Express News:
2025-06-18@23:47:39 GMT

ایک صدی قبل کا قصہ… اکبر بنام اقبال

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

جنگی جنون کے اس ہنگام میں ذہن ماضی کی طرف رجوع پر مائل رہا کہ یہ خطہ کبھی ایک تھا۔ ایک طویل سیاسی اور معاشرتی کشمکش اور جدوجہد نے موجود جغرافیائی حدود کو شکل دی۔ اس دوران ایک صدی قبل کے علمی اور فکری ماحول پر مبنی ایک کتاب نے گویا ایک گم گشتہ دنیا کو مطالعے کی حد تک مجسم کر دیا… ’’خطوط اکبر بنام اقبال۔‘‘

اکبر الہ آبادی اپنی طرز کے منفرد شاعر تھے۔ اکبر الہ آبادی مسلمانوں کے حالات اور سیاسی آزار سے شاکی رہے، کڑھتے رہے۔ دل کے یہی پھپھولے ان کی شاعری میں ظریفانہ طرز میں پھوٹتے رہے اور ایک عالم کو متاثر کرتے رہے۔

ان کا انتقال 1921ء میں ہوا۔ زندگی کے آخری دس بارہ سالوں میں اس زمانے میں مشہور ومعروف ہوئے ۔ معروف شاعر اور فلاسفر نوجوان شیخ محمد اقبال سے اکبر کا قلبی اور ذہنی تعلق قائم ہوا۔ جانبین سے باہمی محبت اور احترام کا یہ تعلق اکبر کی وفات تک قائم رہا۔ دونوں کے درمیان 1910سے خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔

متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ان دو عظیم ہستیوں کے درمیان خط وکتابت ایک وقیع علمی خزانہ ہے۔ معروف محقق اور اردو کے استاد ڈاکٹر زاہد عامر نے کئی برسوں کی تلاش اور محنت سے یہ خزانہ اس کتاب کی صورت میں محفوظ کر دیا جسے قلم فاؤنڈیشن لاہور نے انتہائی عمدگی سے شایان انداز میں شایع کیا۔

علامہ اقبال کا یہ دستور بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نام وصول ہونے والے خطوط کا جلدازجلد جواب لکھنے کے بعد خطوط کو تلف کر دیتے تھے۔ اس دستور میں صرف ایک استثناء تھا اور وہ تھا اکبر الٰہ آبادی کے خطوط کا جنھیں وہ نہ صرف سنبھال کر رکھتے تھے بلکہ بعد میں بھی گاہے گاہے تنہائی میں پڑھتے رہتے تھے۔

مولانا روم کے علاوہ شاید اکبر ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کو اقبال نے پیر ومرشد کا درجہ دیا تاہم یہ خطوط شایع ہو کر عوام تک نہ پہنچ سکے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر ایک عرصے سے ان خطوط کی تلاش میں تھے، بالآخر چوہدری محمد حسین کے پوتے ڈاکٹر ثاقب نفیس کی وساطت سے ان خطوط تک ان کی رسائی ممکن ہو سکی۔

اس رسائی کے بعد کا مرحلہ بھی کچھ آسان نہ تھا۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی خط شکستہ میں پرانے بزرگوں کی تحریریں پڑھنے میں کیا کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھیں کسی مشکل مخطوطے کی تدوین متن کا تجربہ ہو۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ان سب مراحل کو کمال محنت سے طے کیا۔ ان کی زندگی بھر کی تصنیفی اور تدوینی مساعی کا نچوڑ اس ادبی خدمت کے طور پر سامنے آیا۔

علامہ اقبال کی نظر میں اکبر نہایت اہم شخصیت تھے۔ اس بات کا اندازہ ان کے خیالات سے ہوتا ہے۔ مثلاً اکبر کے نام 1911ء کے ایک خط میں لکھا: میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں۔

خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں… اسی سال ایک اور خط میں انھوں نے اکبر کو لکھا: آپ کے خطوط جو میرے پاس سب محفوظ ہیں، بار بار پڑھا کرتا ہوں اور تنہائی میں بھی یہ خاموش کاغذ میرے ندیم ہوتے ہیں… 1914کے ایک خط میں لکھا:حضرت! میں آپ کو اپنا پیر ومرشد تصور کرتا ہوں… 1918 کے خط میں لکھا: آپ کے خطوط سے مجھے نہایت فائدہ ہوتا ہے اور مزید غور وفکر کی راہ کھلتی ہے، اسی واسطے میں ان خطوط کو محفوظ رکھتا ہوں کہ یہ تحریریں نہایت بیش قیمت ہیں اور بہت سے لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے…

خوبی قسمت کہ علامہ اقبال کو تین بار اکبر سے ملاقات کے مواقع ملے، تینوں بار اقبال اکبر سے ملنے الٰہ آباد گئے۔ پہلی بار ان کی ملاقات جنوری 1913 میں ہوئی۔ یہ ملاقات چند گھنٹوں کی تھی جسے اکبر نے ’’کرم اور نیک دلی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اقبال صاحب جملہ حالات کے اس وقت آیات الٰہی میں سے ہیں۔ اسی سال اقبال اکبر سے ملنے ایک بار پھر الٰہ آباد گئے۔ یہ ملاقات سات ستمبر 1913کو ہوئی۔ تیسری اور آخری ملاقات 19 فروری 1920 کو ہوئی۔

1911 میں علامہ اقبال کے نام ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: میں ہنوز معذور اور پابند بستر ہوں۔ قضائے حاجات کو بہت تکلف اور تکلیف سے اٹھ سکتا ہوں۔ ٹرکی و اٹلی کے معاملے میں غریب مسلمانوں کا سکوت بہ نسبت نقلی سانچے میں ڈھلے ہوئے برائے نام مسلمانوں کے بابوانہ ریزولیشنوں کے زیادہ موثر ومعزز ہے۔

پولیٹیکل اسلام کے نوحہ خواں ملحد بھی نظر آتے ہیں، ہر قوم کا آدمی اپنی گزشتہ دنیاوی عظمت کے لیے آہ کرتا ہے لیکن روحانی اسلام کے ساتھ دلبستگی بہت کم، بڑا حصہ قوم کے جوش طبع کا پولیٹیکل اور ریلیجس اسلام کی مضرت رسانی میں صرف ہو رہا ہے۔

اس وقت بدقسمتی سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اپنے اکابر کی توہین اپنے دین سے غفلت، یورپ کی تقلید اور اس انداز ہی پر ترقی منحصر ہے، اس پر ترقی منحصر نہیں ہے ہاں مٹ جانا اس پر منحصر ہے۔ ہم کو تو اپنے نفس کو ہلاکت سے بچانا اور آخرت میں نجات پانا مقصود ہے۔ یہ ایک طویل بیان ہے اور آپ تو عاقل ہیں۔

1912کے ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: میرے حق میں بھی دعا فرماتے رہیں، شعر گوئی میں دل نہیں لگتا۔ میرے ظریفانہ اشعار سے کبھی بہت زندہ دلی اور شوخی کا کیا ہو سکتا ہے لیکن عادتاً وہ بھی ایک اسلوب ادائے خیال ہے ورنہ بے حد افسردہ رہتا ہوں، اور نہ بھی افسردہ ہوں تو ایک حیرت سی رہتی ہے۔ اب اعتراض کس پر کروں، وہ زمانہ گزر گیا…

جب قوم تھی تو سب کہہ سکتے تھے خیر جو کچھ ہو اب آپ کے سپرد چارج ہے۔ ہم تو آپ کی ملاقات کی مسرت کا مول لینے پر مستعد ہیں…

1920 کے ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: جو واقعات و حالات پیش آتے جاتے ہیں خیالات کو بہت منتشر کرتے ہیں۔ مجھ کو آپ کے ساتھ بہت ہمدردی ہے، خدا آپ کے دل کو خوش کرے۔ میں تو دنیا سے رخصت ہو چکا۔

اتنا بھی حس نہیں ہے کہ خوش یا حزیں ہوں میں

اس کے سوا کہ زندہ ہوں اب کچھ نہیں ہوں میں

…’’عقل کو تنقید سے فرصت نہیں‘‘ بڑی بات آپ نے کہہ ڈالی ہے۔ اس کو عدیم الفرصت رہنے دیجیے۔ آپ ایسے ذہین، بلیغ اور کثیر المعلومات کے لیے عقل کی عدیم الفرصتی ضروری ہے، مبارک ہے۔

اپنی وفات سے ایک ماہ قبل لکھا ہوا خط 1921 میں کچھ یوں ہے: برادرم کوئی بات ہے چند روز سے آپ کا خیال زیادہ رہتا ہے۔ زندگی ہے اور ملنا مقدر ہے تو باتیں ہوں گی۔ میں قیاس کرتا ہوں کہ آپ نے خدا کے کرم سے بلند تر مقام حاصل کر لیا ہے اور حاصل کرتے جاتے ہیں گو احساس نہ ہو… اپنا حال کیا لکھوں بہ نسبت زندگی کے موت سے زیادہ قریب ہوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ایک خط میں علامہ اقبال میں اکبر ہے اور

پڑھیں:

صہیونیوں کا اگلا ہدف پاکستان ہے، علامہ جواد نقوی

تحریک بیداری کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کا فیصلہ کرے، جیسا کہ ایران اور دیگر استقامت کے محور ممالک کر رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے عرب حکمرانوں کی حمایت کی امیدیں فریبِ نظر ہیں، وہ ہمیشہ سامراج کے سہولت کار رہے اور رہیں گے، پاکستان اپنے خدا، اپنے عوام، اپنی فوج اور خوداری پہ ہی بھروسہ کرے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے سرپرستِ اعلیٰ علامہ سید جواد نقوی نے مشرقِ وسطیٰ میں جاری صہیونی جارحیت اور اس کے پاکستان تک پھیلنے والے اثرات پر گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ سے شروع ہونیوالا معرکہ اب ایران تک آ پہنچا ہے، اور یہ جسارت اسرائیل کی تنہا نہیں، بلکہ امریکہ اور اس کے عرب حلیفوں کی سرپرستی میں تشکیل دی گئی عالمی سامراجی حکمت عملی کا تسلسل ہے، جس کا ہدف پورا خطہ اور بالخصوص پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گریٹر اسرائیل" کا منصوبہ صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ شام، عراق، سعودی عرب اور اب ایران اس نقشے کا حصہ ہیں۔ اور اب پاکستان اگلا ہدف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس موقع پر پاکستان ایران کو اپنی دفاعی فرنٹ لائن سمجھے اور اس سے دفاعی اشتراک کو فوری طور پر مضبوط کرے، دفاعی بجٹ اور عسکری مشقیں زمینی حقائق کے مطابق ترتیب دے، ملک سے اسرائیلی نفوذی عناصر کا مکمل صفایا کرے، عوامی مزاحمت، دفاعی شعور اور یکجہتی کو بیدار اور منظم کرے، عالمی طاقتوں پر بھروسے سے گریز کرے اور خدا پر ایمان و داخلی وحدت پر انحصار کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کا فیصلہ کرے، جیسا کہ ایران اور دیگر استقامت کے محور ممالک کر رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے عرب حکمرانوں کی حمایت کی امیدیں فریبِ نظر ہیں، وہ ہمیشہ سامراج کے سہولت کار رہے اور رہیں گے، پاکستان اپنے خدا، اپنے عوام، اپنی فوج اور خوداری پہ ہی بھروسہ کرے۔
 

متعلقہ مضامین

  • سکھر،اسلامی جمعیت طلبہ کی عید ملن احباب بیٹھک کا اہتمام
  • صہیونیوں کا اگلا ہدف پاکستان ہے، علامہ جواد نقوی
  • سرپلس ملازمین کی جوائننگ کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے،اقبال احمد خان
  • (سندھ بلڈنگ ) گلشن اقبال اسکیم 24 میں رہائشی پلاٹوں پر کمرشل تعمیرات
  • کلامِ اقبال: ماضی، حال اور مستقبل
  • ایران کی فتح
  • کراچی: جھاڑیوں سے ایک شخص کی لاش برآمد
  • جی سیون ملکوں نے اسرائیل کی حمایت کردی
  • ایران کے ہاتھ باندھنے کی تیاریاں
  • اسرائیل اپنے اقدامات سے اپنا وجود خطرے میں ڈال رہا ہے، رجب طیب اردوان