ہزیمت آمیز شکست کے بعد مذاکرات پر آمادہ بھارت جنگ بندی شرائط سے پیچھے ہٹنے لگا
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
بھارت نے حالیہ دنوں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے بعد ہفتے کے روز جنگ بندی پر آمادہ ہوگیا ہے تاہم اس اعلان کے چند ہی گھنٹے بعد شرائط سے پیچھے ہٹنے لگا ہے۔
امریکا کی ثالثی میں ہونے والی اس جنگ بندی مذاکرات میں سعودی عرب اور ایران سمیت متعدد ملکوں نے قیام امن اور دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کیں۔
جمعہ ہفتہ کی درمیانی شب انڈیا نے پاکستان میں راولپنڈی کے نور خان ایئر بیس سمیت متعدد اہداف کو میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا تو پاکستان نے اس کا جواب ‘آپریشن بنیان مرصوص’ سے دیا اور فوراً ہی انڈیا میں کئی فوجی تنصیبات کو فتح میزائل، جنگی طیاروں، ڈرونز اور بھاری توپخانے کے ذریعے ہدف بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ نے بھارتی فوج کی نمائندوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان حملوں اور ان سے پہنچے والے نقصانات کی تصدیق کی۔
انہوں نے جنگ بندی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا مزید جنگ نہیں چاہتا بشرطیکہ پاکستان بھی ایسا ہی چاہے۔ یہ کئی روز تک جاری رہنے والی اس کشیدگی کے دوران بھارت کے رویے میں پہلی واضح تبدیلی تھی۔
اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت مکمل اور فوری جنگ بندی پر راضی ہوگئے ہیں۔ اس اعلان کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو، جو اس دوران دونوں ممالک سے قریبی رابطے میں تھے، نے بھی ٹویٹ کیا اور کہا کہ پاکستان اور انڈیا کسی تیسرے غیر جانبدار مقام پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہوگئے ہیں اور شام ساڑھے 4 بچے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی موثر ہوگیا۔
اس دوران معروف امریکی صحافی نک رابرٹسن نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کئی دنوں سے پوری دنیا بھارت اور پاکستان کے درمیان سیزفائرکی کوشش کر رہی تھی مگر کامیاب نہیں ہوئی، مگر اب پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی کے بعد بھارت نے خود جنگ بندی کی پیشکش کی۔
اس سے واضح تھا کہ بھارت جنگ بندی پر راضی صرف پاکستان کے بھرپور ردعمل کی وجہ سے ہوا ہے اور انہوں نے معاہدہ بادل ناخواستہ ہی قبول کیا ہے۔ اس بات کی توثیق جنگ بندی کی ان مسلسل خلاف ورزیوں سے بھی ہوئی جو ان کی طرف سے جنگ روکنے کے اعلان کے بعد ہوئیں۔ بھارت ساری رات لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر مسلسل بلا اشتعال فائرنگ کرتا رہا۔
تاہم اب ایک قدم اور آگے بڑھ کر بھارت جنگ بندی کی بنیادی شرائط سے ہی منحرف ہوگیا ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق انڈین حکام اب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ جنگ بندی کی طرف قدم بھارت نے پاکستان کے ساتھ مل کر اٹھایا اور اس میں امریکی ثالثی کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہی نہیں بلکہ کسی تیسرے غیر جانبدار ملک میں مستقل امن معاہدے کی شرط سے بھی انکار کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے ذرائعوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی اور جگہ کسی اور مسئلے پر گفتگو کرنے کی بات ہی نہیں ہوئی اور انڈیا نے جنگ بندی کی طرف پیش قدمی اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد کی ہے۔
دوسری طرف انڈین میڈیا کو بھی جو اس کشیدگی کے دوران ملک میں جنگی جنون اور پروپیگنڈا پھیلاتا رہا، ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ ارناب گوسوامی جیسے صحافی جو اس کشیدگی کے دوران مودی سرکار کے آلہ کار بنے رہے، اب اپنی حکومت کو شرمندگی سے بچانے کے لیے دعوے کررہے ہیں کہ یہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں عالمی ممالک کا کردار رہا۔
بھارتی حکومت اور میڈیا یہ تسلیم نہیں کررہا کہ انہیں جنگ بندی پر پاکستان کے دفاعی ردعمل کی وجہ سے کرنی پڑی نہ کہ اپنی خوشی سے اور اس کے لیے انہیں امریکا جیسے ثالثوں کی معاونت لینا پڑی جنہوں نے پاکستان کو بھی اعتماد میں لینے کے بعد جنگ بندی کروائی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جنگ بندی کی کہ پاکستان پاکستان کے کشیدگی کے کے لیے اور ان کے بعد
پڑھیں:
افغان طالبان حکومت دہشتگردوں کو پناہ دے رہی ہے ،غلط بیانی سے گریز کریں،پاکستان کا انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: دفترِ خارجہ پاکستان نے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کے اختتام پر باضابطہ بیان جاری کیا ہے، جس میں افغانستان کی جانب سے دہشتگرد عناصر کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا کہ مذاکرات کا تیسرا دور 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، اور پاکستان نے ترکیے اور قطر کی ثالثی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ تاہم، ترجمان کے مطابق افغان حکومت نے طے شدہ وعدوں کے باوجود پاکستان مخالف دہشتگرد گروہوں کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشتگرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کے باوجود پاکستان نے بارہا تحمل کا مظاہرہ کیا اور تجارتی و انسانی بنیادوں پر تعاون کی پیشکشیں کیں، مگر طالبان حکومت کی طرف سے کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوئی۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ طالبان حکومت دہشتگرد عناصر کو پناہ دے کر ان کی سرگرمیوں کو فروغ دے رہی ہے، اور جب پاکستان ان دہشتگردوں کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے تو افغان حکام اکثر غلط بیانی یا لاتعلقی کا سہارا لیتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان فریق نے بحث کو غیر متعلقہ امور کی طرف موڑنے کی کوشش کی، جس سے اصل مسئلہ یعنی دہشتگردی کی روک تھام پسِ پشت چلا گیا۔
پاکستان نے واضح کیا کہ وہ مذاکرات کے حق میں ہے، لیکن قابلِ عمل اور قابلِ تصدیق اقدامات کے بغیر محض بات چیت سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
بیان کے اختتام پر کہا گیا کہ پاکستان اپنی سرحدوں اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا، اور دہشتگردوں یا ان کے مددگاروں کو دوست شمار نہیں کیا جائے گا۔