہے تمام سائیکل سوار ایک ہی سمت میں اپنی تگ و دو جاری رکھے ہوئے ہیں اور پہیے کی گردش کو اپنی طاقت سے تیز سے تیز تر کرنے کی جستجو میں مگن ہیں۔ چند کلومیٹر کے بعد جس شاہراہ پہ آپ چل رہے ہوتے ہیں اسی شاہراہ سے آپ کو چکمہ دینے کے لیے دوسری سمت ایک جاذب نظر، خوشنما اور مسحور کن رستہ مغرب کی جانب نکال دیا جاتا ہے۔ ریس کے کچھ شرکاء اس مغربی رستے کی رعنایوں اور جاذبیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا رخ اس جانب گامزن کر دیتے ہیں تو وہ ناکام ہو جائیں گے وہ اپنی منزل سے بھٹک جائیں گے۔ ان کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

آپ کا مقصد جو آپ کی منزل کا تعین کرتا ہے جو آپ کا خواب ہے آپ کے منتشر ذہن اور خیالات سے وہ ادھورا رہ جائے گا۔ اگرآپ کا مقصد عظیم ہے اعلیٰ و ارفع ہے آپ کے دل کی تسکین کا باعث ہے تو اپنے مقصد کو معمولی رعنایوں کے لیے قربان مت کریں۔ ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی کی شائع شدہ ریسرچ کے مطابق دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے ہر شخص کوشش کرتا ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت میں شامل ہے۔ لیکن چند ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی گود میں کامیابی آگرتی ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق اگر آپ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل کی جستجو میں ہیں اور آپ کچھ خاص حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو آپ کے ذہن میں اپنے خواب اپنی منزل اپنی جستجو کا ایک خاکہ ایک واضح تصور ہونا چاہے۔ آپ کا ایک مستقل مقصد ہونا چاہے۔ کیونکہ یہ آپ کا مقصد ہی ہوتا ہے جس کے لیے آپ کوشش کرتے ہیں۔

کہاوت ہے اپنے ذہن میں عظیم سے عظیم مقصد، خواب یا منزل کی پرورش کرو کیونکہ آپ کی کوشش بھی آپ کے ذہن میں موجود آپ کے خواب کے مطابق ہی ہو گی۔ جب آپ کے ذہن میں ایک واضح مقصد موجود ہو تو آپ اپنے ذہن کو منتشر نہ ہونے دیں بلکہ مستقل مزاجی، مسلسل محنت اور مرکوز توجہ کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ پورے اعتماد اور تسلسل سے اپنے خواب کو پورا کرنے کی کوشش میں مگن رہیں۔ مائیکرو مینجمنٹ کے تحت معمولی معمولی اقدامات کے ذریعے اپنی منزل کی جانب گامزن رہیں۔ اپنی کوششوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کریں اور تقسیم شدہ حصوں کے مطابق انہیں مکمل کریں انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ فرض کریں آپ کرمنالوجی میں کے امتحان میں نمایاں پوزیشن پہ براجمان ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو مستقل مزاجی سے اپنی لگن اور کوشش سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہونا پڑے گا۔ آپ روزانہ اگر دن اور رات کو دو دو گھنٹے کرمنالوجی کے موضوع پہ ورق گردانی کرتے ہیں تو ایک ماہ میں آپ 120 گھنٹے اپنی منزل اپنے مقصد کی خاطر قربان کرتے ہیں۔ یہی چھوٹے چھوٹے اقدامات ایک دن آپ کو اپنی منزل پہ پہنچا دیں گے۔ لیکن اگر آپ یا تو محنت ہی نہیں کرتے یا آپ یہ تہیہ کرتے ہیں کہ میں امتحانات کے دنوں میں پڑھ لوں گا اور اپنے مقصد سے انحراف کرتے ہیں تو پر کامیابی کا حصول ناممکن تو نہیں کٹھن ضرور ہو جائے گا۔ جب آپ کے ذہن میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے تو یہ آپ کی زندگی کو ایک نئی جہت اور تحریک دیتا ہے یہ آپ کے شعور اور لاشعور میں براجمان ہو جاتا اور پھر یہ آپ کو اس کے حصول کے لیے اس کی جستجو کے لیے کوششوں کی طرف مائل کر دیتا ہے۔

ڈومینیکن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق تقریباً 70 فی صد لوگ جنہوں نے اپنے مقاصد دوستوں یا خاندان کے ساتھ شیئر کیے، وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے برعکس، صرف 35 فی صد لوگ جنہوں نے اپنے مقاصد کو بنا تحریر اپنے تک محدود رکھا، کامیابی حاصل کر سکے۔ منتشر اور الجھے ہوئے ذہن کبھی اپنی منزل کو حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگ کبھی کامیابی کے رستے پہ گامزن نہیں ہو سکتے جو اپنے مقصد اور منزل کے حصول کی خاطر آدھا سفر طے کرنے کے بعد واپس ہو کر کسی نئی منزل کا انتخاب کر بیٹھیں اور پھر الجھاؤ اور تناؤ کا شکار ہو جائیں۔ جب آپ اپنے مقاصد اپنی جستجو یا خواب کو کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو یقینا آپ پھر اپنے آپ کو اس کواب کے بارے میں جواب دہ بھی تصور کرتے ہیں آپ کے قریبی آپ کی منزل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کا من پسند شخص اپنی منزل کی جانب گامزن ہے اور وہ اسے حاصل کر کے ہی رہے گا۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں آپ کو حوصلہ دیتے ہیں اور آپ کی کامیابی پہ تالیاں بھی بجاتے ہیں۔

ریلائی ایبل پلانٹ کی ریسرچ کے مطابق 92 فی صد لوگ اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر پاتے یہ ریسرچ اس بات کو یوں بیان کرتی ہے کہ لوگ اکثر ناکام اس لیے ہوتے ہیں کہ ان میں عزم کی کمی ہوتی ہے، وہ بہت آسان مقاصد طے کر لیتے ہیں، عمل نہیں کرتے، اور کامیابی یا ناکامی کے خوف کا شکار رہتے ہیں۔ یا پھر منتشر ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلائی ایبل پلانٹ کی ایک تحقیق کے مطابق بہت سے لوگ ایک نفسیاتی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں جسے ’’تجزیاتی مفلوجیت‘‘ (Analysis Paralysis) کہا جاتا ہے۔ یعنی، وہ شکوک و شبہات کی وجہ سے رْک جاتے ہیں اور آگے بڑھنا نہیں چاہتے جب تک کہ ہر ’’اگر ایسا ہو جائے تو؟‘‘ والے سوال کا جواب نہ مل جائے۔ نتائج کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے اپنے اہداف سے آغاز کریں۔

اس ریسرچ کے مطابق محض آٹھ فی صد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مقاصد اپنی منزل کو تعین کر کے اس کو حاصل کر لیتے ہیں آخر ایسی کون سی خوبیاں یا صلاحیتیں ہیں جو یہ ممکن بنا دیتی ہیں کیا ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں کیا یہ لوگ حد سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں کیا یہ عام انسان نہیں ہوتے۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے یہ عام انسان کی طرح ہی ہوتے ہیں یہ بھی نارمل انسانوں کی جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ان میں مستقل مزاجی، مسلسل محنت و لگن اور اپنے مقاصد اپنے خوابوں سے محبت جیسے اوصاف شامل ہوتے ہیں جیسا کہ ان لوگوں کا ایک مخصوص ہدف، مقصد اور خواب ہوتا ہے جو بہت آسان تو نہیں لیکن قابل حاصل ضرور ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے پرجوش ہوتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں اور مستقل مزاج رہتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی ہوتی ہے حاصل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے وہ منتشر نہیں ہوتے۔ وہ اپنے مقاصد شیئر کرتے ہیں اپنے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ جو انہیں حوصلہ دیتے ہیں ایک امنگ پیدا کرتے ہیں ان میں۔

وہ ایک وقت میں ایک ہی قدم اٹھاتے ہیں اور اسی پہ اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اپنی منزل اپنے خواب کی جانب وگرنہ وہ منزل کو کھو دیتے ہیں۔ اسی طرح کی تحقیق یونیورسٹی آف اسکرینٹن، امریکا نے بھی شائع کی جس کے مطابق آٹھ فی صد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مقاصد اپنی منزل کو تعین کر کے اس کو حاصل کر لیتے ہیں۔ ’’آپ اپنے اہداف حاصل کر کے جو چیز پاتے ہیں، وہ اتنی اہم نہیں جتنے اہم وہ شخص ہیں جو آپ ان اہداف کو حاصل کر کے بنتے ہیں‘‘۔  زگ زگلر۔ ہمارے مقاصد ہمارے خواب اور ہمارا مشن آب حیات کی طرح انتہائی قیمتی ہوتے ہیں۔ انہیں پہچانیں ان کے لیے مستقل مزاجی، محنت اور لگن سے انہیں حاصل کرنے کے لیے کوشش کریں۔ تاکہ دنیا آپ کے لیے آپ کی کامیابیوں پہ تالیاں بجائے نا کہ محض آپ اس دنیا میں ایک تماش بین کی طر ح صرف دوسروں کے لیے تالیاں بجاتے رہیں۔

منزلوں کی جستجو گر تھکا دے تجھے

راستوں کی دشواریاں ہلا دیں تجھے

وقت کی گردشیں اگر بجھا دیں تجھے

تو تلاش کر وہ سائے جو جِلا دیں تجھے

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو معرکہ حق کے بعد بیرونی محاذ پر کامیابیاں مل رہی ہیں؛ احسن اقبال
  • دفاعی معاہدے نے پاکستان اور سعودی عرب کو ایک ضابطے کا پابند کر دیا ہے، احسن اقبال
  • دفاعی معاہدے نے پاکستان اور سعودی عرب کو ایک ضابطے کا پابند کر دیا ہے: احسن اقبال
  • آبِ حیات
  • قطر کے تعاون کے سبب بیرونی ممالک میں پھنسے 6 ہزار خطوط و پارسل پاکستان پہنچنا شروع
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • لاہور، اغوا کے دو روز بعد نوجوان کی لاش جھاڑیوں سے برآمد
  • اڑان پاکستان کے تحت ٹیکنالوجی میں مہارت ہمارا ہدف ہے، احسن اقبال
  • پاکستان، سعودی عرب اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے، احسن اقبال
  • اسلامی تہذیب کے انجن کی پاور لائیز خراب ہوگئی ہیں،احسن اقبال