ایک صدی قبل کا قصہ… اکبر بنام اقبال
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
جنگی جنون کے اس ہنگام میں ذہن ماضی کی طرف رجوع پر مائل رہا کہ یہ خطہ کبھی ایک تھا۔ ایک طویل سیاسی اور معاشرتی کشمکش اور جدوجہد نے موجود جغرافیائی حدود کو شکل دی۔ اس دوران ایک صدی قبل کے علمی اور فکری ماحول پر مبنی ایک کتاب نے گویا ایک گم گشتہ دنیا کو مطالعے کی حد تک مجسم کر دیا… ’’خطوط اکبر بنام اقبال۔‘‘
اکبر الہ آبادی اپنی طرز کے منفرد شاعر تھے۔ اکبر الہ آبادی مسلمانوں کے حالات اور سیاسی آزار سے شاکی رہے، کڑھتے رہے۔ دل کے یہی پھپھولے ان کی شاعری میں ظریفانہ طرز میں پھوٹتے رہے اور ایک عالم کو متاثر کرتے رہے۔
ان کا انتقال 1921ء میں ہوا۔ زندگی کے آخری دس بارہ سالوں میں اس زمانے میں مشہور ومعروف ہوئے ۔ معروف شاعر اور فلاسفر نوجوان شیخ محمد اقبال سے اکبر کا قلبی اور ذہنی تعلق قائم ہوا۔ جانبین سے باہمی محبت اور احترام کا یہ تعلق اکبر کی وفات تک قائم رہا۔ دونوں کے درمیان 1910سے خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔
متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ان دو عظیم ہستیوں کے درمیان خط وکتابت ایک وقیع علمی خزانہ ہے۔ معروف محقق اور اردو کے استاد ڈاکٹر زاہد عامر نے کئی برسوں کی تلاش اور محنت سے یہ خزانہ اس کتاب کی صورت میں محفوظ کر دیا جسے قلم فاؤنڈیشن لاہور نے انتہائی عمدگی سے شایان انداز میں شایع کیا۔
علامہ اقبال کا یہ دستور بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نام وصول ہونے والے خطوط کا جلدازجلد جواب لکھنے کے بعد خطوط کو تلف کر دیتے تھے۔ اس دستور میں صرف ایک استثناء تھا اور وہ تھا اکبر الٰہ آبادی کے خطوط کا جنھیں وہ نہ صرف سنبھال کر رکھتے تھے بلکہ بعد میں بھی گاہے گاہے تنہائی میں پڑھتے رہتے تھے۔
مولانا روم کے علاوہ شاید اکبر ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کو اقبال نے پیر ومرشد کا درجہ دیا تاہم یہ خطوط شایع ہو کر عوام تک نہ پہنچ سکے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر ایک عرصے سے ان خطوط کی تلاش میں تھے، بالآخر چوہدری محمد حسین کے پوتے ڈاکٹر ثاقب نفیس کی وساطت سے ان خطوط تک ان کی رسائی ممکن ہو سکی۔
اس رسائی کے بعد کا مرحلہ بھی کچھ آسان نہ تھا۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی خط شکستہ میں پرانے بزرگوں کی تحریریں پڑھنے میں کیا کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھیں کسی مشکل مخطوطے کی تدوین متن کا تجربہ ہو۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ان سب مراحل کو کمال محنت سے طے کیا۔ ان کی زندگی بھر کی تصنیفی اور تدوینی مساعی کا نچوڑ اس ادبی خدمت کے طور پر سامنے آیا۔
علامہ اقبال کی نظر میں اکبر نہایت اہم شخصیت تھے۔ اس بات کا اندازہ ان کے خیالات سے ہوتا ہے۔ مثلاً اکبر کے نام 1911ء کے ایک خط میں لکھا: میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں۔
خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں… اسی سال ایک اور خط میں انھوں نے اکبر کو لکھا: آپ کے خطوط جو میرے پاس سب محفوظ ہیں، بار بار پڑھا کرتا ہوں اور تنہائی میں بھی یہ خاموش کاغذ میرے ندیم ہوتے ہیں… 1914کے ایک خط میں لکھا:حضرت! میں آپ کو اپنا پیر ومرشد تصور کرتا ہوں… 1918 کے خط میں لکھا: آپ کے خطوط سے مجھے نہایت فائدہ ہوتا ہے اور مزید غور وفکر کی راہ کھلتی ہے، اسی واسطے میں ان خطوط کو محفوظ رکھتا ہوں کہ یہ تحریریں نہایت بیش قیمت ہیں اور بہت سے لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے…
خوبی قسمت کہ علامہ اقبال کو تین بار اکبر سے ملاقات کے مواقع ملے، تینوں بار اقبال اکبر سے ملنے الٰہ آباد گئے۔ پہلی بار ان کی ملاقات جنوری 1913 میں ہوئی۔ یہ ملاقات چند گھنٹوں کی تھی جسے اکبر نے ’’کرم اور نیک دلی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اقبال صاحب جملہ حالات کے اس وقت آیات الٰہی میں سے ہیں۔ اسی سال اقبال اکبر سے ملنے ایک بار پھر الٰہ آباد گئے۔ یہ ملاقات سات ستمبر 1913کو ہوئی۔ تیسری اور آخری ملاقات 19 فروری 1920 کو ہوئی۔
1911 میں علامہ اقبال کے نام ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: میں ہنوز معذور اور پابند بستر ہوں۔ قضائے حاجات کو بہت تکلف اور تکلیف سے اٹھ سکتا ہوں۔ ٹرکی و اٹلی کے معاملے میں غریب مسلمانوں کا سکوت بہ نسبت نقلی سانچے میں ڈھلے ہوئے برائے نام مسلمانوں کے بابوانہ ریزولیشنوں کے زیادہ موثر ومعزز ہے۔
پولیٹیکل اسلام کے نوحہ خواں ملحد بھی نظر آتے ہیں، ہر قوم کا آدمی اپنی گزشتہ دنیاوی عظمت کے لیے آہ کرتا ہے لیکن روحانی اسلام کے ساتھ دلبستگی بہت کم، بڑا حصہ قوم کے جوش طبع کا پولیٹیکل اور ریلیجس اسلام کی مضرت رسانی میں صرف ہو رہا ہے۔
اس وقت بدقسمتی سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اپنے اکابر کی توہین اپنے دین سے غفلت، یورپ کی تقلید اور اس انداز ہی پر ترقی منحصر ہے، اس پر ترقی منحصر نہیں ہے ہاں مٹ جانا اس پر منحصر ہے۔ ہم کو تو اپنے نفس کو ہلاکت سے بچانا اور آخرت میں نجات پانا مقصود ہے۔ یہ ایک طویل بیان ہے اور آپ تو عاقل ہیں۔
1912کے ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: میرے حق میں بھی دعا فرماتے رہیں، شعر گوئی میں دل نہیں لگتا۔ میرے ظریفانہ اشعار سے کبھی بہت زندہ دلی اور شوخی کا کیا ہو سکتا ہے لیکن عادتاً وہ بھی ایک اسلوب ادائے خیال ہے ورنہ بے حد افسردہ رہتا ہوں، اور نہ بھی افسردہ ہوں تو ایک حیرت سی رہتی ہے۔ اب اعتراض کس پر کروں، وہ زمانہ گزر گیا…
جب قوم تھی تو سب کہہ سکتے تھے خیر جو کچھ ہو اب آپ کے سپرد چارج ہے۔ ہم تو آپ کی ملاقات کی مسرت کا مول لینے پر مستعد ہیں…
1920 کے ایک خط میں اکبر لکھتے ہیں: جو واقعات و حالات پیش آتے جاتے ہیں خیالات کو بہت منتشر کرتے ہیں۔ مجھ کو آپ کے ساتھ بہت ہمدردی ہے، خدا آپ کے دل کو خوش کرے۔ میں تو دنیا سے رخصت ہو چکا۔
اتنا بھی حس نہیں ہے کہ خوش یا حزیں ہوں میں
اس کے سوا کہ زندہ ہوں اب کچھ نہیں ہوں میں
…’’عقل کو تنقید سے فرصت نہیں‘‘ بڑی بات آپ نے کہہ ڈالی ہے۔ اس کو عدیم الفرصت رہنے دیجیے۔ آپ ایسے ذہین، بلیغ اور کثیر المعلومات کے لیے عقل کی عدیم الفرصتی ضروری ہے، مبارک ہے۔
اپنی وفات سے ایک ماہ قبل لکھا ہوا خط 1921 میں کچھ یوں ہے: برادرم کوئی بات ہے چند روز سے آپ کا خیال زیادہ رہتا ہے۔ زندگی ہے اور ملنا مقدر ہے تو باتیں ہوں گی۔ میں قیاس کرتا ہوں کہ آپ نے خدا کے کرم سے بلند تر مقام حاصل کر لیا ہے اور حاصل کرتے جاتے ہیں گو احساس نہ ہو… اپنا حال کیا لکھوں بہ نسبت زندگی کے موت سے زیادہ قریب ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ایک خط میں علامہ اقبال میں اکبر ہے اور
پڑھیں:
ڈاکٹر وحید قریشی … ایک حاضر جواب آدمی
ڈاکٹر وحید قریشی اُردو زبان و ادب کے نامور محقق، ممتاز تنقید نگار، مزاح نگار ، شاعر اور دانشور تھے۔ ان کا بچپن ننھیال میں گزارا ان کے والدِ گرامی محکمہ پولیس میں آفیسر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے 1940 میں اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا جس کے بعد انھیں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا، ان کے اسی دور کے چند دوستوں میں عنایت اللہ اور علامہ اقبالؒ کے فرزند ارجمند جاوید اقبال تھے۔ انھوں نے ایم اے تک کی تعلیم اسی کالج میں حاصل کی اور اپنے ذوق وشوق کے مطابق ایک ایم اے فارسی میں اور دوسرا ایم اے تاریخ کے مضمون میں کیا۔ جس کا انھوں نے بعد میں اپنی زندگی میں ادبی فائدہ اٹھاتے ہوئے تحقیق و تنقید پر بقول شہزاد احمد کے اس طرح کام کیا کہ ’’ جب وہ تنقید پر اُتر آتے تو پھر امان ملنی مشکل ہو جاتی اور مرزا غالب کی طرح دوست کے کلام کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر وحید قریشی جنھوں نے 1952 فارسی ادب میں پی ایچ ڈی کی اور 1962 میں اُردو میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اُس وقت ان کے مقالے کا عنوان غالبا ’’ میر حسن اور ان کا زمانہ تھا‘‘ 150 مشاہیرِ ادب اس کتاب کے مصنف ملک مقبول احمد ہے جس میں ان کے تحریر کردہ مضمون سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ’’انھوں نے علامہ عباس شوستری ایرانی سے فارسی سبقا ََ سبقا پڑھی تھی اور انھیں ریسرچ کے لیے ایلفرڈ اسکالر شپ دیا گیا تھا جس کی اساس پر انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں تین سال تک خدمات بھی انجام دیں۔‘‘ جیسا کہ میں آغاز میں کہا کہ انھوں نے شعبہ تدریس کو اپنے شوق کے مطابق اور اپنے مزاج کے مناسبت سے اختیار کیا تھا۔ تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے 1951سے 1956تک اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں تاریخ کے لیکچرار کے خدمات انجام دیں۔
پھر بعد میں وہ لاہور آ گئے اور اسلامیہ کالج میں پڑھانے لگے۔ دسمبر 1964میں وہ اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوگئے جہاں انھوں نے مختلف عہدوں پرگراں قدر خدمات انجام دیے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نیم سرکاری اداروں میں خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ وہ جب ریٹائر ہوئے تو اُس وقت پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے۔ اس کے بعد انھوں نے مقتدرہ قومی زبان، بزمِ اقبال اور اقبال اکیڈمی میں اُردو زبان و ادب کے فروغ اور اقبالیات کے موضوعات پر کام کیا، اس حوالے سے بہت سی کتابیں بھی شایع ہوئی۔
اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے ادبی رسائل کی ادارت کا فریضہ بھی انجام دیا جن میں مجلسِ ترقی ادب کا رسالہ ’’صحیفہ‘‘، قومی زبان اسلام آباد کا رسالہ اخبارِ اُردو، بزمِ اقبال لاہور کا مجلہ ’’اقبال‘‘ اور اقبال اکیڈمی لاہور کا میگزین ’’اقبالیات‘‘ شامل ہیں۔ ان تمام تر رسائل میں سے مجلہ ’’ اقبالیات‘‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی، جب کہ زندگی کے آخری برسوں میں انھیں رسالہ ’’مخزن‘‘ کے مدیر رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’’ اس رسالہ کے حلقہ مشاورت میں انھوں نے ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر کو شامل کر کے آگ اور پانی کا ملاپ کر دیا۔‘‘
ڈاکٹر وحید قریشی ایک حاضر جواب آدمی تھے۔ ان میں خوبی یہ تھی کہ وہ خود ادبی امور میں متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی متحرک رکھنے کی جدوجہد میں رہتے تھے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر خواجہ زکریا بتاتے ہیں کہ’’ ڈاکٹر وحید قریشی ایسے لوگوں میں سے تھے جو جملہ ضایع نہیں کرتے، دوست ضایع کر دیتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو جملہ کسنے کا موقع بھی دیتے اور اس طرح ان کی اپنی ذات دوسروں کے جملے کی زد میں آجاتی تو برا نہ مانتے اور کھل کر قہقہہ لگاتے ان کا قہقہہ ہی ان کی پہچان تھی۔‘‘
اسی طرح ان کی تحقیق و تنقید کے ساتھ شاعری اور مزاح نگاری پہ نظر ڈالتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ ’’ انھیں جہاں موقع ملتا اپنا تاثر ایک چست فقرے سے یوں پیش کر دیتے کہ سننے والے قہقہہ بار ہو جاتے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کو تاریخ نگاری پر بھی عبور حاصل تھا جب کہ فوٹو گرافی سے تو ان کو انتہا کی حد تک عشق تھا۔ میرے نزدیک وہ اُردو زبان و ادب کے لیے انسائیکلو پیڈیا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں بہت سی لوگ آج بھی استاد الاساتذہ کی فہرست میں ان کا شمار کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان سے تعلیم حاصل کرنے والے اب خود اساتذہ کے درجے پر فائز ہیں جو علم کی روشنی کو تقسیم کرتے ہوئے دوسروں کے دلوں کو منور کر رہے ہیں۔ ان کی چند شاگردوں میں ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی علمی اور ادبی فن و شخصیت کا ذکر یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ اعلیٰ پائے کے منتظم بھی تھے۔ تاریخِ ادب کی کتب کو کنگال کر یہ بات واضح سامنے آتی ہے کہ ان کو ابتدا شہرت ’’ شبلی کی حیاتِ معاشقہ‘‘ لکھنے پر ملی تھی یہ کتاب بڑی متنازعہ ثابت ہوئی لیکن اس کی تردید میں کبھی کچھ نہیں لکھا گیا۔ ‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ تحقیق کا سخت چھلکا اتر جانے کے بعد ان کے اندر سے نرم اور ملائم شخص برآمد ہو جاتا ۔ ہدف متعین کیے بغیر فقرہ بازی میں مہارت رکھتے۔‘‘
ڈاکٹر وحید قریشی کی بہت سی کتب میں سے میرے پاس ’’جدیدیت کی تلاش میں‘‘ اور ’’افسانوی ادب‘‘ موجود ہیں، جب کہ ان کی دیگر تصانیف کے علاوہ ان کی شاعری کے دو مجموعوں میں ’’ نقدِ جان‘‘ اور ’’الواح‘‘ منظرِ عام پر آئے۔ الطاف حسین حالی کا مقدمہ شعر و شاعری بھی ان ہی کا مرتب کردہ کار نامہ ہے۔ اپنی علالت کے دوران انھوں نے حالاتِ حاضرہ پر سیکڑوں قطعات بھی لکھے۔ مشاہیرِ ادب میں ملک مقبول احمد ان کا ایک جملہ کچھ یوں درج کیا ہے کہ’’ شاعری کرتے وقت مجھے اپنی بیماری بھول جاتی ہے۔‘‘
اُردو ادب اور شعبہ تدریس میں گراں قدر خدمات دینے والے ڈاکٹر وحید قریشی کی وفات 17 اکتوبر 2007 ء میں ہوئی، مگر صد افسوس کہ اب ایسے لوگ دنیا میں بہت کم باقی رہ گئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ زندہ لوگ، زندہ لوگوں کے لیے مثال بن کر سامنے آئیں اور اُن کی رہنمائی کرے تاکہ معاشرے میں علم ،شرافت ، صداقت، محبت اور تمدن کا خوبصورت دور دوبارہ لوٹ آئے۔ اس مضمون کے دوران پروفیسر اعتبار ساجد بتاتے ہیں کہ’’ ڈاکٹر صاحب تنقیدی شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ نامور ادیب تھے، وہ شاعری کو بخوبی سمجھتے اور جانتے تھے کون کس مقام پرکھڑا ہے اورکون کتنے پانی میں۔
یہی وجہ ہے کہ آج اُن کے پیدا کردہ شاگردوں کا شمار بھی نہایت محترم اساتذہ میں ہوتا ہے۔ میری ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں تشریف لائے جہاں وہ مجھے حکیم محمد سعید اور بابا محمد یحییٰ خان کی طرح مجھے بھی وہ انکساری اور عاجزی کا پیکر نظر آئے۔‘‘ آخر میں شاد عظیم آبادی کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم