بُنیان مَرصُوص: پاکستان نے خطے میں طاقت کا توازن بحال کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا کہ امریکا کی ثالثی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری اور مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا کوملنے والی’خطرناک خفیہ اطلاع‘ کیا تھی جس نے انڈیا کو جنگ بندی پر مجبور کیا؟
جس کے بعد نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت نے فوری طور پر جنگ بندی پر اتفاق کرلیا اور ہفتہ 10 مئی کے شام ساڑھے 4 بجے دونوں ممالک کی طرف سے جنگ بند کردی گئی۔
دوسری جانب ایکس پر انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان نے فائرنگ اور فوجی کارروائی روکنے کے لیے ایک سمجھوتے پر اتفاق کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ 3 روز تک مسلسل بھارتی جارحیت برداشت کرنے کے بعد پاکستان نے بھرپور کامیاب جوابی کاروائی کی۔ اور بھارت کی ائیر بیسز کو نشانہ بنایا۔
دنیا بھر میں پاکستان کے ذمہ دارانہ ملک ہونے کو سراہا گیا۔ پاکستان نے جو شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے پاکستان کا خطے ہر کیا ثر ہوگا؟ پاکستان کا امیج کس حد تک بہتر ہوگا؟ اور دنیا اب پاکستان کو کس نظر سے دیکھے گی؟
پاکستان کا مؤقف عالمی سطح پر قبول کیا گیا ہے
خارجی امور کے ماہر اور سابق سفیر محمد مسعود خالد نے اس حوالے سے بتایا کہ پاکستان کا مؤقف عالمی سطح پر مثبت انداز میں قبول کیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک نے پہلگام کے حوالے سے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کے بھارتی مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔ تاہم، بین الاقوامی برادری چاہتی ہے کہ ہم شدت پسند تنظیموں اور دہشتگردی کے باقی ماندہ عناصر سے نمٹیں۔ ہمیں دہشتگردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے عزم پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حال ہی میں بھارت کے ساتھ ہونے والی کشیدگی کے دوران پاکستان نے نہ صرف اپنی عسکری برتری کو واضح کیا بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے، لیکن اپنی آزادی اور خودمختاری کے دفاع سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یہ بھی پڑھیں:مسئلہ کشمیر کا حل اور دونوں عظیم ممالک کے درمیان تجارت چاہتا ہوں، ٹرمپ کا پاکستان اور بھارت کو پیغام
محمد مسعود خالد کے مطابق اس بحران کا ایک اور فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے، جسے ہمیں بین الاقوامی سطح پر مؤثر طریقے سے اجاگر کرنا چاہیے۔ اور بھارت کی اب خطے میں وہ قدر نہیں رہی جو بھارت کے حوالے سے مغربی ممالک سمجھ رہے تھے۔
ہمیں عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل ہوا ہے
ایک سوال کے جواب میں محمد مسعود خالد کا کہنا تھا کہ حالیہ بحران میں ہمیں عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل ہوا ہے۔ یہ پیشرفت ہمیں خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر، خاص طور پر بھارت کے تناظر میں، اپنی پوزیشن مضبوط بنانے میں مدد دے گی۔ تاہم، ہمیں اپنی معاشی حکمرانی اور سماجی استحکام کو بہتر بنانے کے لیے انتھک محنت کرنا ہوگی۔ اگر ہم معاشی اور عسکری طور پر مضبوط ہوں اور قومی یکجہتی قائم کریں، تو کوئی بھی ہمیں نظرانداز نہیں کر سکے گا۔
امن کا قیام اولین ترجیح ہے
سابق سفیر نغمانہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا میں امن کا قیام اولین ترجیح ہے۔ پاکستان نے ہر موقع پر جنگ کی بجائے مذاکرات کو ترجیح دی، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور اس سے صرف تباہی جنم لیتی ہے۔ تاہم، جب سے بھارت میں مودی سرکار برسرِ اقتدار آئی ہے، تب سے مکالمے کے تمام راستے بند کیے جا چکے ہیں۔
بھارت پاکستان میں دہشتگردی پھیلاتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مسلسل عالمی برادری کو آگاہ کیا کہ بھارت بلوچستان میں بی ایل اے جیسے گروہوں کی پشت پناہی کرتا ہے، افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی پھیلاتا ہے، اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ طویل عرصے تک دنیا ان شواہد کو نظر انداز کرتی رہی، مگر اب کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں بھارتی نیٹ ورکس اور ریاستی دہشتگردی کے انکشافات نے بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔
اس بار صورتحال مختلف رہی
نغمانہ ہاشمی نے بتایا کہ ماضی میں بھارت اکثر خود حملے کروا کر ان کا الزام پاکستان پر لگا دیتا تھا، لیکن اس بار صورتحال مختلف رہی۔ پہلگام واقعے کے بعد پاکستان نے فوری طور پر نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کی بھی پیشکش کی۔ پاکستان نے دنیا بھر کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور خود تحقیقات کریں، کیونکہ پاکستان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چاہے جوائنٹ انویسٹیگیشن ہو یا تیسرے فریق کے ذریعے انکوائری، پاکستان نے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت کا غرور خاک میں ملنے پر عوام کی جگہ جگہ ریلیاں، پاک فوج زندہ باد کے نعرے
نغمانہ ہاشمی کے مطابق چونکہ بھارت خود پہلگام حملے میں ملوث تھا، اس لیے وہ کسی قسم کی تحقیق کی اجازت دینے کو تیار نہ ہوا۔ اس کے باوجود بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے مؤثر اور بھرپور جوابی کارروائی کی، اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان نہ صرف امن پسند قوم ہے بلکہ اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا بھی جانتی ہے۔
پاکستان نے شاندار کامیابیاں حاصل کیںایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے سیاسی، سفارتی اور عسکری محاذ پر شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ اس واقعے نے نہ صرف بھارت کے عسکری دعوؤں کو بے نقاب کیا بلکہ اس کی سیاسی حیثیت کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے تمام اسٹریٹیجک شراکت دار، جو اسے ایشیا پیسیفک کا تھانے دار بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے، اب شکوک و شبہات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارت جدید اسلحہ رکھنے کے باوجود نہ تو مؤثر دفاع کر سکتا ہے اور نہ ہی علاقائی قیادت کا اہل ہے۔ اس صورتحال نے جنوبی ایشیائی ممالک کو بھی حوصلہ دیا کہ وہ بھارت کے دباؤ سے نکلیں اور اپنے فیصلے خود کریں۔
سارک کے کسی ایک ملک نے بھی بھارت کی حمایت نہیں کیانہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش جیسے ممالک نے کھل کر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی، اور سارک کے کسی ایک ملک نے بھی بھارت کی حمایت نہیں کی۔ بھارت کا خواب، کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنے یا اکھنڈ بھارت قائم کرے، اب چکناچور ہو چکا ہے۔ پاکستان آج ایک باوقار، طاقتور اور ذمہ دار ریاست کے طور پر عالمی منظرنامے پر ابھرا ہے، جس کی عسکری صلاحیتیں اور امن پسندی پوری دنیا نے تسلیم کی ہیں۔
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ(اپری) کے اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ فیضان ریاض نے بتایا کہ آپریشن بنیان مرصوص نے دنیا کو پاک فضائیہ کی اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ دکھایا۔ بھارت کے مقابلے میں کم وسائل کے باوجود، پاکستان نے اپنی فضائی طاقت، جدید ٹیکنالوجی(جے ایف-17 تھنڈر اور PL-15 میزائل) اور حکمت عملی سے بھارت کے جدید S-400 دفاعی نظام کو ناکام بنایا اور بھارتی فضائی حدود میں کامیاب کارروائیاں کر کے اپنی برتری ثابت کی۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی پاکستان کی کامیابیوں کو سراہا، جس سے پاکستان کی عسکری وقار میں اضافہ ہوا۔
پاکستان نے بروقت اور مؤثر جواب دیاان کا کہنا تھا کہ بھارت نے بارہا پاکستان پر بغیر ثبوت کے الزامات عائد کیے، چاہے وہ اُڑی، پلوامہ یا پہلگام کا واقعہ ہو۔ پاکستان نے ہر بار امن کی کوشش کی اور بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کی، لیکن بھارت نے جنگی جارحیت جیسے اقدامات اٹھائے، جیسا کہ آپریشن سندور۔ پاکستان نے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی خودمختاری کے دفاع میں بروقت اور مؤثر جواب دیا، جس سے بھارت کو واضح پیغام ملا کہ پاکستان کمزور نہیں بلکہ ایک طاقتور ہمسایہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کارروائیوں نے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک توازن بحال کیا اور بھارت کو کشیدگی میں اضافے سے روکا۔ اس صورتحال نے مغربی دنیا، خصوصاً امریکا میں یہ سوالات کھڑے کر دیے کہ اگر بھارت پاکستان جیسے ہمسائے کو سنبھالنے میں ناکام رہا ہے، تو وہ چین کے خلاف امریکی حکمت عملی میں کیسے مؤثر کردار ادا کرے گا؟
فیضان ریاض کے مطابق پاکستان کی پیشہ ورانہ عسکری حکمت عملی نے نہ صرف بھارتی برتری کے دعووں کو چیلنج کیا بلکہ خطے میں امن کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ پاکستان ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی عالمی سطح پر پاکستان کا پاکستان نے پاکستان کی اور بھارت بھارت نے بھارت کے کہ بھارت بھارت کی ہوا ہے نے بھی
پڑھیں:
بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام
پاکستان اور افغانستان کے مابین دوحہ کے بعد ترکیہ کے شہر استنبول میں ہونے والے مذاکرات افغان طالبان کی ضد ، ہٹ دھرمی اور منافقت کی نذر ہوگئے ہیں۔ استنبول میں جاری رہنے والے ان مذاکرات میں تیسرے دن بات چیت کا سلسلہ 18 گھنٹے تک جاری رہا۔
یہ بھی پڑھیں:افغان طالبان سے مذاکرات ختم ہوگئے، ثالثوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے، خواجہ آصف
پاک افغان مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟ اس کا تعلق قطعی طور پر پاکستان کی سفارتکاری سے نہیں ۔ اصل وجہ افغان حکومت کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور بھارت جیسی پس پردہ طاقتوں کا گھناؤنا کھیل تھا۔پہلے ہی اجلاس سے یہ واضح ہو گیا کہ افغان وفد ایک آواز ہو کر مذاکرات نہیں کر رہا۔ تین مسابقتی بلاکس قندھار، کابل اور خوست افغان مذاکراتی وفد میں شامل مندوبین کو الگ الگ ہدایات دے رہے تھے۔
امریکی ضمانت کا غیر متوقع مطالبہ
جب بات چیت فتنہ خوارج کے محفوظ ٹھکانوں پر تحریری ضمانتوں کے مرحلے تک پہنچی تو قندھار کے دھڑے نے آگے بڑھنے کے لیے خاموشی سے آمادگی کا اشارہ دیا تھا لیکن پھر وقفے کے دوران انہوں نے اچانک اصرار کیا اور کہا کہ ’کسی بھی معاہدے پر دستخط نہیں کیے جا سکتے جب تک کہ امریکا باضابطہ ضامن کے طور پر شامل نہ ہو‘۔حالانکہ ایسی کوئی بات ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی اور نہ ہی اسے مذاکرات کے پچھلے ادوار میں اٹھایا گیا تھا۔
Pakistan is thankful to brotherly countries of Turkiye and Qatar for mediation of talks; onus lies on Afghanistan to fulfill its long standing international/ regional and bilateral pledges, regarding control of terrorism in which so far they have failed.
Pakistan does not harbor…
— Attaullah Tarar (@TararAttaullah) November 7, 2025
سیکیورٹی مذاکرات کو مالیاتی سودے میں بدلنے کی کوشش
اس اقدام نے ثالثوں کو بھی حیران کر دیا کیونکہ یہ سیکیورٹی کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ واشنگٹن کے ذریعے مالیاتی راہداری کو دوبارہ کھولنے کے بارے میں تھا۔انہوں نے دو طرفہ سکیورٹی مذاکرات کو 3 فریقی ڈونر سے منسلک انتظام میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔اس سارے کھیل کا مقصدبنیادی طور پر سیکیورٹی فائل کو امداد کے لیے سودے بازی کی چپ میں تبدیل کرنا تھا۔
افغان وفد میں کنفیوژن اور بیرونی اثرات
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان بینچوں پر واضح کنفیوژن تھی۔ ایک مندوب سرکاری وفد کے باہر بیٹھے ہینڈلر سے ہاتھ سے لکھی ہوئی چٹ پر ہدایات لے رہا تھا۔ ایک مندوب بار بار کابل سے فون پر بات کرنے کے لیے کمرے سے نکل گیا۔ ان فون کالز کے بعد ہر متفقہ شق کو اچانک دوبارہ کھول دیا جاتا۔ پہلے سے کلیئر پوائنٹس کو زیر جائزہ رکھا جاتا اور ٹائمنگ کو جان بوجھ کر گھسیٹا جاتا رہا۔ یہ صورتحال افغان طالبان کے عزائم کو بے نقاب کرگئی، وہ بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے کے ناپاک ارادے لیے ہوئے ہیں۔
امریکی ضامن کا مطالبہ اور اس کے پس پردہ عزائم
جہاں تک ان کی جانب سے امریکا کو شامل کرنے کا مطالبہ آیا ، تو یہ بات واضح ہے کہ امریکی ضامن کے لیے اس دباؤ کا خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ مالیاتی بحالی کی حکمت عملی ہے، اگر تعاون شروع ہوتا ہے، تو ’معاشی مدد‘ کے لیے بات چیت دوبارہ کھل جاتی ہے۔ان مذاکرات میں قطر اور ترکیہ دونوں سہولت کاری کا کردار ادا کررہے تھے دونوں نے 3 نکات کو تسلیم کیا تھا۔
1۔پاکستان کے مطالبات جائز اور بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔
2. افغان سائیڈاندرونی عدم تحفظ کی وجہ سے مسدود ہے۔
3۔کابل کا دھڑا خاص طور پر چاہتا ہے کہ مالی فائدہ اٹھانے کے لیے فائل کو واشنگٹن کی طرف گھسیٹا جائے۔
افغان حکومت کی اندرونی تقسیم اور بھارتی اثر
افغان حکومت اندرونی طور پر منقسم ہے۔اہم دھڑے ڈالر کی پائپ لائن کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے امریکا کو واپس کھینچنا چاہتے ہیں۔ وہ فتنہ خوارج کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں کیونکہ فتنہ خوارج ان کی آخری بارگیننگ چپ اور انڈین منی کی انشورنس ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان بارڈر کی بندش: خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
پاکستانی وفد کا مؤقف اور بردباری
جب تک کابل اپنی اندرونی طاقت کی کشمکش کو حل نہیں کرتا اور دہشتگردی کو سیاسی کرنسی میں تبدیل کرنے کی کوششیں بند نہیں کرتا، کوئی پیشرفت ممکن نہیں۔افغان طالبان کے اسی لالچ اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے ۔ پاکستانی وفدنے انتہائی بردباری اور سنجیدگی سے امن کی راہ تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی ، جبکہ میزبانوں نے بھی پاکستان کے مؤقف کو منطقی، مضبوط اور عالمی اصولوں کے عین مطابق قرار دیا۔
دفاعی ذرائع اور فتنہ خوارج کے خلاف کارروائیاں
دفاعی ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغان حکام کو دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک جامع پلان پیش کیا ہے۔ افغان طالبان کی اس ضد، ہٹ دھرمی اور منافقت پر مبنی پالیسی سے واضح ہوگیا کہ فتنہ خوارج کے بعد افغان طالبان نے بھی پاکستان کے خلاف بھارت کی پراکسی وار کا ٹوکرا اپنے سر پر اٹھا لیا ہے، جس کے باعث پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے ہیں۔
سرحدی کشیدگی اور پاکستانی جوابی کارروائی
افغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی دراندازی کے واقعات کئی برسوں سے جاری تھے تاہم دونوں ملکوں کے مابین صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب افغان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ ملا امیر متقی کا دورہ ہندوستان اور اس دوران افغانستان کی جانب سے برادر اسلامی، ہمسایہ اور محسن ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف افغان طالبان اور فتنہ خوارج کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا ۔ جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 23 جوان شہید اور 20 زخمی ہوئے۔پاک فوج نے فیصلہ کن جوابی کارروائی کرتے ہوئے تقریباً 200 افغان طالبان اور فتنہ خوارج کے دہشتگردوں کو ہلاک کیا اور 19 سے زائد افغان پوسٹوں پر قبضہ کر لیا۔
افغان ٹھکانے اور پاکستانی احتیاط
افغان سرزمین پر دہشتگردوں کے ٹھکانے، تربیتی مراکز اور بٹالین ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنایا گیا، جن میں درانی کیمپ، غر نالی ہیڈکوارٹر، ترکمان زئی کیمپ اور منوجیا بٹالین شامل ہیں۔ پاک فوج نے کارروائی کے دوران شہری نقصانات سے بچنے کے لیے خصوصی احتیاط برتی اور دہشتگردوں کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔افغانستان کی جانب سے یہ سرحدی کشیدگی اسی پراکسی وار کا حصہ معلوم ہوتی ہے جو بھارت نے پاکستان کے خلاف شروع کررکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات: ایک کے بعد ایک نیا گیم، نصرت جاوید نے حقائق سے پردہ اٹھادیا
جنگ بندی اور دوحہ مذاکرات
پاکستان کے بھرپور جوابی وار اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد افغان حکومت بار بار جنگ بندی کی دوہائی دیتی رہی، لیکن پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا اس لیے پاکستان نے افغان عبوری حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی کسی درخواست کا مثبت جواب نہیں دیا تاہم سعودی عرب ، قطر ، ترکیہ ، ملائیشیا ایسے برادر اسلامی ممالک کی بار بار درخواست پر پاکستان نے پہلے 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کیا اور بعد ازاں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فریقین کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوااور ایک متفقہ اعلامیہ بھی جاری ہوا۔
دوحہ مذاکرات کا اعلامیہ
دونوں ملکوں کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد جنگ بندی معاہدے کی تصدیق کردی گئی ۔ جس میں افغان طالبان نے تسلیم کیا کہ وہ پاکستان مخالف عناصر کی حمایت نہیں کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں طالبان حکومت نے فتنہ خوارج کی سرپرستی کو تسلیم کیا۔ دوحہ مذاکرات 13 گھنٹے تک جاری رہے جس میں دو برادر اسلامی ممالک قطر اور ترکیہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
استنبول مذاکرات اور پاکستانی مؤقف
معاہدے کے تحت فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ سرحدی تناؤ میں کمی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ اقدامات کریں گے۔ بعد ازاں 25 اکتوبر کو دونوں ملکوں کے مابین ایک بار پھر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ، اس بار مذاکرات کی میز ترکیہ کے شہر استنبول میں سجی۔
ذرائع کے مطابق طالبان نمائندوں نے فتنہ خوارج کو پاکستانی سرحد سے دور منتقل کرنے کی پیشکش کی تھی، جس کے جواب میں پاکستان نے افغان طالبان سے فتنہ خوارج کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے وعدوں پر عملدر آمد پر زور دیا۔ پاکستانی وفد نے اپنے حتمی مؤقف میں واضح کر دیا تھا کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشتگردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے برعکس افغان طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر تھے، نظر آ رہا تھا کہ افغان طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں، یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر تھی۔ پاکستان اس اصولی موقف پر ڈٹا رہا کہ مطالبے پر عمل نہ ہوا تو پاکستان کسی بھی طرح کی لچک نہیں دکھائے گا اور اپنے قومی مفادات اورسلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا حق محفوظ رکھے گا۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین
تاریخی تناظر اور دو طرفہ بداعتمادی
تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ابتدا سے ہی تنازعات اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ برادر اسلامی ممالک کے تعلقات جغرافیائی قربت،مذہبی اور ثقافتی رشتے،تاریخی راوبط ہونے کے باوجود ہمیشہ اعتماد کے فقدان، سلامتی کے خدشات ، سیاسی اختلافات اور وعدی خلافیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
افغان مہاجرین اور سلامتی کے مسائل
سوویت افغان جنگ میں پاکستان نے افغان جنگ کی حمایت کی جس کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے اور پاکستان آج بھی ان افغان مہاجرین کا حق میزبانی بخوبی نبھا رہا ہے مگر یہ پاکستان کی اکانومی پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 4 ملین کے قریب ہے۔ افغان مہاجرین میں سے بعض دہشت گرد نیٹ ورکس، منشیات اورسمگلنگ میں ملوث پائے جاتے ہیں اور اس کے ٹھوس شواہد بھی سامنے آچکے ہیں پاکستان یہ معاملہ کئی مرتبہ اٹھاچکا ہے مگر انسانی حقوق کے مسائل اور عالمی دباؤکے باعث یہ معاملہ حل نہیں ہو رہا۔
طالبان حکومت کا ماضی اور موجودہ طرزِ عمل
اس طرح اگر افغانستان میں طالبان رجیم کا 1996-2001 کا جائزہ لیں تو پاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا جس نے طالبان کی حکومت تسلیم کی مگر اس کےبعد 9/11 رونما ہوا جس نے پوری دنیا کی سیاست میں یکسر تبدیلی بپا کی ۔پاک افغان سرحد سے بارڈر کراسنگ، اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل و حرکت سے پاکستان کو سلامتی اور معیشت دونوں پہلوؤں پر انتہائی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ 2017 سے پاکستان نے سرحد پر باڑ لگانا شروع کی تھی جس میں اہم پیش رفت ہوچکی ہے۔ پاکستان عالمی برادری اور افغانستان کو یہ باور کراچکا ہے کہ افغان سرزمین سے فتنہ خوارج اور دیگر دہشتگرد گروہ پاکستان پرحملے کرتے ہیں اور وہاں پر بھارتی آشیرباد سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہےاور یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت ان دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف روکنے میں ناکام ہے بلکہ اس حوالے سے نرم رویہ بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔
افغان طالبان کے مختلف دھڑے اور پاکستان مخالف بیانیہ
یہ بات بھی اہم ہے اورذہن نشین کرلی جائے کہ طالبان حکومت کے اندر مختلف دھڑے ہیں، کچھ سخت گیر گروہ ہیں جو پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دیتے ہیں۔2021 ءمیں طالبان کی واپسی اور حکومتی سیٹ اپ میں آنے کے بعد پاکستان کو اس بات پر مکمل یقین تھا کہ اب سرحدی مسائل اور دہشت گردی کے واقعات ختم ہوں گےمگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ فتنہ خوارج اوراس قبیل کے دیگر دہشت گرد گروہوں کے حملوں میں اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات ناکام، پاکستانی وفد کو استنبول میں رکنا پڑگیا، ٹی ٹی پی کا اہم ترین کمانڈر ہلاک
بھارتی اثر و رسوخ اور پاکستان کے شواہد
بارڈ کراسنگ پر جھڑپیں ہوئیں اور سرحدبند کرنے کے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے سفارتی سطح اور سیاسی پلیٹ فارم اور حکومتی لیول پر افغانستان سے یہ معاملات اٹھائے مذاکرات کیے مگر نتیجہ صفر۔ افغانستان میں پراکسیز اور بھارتی اثر و رسوخ ہمیشہ پاکستان کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے۔ اسلام آباد کے پاس ٹھوس شواہد ہیں اور یہ کئی مرتبہ عالمی سطح پر بتایا گیا ہے اورکابل کو شواہد بھی دکھائے گئے کہ بھارت افغان سرزمین استعمال کرکے پاکستان میں دہشتگردی کرا رہا ہےاور پاکستان میں امن کے درپے ہے۔ پاکستان یہ معاملہ بارہا اقوام متحدہ، او آئی سی اور شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او جیسے فورمز پر یہ مسئلہ اٹھا چکا ہے، اور عالمی برادری سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
اعتماد کا بحران اور علاقائی خطرات
دونوں ملکوں کےتعلقات اعتماد کے بحران میں پھنسے ہوئے ہیں۔طالبان کی جانب سے دانستہ طور پر سرد رویہ کی وجہ سے آج معاملات دونوں ملکوں کے درمیان جنگ تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کے تحفظات زیادہ تر سلامتی اور سرحدی معاملات سے جڑے ہیں، افغان حکومت کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات، باہمی تعاون، اعتماد سازی اور مشترکہ مفادات کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ورنہ پورے خطے کا امن اور ترقی متاثرہوگی۔
دہشتگردی کے اثرات اور ممکنہ نتائج
افغان سرزمین سے دہشتگردی کے واقعات سے خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں عام شہری دہشتگردی کا نشانہ بنے،پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات توڑنے کا خواہاں نہیں لیکن اگر دہشت گرد گروہ روکے نہ گئے تو پاکستان یکطرفہ اقدامات پر مجبور ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخ بداعتمادی ، وعدہ خلافیوں اور سکیورٹی خدشات سے بھری پڑی ہے۔
عہد شکنی اور عبرت ناک حقیقت
دونوں ممالک کے درمیان متعدد بار مذاکرات اور مفاہمت کے اعلانات ہوئے لیکن عملی طور پر ان کا تسلسل قائم نہ رہ سکا۔ افغانستان کی سرزمین بدستوردہشتگرد گروہوں کی پناہ گاہ بنی رہی جنہوںنے پاکستان کے اندر حملے کئے اور بے شمار قیمتی جانیں ہوئیں۔یہ بات تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ افغان حکومت نے پہلے بھی متعدد بار وعدے کئے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی مگر ان وعدوں پر عملدرآمد کبھی بھی ممکن نہیں ہوسکااور اپنی غلطیوں سے کبھی نہیں سیکھا۔ جب کوئی قوم اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے سے انکار کر دے، تو اس کا حال داؤ پر لگ جاتا ہے اور مستقبل تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔
طالبان حکومت کی دوغلی پالیسی اور انجام
یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ عبوری افغان حکومت، جو خود دہشتگردی کے خلاف ایک طویل جنگ کے بعد ابھری تھی، آج انھی عناصر کو پناہ دے رہی ہے جنہوں نے دہائیوں تک اس سرزمین کو خون میں نہلائے رکھا۔طالبان قیادت نے عالمی برادری کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ مگر حالات اور زمینی حقائق ان دعوؤں کی نفی کر رہے ہیں۔فتنہ خوارج ، داعش خراسان اور القاعدہ جیسے دہشتگردگروہ نہ صرف افغانستان میں سرگرم ہیں بلکہ انھیں منظم انداز میں تحفظ دیا جا رہا ہے۔
نتیجہ: افغان حکومت کی احسان فراموشی اور خطرناک روش
استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں افغان سائیڈ کی ہٹ دھرمی ، ضد اور منافقت قطر اور ترکیہ سمیت پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ افغانستان کی عبوری حکومت نے اپنے عمل اور کردار سے ثابت کیا کہ وہ ناصرف احسان فراموش ہیں بلکہ اسلام کا لبادہ محض لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے پہنا ہوا ہے۔ انہوں نے بے گناہ انسانوں کے قاتلوں فتنہ خوارج کی کھل کر سپورٹ کی اور ان کی حمایت میں پاکستان جیسے محسن کے خلاف کھڑا ہوگیا۔ افغان عبوری حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پاکستان میں جو آگ انہوں نے لگا رکھی اس کے شعلوں سے افغانستان بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں