ڈیرل مچل کا پاک بھارت کشیدگی پر امن کا پیغام
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
نیوزی لینڈ کے کرکٹر ڈیرل مچل نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر امن کا پیغام دیا ہے۔
نیوزی لینڈ کے کرکٹر ڈیرل مچل اس وقت متحدہ عرب امارات اور نیوزی لینڈ کے درمیان پرواز کر رہے ہیں، انہوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی پر دل کی گہرائیوں سے اظہارِ خیال کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے دو ایسے ممالک کے درمیان کشیدگی دیکھنا مشکل رہا ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہیں، میری دعائیں دونوں جانب متاثر ہونے والوں کے ساتھ ہیں۔
ڈیرل مچل نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) اور انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں شرکت کی ہے اور دونوں ٹورنامنٹس کو اپنے کیریئر میں سنگِ میل قرار دیا اور کہا ہے کہ پی ایس ایل اور آئی پی ایل دونوں نے میرے کیریئر میں اہم کردار ادا کیا ہے اور میں نے ان دونوں ٹورنامنٹس میں گزارا ہوا وقت ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
کھلاڑی کا کہنا ہے کہ میری دعا ہے کہ امن قائم ہو اور ہم دوبارہ وہ کھیل کھیل سکیں جس سے ہمیں محبت ہے اور ان شاندار مداحوں کو کچھ واپس دے سکیں جو ہمیں دل سے سپورٹ کرتے ہیں۔
پرواز کے دوران دیے گئے بیان میں مچل نے اپنے خیالات کا اختتام ایک پُرامید پیغام پر کیا ہے کہ گھر واپس جاکر خاندان کے ساتھ وقت گزارنا خوشی کی بات ہو گی، لیکن میں مستقبل میں ایک بار پھر ان دونوں ممالک میں واپسی کا منتظر ہوں، یہ وہ جگہیں ہیں جہاں مجھے ہر بار رہ کر سکون ملتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
گرین لینڈ، برف کے نیچے چھپی عالمی طاقتوں کی جنگ
اسلام ٹائمز: برف کے نیچے چھپے ریئر ارتھ منرلز، یورینیم، تیل اور قدرتی گیس نے گرین لینڈ کو نئی دنیا کا خزانہ بنا دیا ہے، چین نے خود کو “Near-Arctic State” قرار دے کر یہاں کی مائننگ میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، جبکہ امریکا 2019ء میں ایک تاریخی پیشکش کر چکا ہے۔ تحریر: ایچ ایس اے مغنیہ
تعارف:
یہ زمین کا سب سے خاموش خطہ ہے، مگر اس کی خاموشی کے نیچے طاقت کی ایک گونج سنائی دیتی ہے۔ گرین لینڈ، جس کی برف صدیوں سے سورج کی روشنی میں چمکتی رہی، آج دنیا کی بڑی طاقتوں کیلئے “سفید سونا” بن چکی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں برف کے نیچے چھپے خزانے نے انسانی تاریخ کی سب سے خاموش مگر خطرناک جنگ کو جنم دیا ہے، ایک ایسی جنگ جو بندوقوں سے نہیں بلکہ سرمایہ، سائنس اور سیاست سے لڑی جا رہی ہے۔
جغرافیائی اور اسٹریٹجک پس منظر:
گرین لینڈ صرف ایک جزیرہ نہیں، بلکہ دنیا کی جیوپولیٹیکل شطرنج کا مرکز بن چکا ہے، جیسے جیسے برف پگھل رہی ہے، نئے سمندری راستے (Arctic Sea Routes) سامنے آ رہے ہیں، جو ایشیا اور یورپ کے درمیان فاصلے گھٹا رہے ہیں، یہی وہ راستے ہیں جہاں امریکا، چین، روس اور یورپ اپنی موجودگی کو مستحکم کر رہے ہیں، تاکہ آنے والے صدیوں میں “نارتھ پول” پر ان کا جھنڈا لہرا سکے۔
معدنی خزانے — طاقت کا نیا ایندھن:
برف کے نیچے چھپے ریئر ارتھ منرلز، یورینیم، تیل اور قدرتی گیس نے گرین لینڈ کو نئی دنیا کا خزانہ بنا دیا ہے، چین نے خود کو “Near-Arctic State” قرار دے کر یہاں کی مائننگ میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، جبکہ امریکا 2019ء میں ایک تاریخی پیشکش کر چکا ہے۔ “گرین لینڈ خریدنے کی”۔ یہ پیشکش صرف ایک جزیرے کیلئے نہیں تھی، بلکہ عالمی طاقت کے توازن کو بدلنے کی خواہش کا اعلان تھی۔ روس، جو پہلے ہی آرکٹک کے پانیوں میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا رہا ہے، خاموشی سے وہاں اپنے آئس بریکر بحری جہازوں کے ذریعے “برف کے راستوں پر حکمرانی” کا خواب دیکھ رہا ہے۔
ترقی یا تباہی کی دہلیز؟
دنیا گرین لینڈ کو “معاشی موقع” کہتی ہے، مگر ماہرینِ ماحولیات اسے زمین کے مستقبل کیلئے تباہ کن الارم سمجھتے ہیں۔ برف کے تیزی سے پگھلنے سے جہاں معدنیات تک رسائی ممکن ہو رہی ہے، وہیں عالمی موسم کا توازن خطرے میں ہے، اگر یہی رفتار رہی تو 2100ء تک سمندری سطح کئی فٹ بلند ہو سکتی ہے اور دنیا کے ساحلی شہر نقشے سے مٹ سکتے ہیں۔
مقامی قوم اور تہذیبی خطرہ:
انویٹ (Inuit) قوم صدیوں سے برف، شکار اور فطرت کے ساتھ جینے کی ماہر ہے، لیکن اب ان کے سامنے ایک سوال کھڑا ہے کہ کیا وہ اپنی زمین پر اجنبی بن جائیں گے؟ دنیا ان کے وسائل چاہتی ہے، مگر ان کی زبان، ثقافت اور شناخت کیلئے کوئی جگہ نہیں چھوڑتی۔
اختتامیہ — برف کی گواہی:
گرین لینڈ کی برف صدیوں سے انسان کی فطرت کی خاموش گواہ رہی ہے، کبھی محبت، کبھی لالچ، کبھی طاقت کی۔ آج یہ گواہی پھر دہرائی جا رہی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ اب برف پگھل رہی ہے اور اس کے ساتھ انسان کی ضمیر کی ٹھنڈک بھی، اگر دنیا نے اس دوڑ کو نہ روکا، تو شاید آنے والے زمانے میں تاریخ یہ لکھے:
"انسان نے زمین کا آخری خزانۂ برف تو پا لیا، مگر اپنی زمین کھو دی۔"