Islam Times:
2025-06-30@04:15:39 GMT

آغا سید محمد رضوی کی حیاتِ جاوداں

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

آغا سید محمد رضوی کی حیاتِ جاوداں

اسلام ٹائمز: ہر داستان کا ایک اختتام ہوتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے بیماری نے انہیں آہستہ آہستہ کمزور کر دیا، مگر وہ اپنی بیماری کو اپنی ہمت پر غالب نہ آنے دیتے۔ پھر وہ دن بھی آپہنچا، جسکا وعدہ رب نے ہر نفس سے کیا ہے۔ 13 مئی 2025ء، 15 ذیقعدہ 1446 ہجری کو آغا سید محمد رضوی نے دنیا سے رخصت لے لی۔ وہ چلے گئے، مگر انکی آواز، انکا اخلاق، انکی تحریریں، انکی مسکراہٹ اور سب سے بڑھ کر انکی جدوجہد ہمیں یہ سبق دے گئی کہ: "خدمت کبھی ضائع نہیں ہوتی اور مخلص لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔" انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تحریر: آغا زمانی

موت ایک اٹل حقیقت ہے، لیکن بعض جدائیاں دل کو ایسے زخمی کر دیتی ہیں کہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آج بھی جب میں آسمان کی طرف دیکھتا ہوں، تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے ماموں آغا سید محمد رضوی کی مسکراہٹ ان بادلوں میں کہیں چھپی ہوئی ہے۔ وہ چلے گئے، مگر یادوں کی روشنی آج بھی دل کے کونے کونے کو روشن کیے ہوئے ہے۔ آغا سید محمد رضوی کا تعلق بلتستان کے علاقے غندوس، کھرمنگ سے تھا۔ ان کے والد، حجۃ الاسلام آغا سید محمد رضا رضوی نجفی ایک جید عالم دین تھے، جنہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت میں گزاری۔ ان کی والدہ میر واعظ پاری (کھرمنگ) کی بیٹی تھیں اور آپ کے نانا اپوچو آغا سید ابراہیم شاہ رضوی ایک معتبر روحانی شخصیت تھے۔

جب میرے نانا نے اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے نجف اشرف کا سفر اختیار کیا تو اپنے بیٹے آغا سید محمد رضوی کو بھی ہمراہ لے گئے۔ نجف کی گلیوں میں جوان ہوتا ہوا ایک روشن چہرہ، جو مدرسے کی گھنٹیوں اور ذکرِ اہل بیت کے نعروں کے بیچ اپنا بچپن گزارتا رہا، آغا سید محمد رضوی نے میٹرک کی تعلیم نجف اشرف ہی میں مکمل کی۔ لیکن تاریخ نے ایک کروٹ لی، جب حسن البکر کے دور میں غیر عراقی شیعہ علماء کو عراق سے نکالا جانے لگا۔ ہمارے بزرگ بھی ان میں شامل تھے اور انہیں بادلِ نخواستہ وطن واپسی کا راستہ لینا پڑا۔ کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی علم کا شوق کم نہ ہوا۔ آغا سید محمد رضوی نے اسلامیہ کالج سے بی اے کیا، اور تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ تنظیموں میں ایک فعال کردار ادا کرتے رہے۔

اس وقت کراچی میں بلتستانی کمیونٹی کا مرکز پنجتی مسجد و امام بارگاہ (بلتستانیمحلہ ایبی سینیا لائن لائنز ایریا) تھی، جہاں انجمن جانثاران اہلبیت کے پلیٹ فارم سے ہر قومی، مذہبی اور تعلیمی موقع پر آپ کی موجودگی ایک اثاثہ سمجھی جاتی تھی۔ 1981ء ایک ایسا سال تھا، جو ہمارے خاندان کے لیے یادگار بن گیا۔ آغا سید محمد رضوی کی شادی میرے بڑے نانا، سیاستدان اور عالم دین آغا سید محمد علی شاہ رضوی کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی۔ مجھے یہ سال یوں بھی یاد ہے کہ میرے والدین اسی شادی میں شریک ہوئے تھے۔ وہ خوشیوں بھرے دن تھے۔ لیکن خوشی کی اس روشنی میں ایک سایہ بھی چھپا تھا۔ میرے والد مرحوم کا انتقال اسی سال چند مہینے بعد غندوس میں ہوگیا۔

جب آغا سید محمد رضوی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ابھی گھریلو زندگی کے ابتدائی لمحات ہی گزر رہے تھے کہ انہوں نے محکمہ تعلیم میں تدریس کے فرائض سنبھال لیے۔ ان کا مزاج ہی کچھ ایسا تھا کہ ہر کام میں سنجیدگی، دلجمعی اور اخلاص شامل ہوتا۔ مگر قدرت کو ان سے ایک بڑا کام لینا تھا۔ وقت نے کروٹ لی اور ایک نئی راہ سامنے آکھڑی ہوئی۔ خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران، لاہور میں مترجم کی ایک پیشکش ان کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ محض ایک زبان کے نہیں، کئی زبانوں کے ماہر تھے۔ ان کی مادری زبان بَلتی تھی، مگر عربی، فارسی، اردو اور انگریزی پر بھی انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ زبان ان کے لیے صرف ابلاغ کا ذریعہ نہ تھی، بلکہ ایک ذوق، ایک فن اور ایک ذمہ داری تھی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے، آج سے تقریباً بائیس یا تیئس برس قبل، جب "مؤسسۂ حفظ و نشر آثار حضرت امام خمینیؒ" نے امام خمینی کی ایک ضخیم فارسی کتاب کا اردو ترجمہ ان کے سپرد کیا۔

یہ ایک بھاری ذمہ داری تھی، مگر انہوں نے یہ کام محض ایک ہفتے میں مکمل کرکے، نہ صرف ترجمہ بلکہ تصحیح کے بعد، ادارے کو پیش کر دیا۔ یہ کام ان کی مہارت، لگن اور وقت کی پابندی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ آپ نے سینکڑوں معتبر اور اہم فارسی کتابوں کا اردو ترجمہ کیا۔ خانہ فرہنگ ایران لاہور میں انہوں نے لگ بھگ بارہ سے تیرہ سال خدمات انجام دیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ محض ترجمہ تک محدود نہ تھا، بلکہ جب بھی پاکستان میں ایرانی اعلیٰ قیادت یا عہدیداروں کے دورے کے دوران رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ‌ ای کا کوئی صدارتی خطاب ہوتا، یا آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کی صدارت کا کوئی اہم موقع، تو وہ براہِ راست فارسی سے اردو ترجمے کے لیے موجود ہوتے۔ ان کے ترجمے میں صرف الفاظ نہیں ہوتے تھے، احساس، مفہوم اور سیاق بھی زندہ رہتے تھے۔

ان کی ایک اور پہچان ان کا اندازِ خطابت تھا۔ وہ محفلوں کا دل ہوتے۔ ان کی زبان میں تاثیر اور دل میں اخلاص ہوتا۔ انہیں صرف بولنا نہیں آتا تھا، سننے والوں کے دلوں پر دستک دینا آتا تھا۔ ان کے فن کا ایک اور پہلو خوشنویسی تھا۔ نستعلیق، نسخ، دیوانی، عربی ہو یا فارسی، اردو ہو یا قرآنی آیات، وہ ہر اسلوب میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کی تحریر محض لکھائی نہ ہوتی، ایک فن پارہ ہوتی۔ یہ خوبیاں کسی عام فرد کی نہیں، ایک ایسے شخص کی ہیں، جس نے علم کو عبادت جانا، زبان کو خدمت کا ذریعہ بنایا اور فن کو عزت کا لباس پہنایا۔ جب ڈائریکٹر خانہ فرھنگ ایران لاہور شہید صادق گنجی جیسی نابغہ روزگار شخصیت، ملت کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہی تھی۔ اسی عرصے میں آغا سید محمد رضوی خاموشی اور اخلاص کے ساتھ اسی ادارے میں اپنی خدمات پیش کررہے تھے۔

آپ نے 13-14 سال تک خانہ فرہنگ ایران لاہور میں مترجم و پبلک ریلیشن آفیسر کی حیثیت سے کام کیا، لیکن ان کی خدمات صرف ایک عہدے کی حد تک محدود نہیں رہیں۔ اسلام آباد میں "وحدت اسلامی" رسالہ ان کی ادارت میں ایسا چمکا کہ پورے پاکستان میں اس کا نام لیا جانے لگا۔ علمی اور فکری مضامین کی تلاش، عظیم شخصیات کے انٹرویوز، دینی مناسبتوں پر پروگرامز، مشاعرے اور بچوں کے وحدت کی فضا میں رنگ بھرنے کی کاوشیں۔ یہ سب کچھ انہوں نے نہایت ہی خوبصورتی اور نظم کے ساتھ انجام دیا۔ مگر حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ آپ دس سال تک ایران قونصل خانے اسلام آباد میں پبلک ریلیشن آفیسر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ 1998ء میں وطن کی سرزمین، جو اب اضطراب کا شکار ہوچکی تھی، اسے خیرآباد کہہ کر ایران کا سفر اختیار کیا۔

ایران میں قدم رکھا تو وہاں بھی عظیم اداروں نے ان کے لیے اپنے دروازے کھولے، مگر آغا سید محمد رضوی نے ریڈیو تہران اردو سروس کو اپنی خدمت کے لیے چنا۔ پہلے بطور نیوز کلیکٹر آفیسر اور پھر صرف دو برس میں ڈائریکٹر بننا ان کی لیاقت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ 2009ء میں، ایران نے ایک بار پھر ان کی صلاحیتوں کو پہچانا اور انہیں قونصلگری ایران، کراچی کا پبلک ریلیشن آفیسر مقرر کیا۔ مگر 2011ء میں، ایک سنگین طبی مسئلے (ذیابطیس بڑھ جانے) کے باعث ان کی بائیں ٹانگ کاٹنی پڑی۔ یہ حادثہ کسی کے لیے بھی زندگی کا اختتام بن سکتا تھا، مگر آغا سید محمد رضوی نے اسے نئے آغاز میں بدل دیا۔ علاج کے بعد وہ دوبارہ ایران لوٹے اور گھر سے ہی ریڈیو تہران کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی آواز میں وہ اثر تھا، جو دلوں کو چھو لیتا تھا۔

ان کا قلم وہ طاقت تھی، جو شعور بیدار کرتا تھا۔ معذوری کے باوجود تحقیق، ترجمہ اور مطالعے کا شوق ان کے عزم کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی نظامت، خطابت، اخلاق اور عاجزی کی خوشبو ان تمام محفلوں میں رچی بسی ہوئی ہے جہاں انہوں نے قدم رکھا۔ بچوں کے لیے وہ ایک مہربان بزرگ تھے اور بڑوں کے لیے مشعلِ راہ۔ ان کی زندگی، جدوجہد اور انکساری کا ایک حسین امتزاج تھی۔ ان کی باتوں میں علم، عمل میں اخلاص اور نظر میں دور اندیشی تھی۔ آج جب وہ ہم میں نہیں ہیں، تو ان کی مسکراہٹ، ان کی دعائیں اور ان کی جدوجہد میرے ذہن میں ایک مشعل کی مانند روشن ہے۔ نجف کی گلیوں سے لے کر کراچی کے تعلیمی اداروں اور غندوس کی روحانی فضا تک، آغا سید محمد رضوی کی زندگی ایک ایسا سفر ہے، جو علم، خدمت اور قربانی سے عبارت ہے۔

مگر ہر داستان کا ایک اختتام ہوتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے بیماری نے انہیں آہستہ آہستہ کمزور کر دیا، مگر وہ اپنی بیماری کو اپنی ہمت پر غالب نہ آنے دیتے۔ پھر وہ دن بھی آپہنچا، جس کا وعدہ رب نے ہر نفس سے کیا ہے۔ 13 مئی 2025ء، 15 ذیقعدہ 1446 ہجری کو آغا سید محمد رضوی نے دنیا سے رخصت لے لی۔ وہ چلے گئے، مگر ان کی آواز، ان کا اخلاق، ان کی تحریریں، ان کی مسکراہٹ اور سب سے بڑھ کر ان کی جدوجہد ہمیں یہ سبق دے گئی کہ: "خدمت کبھی ضائع نہیں ہوتی اور مخلص لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔" انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ میرے ماموں جان کی مغفرت فرمائے۔ آمین (منگل، 13 مئی 2025ء/15 ذیقعدہ 1446ھ)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آغا سید محمد رضوی نے آغا سید محمد رضوی کی کی مسکراہٹ ان کے لیے انہوں نے کا ایک اور ان لے گئے

پڑھیں:

دبئی مال میں ولی عہد نے تمام افراد کے کھانے کا بل ادا کر دیا

دبئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جون2025ء)دبئی میں دنیا کے سب سے بڑے دبئی مال میں ولی عہد شیخ حمدان بن محمد بن راشد المکتوم نے تمام افراد کے کھانے کا بل ادا کر دیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق دبئی کے ولی عہد شیخ حمدان بن محمد بن راشد المکتوم اور ابوظبی کے ولی عہد شیخ خالد بن محمد بن زاید النہیان بغیر کسی پروٹوکول کے دبئی مال کے فرانسیسی ریستوران میں داخل ہوئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے دیگر مہمانوں کو سلام کیا اور پرسکون ماحول میں اپنا کھانا کھایا اور ریستوران میں موجود تمام مہمانوں کا بل خاموشی سے ادا کردیا۔بتایا گیا ہے کہ مہمانوں کا مجموعی بل 30 ہزار اماراتی درہم یعنی 23 لاکھ پاکستانی روپے کے لگ بھگ تھا۔جب کھانے کے بعد مہمانوں نے بل مانگا تو انہیں بتایا گیا کہ شیخ حمدان اور شیخ خالد نے سب کا بل پہلے ہی ادا کر دیا ہے۔ریستوران انتظامیہ نے بعد میں اسے اعزاز اور فخر قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ولی عہد نہایت وقار اور سادگی کے ساتھ ملے اور ان کی سخاوت نے عملے اور مہمانوں پر گہرا اثر چھوڑا۔

متعلقہ مضامین

  • سمندر کا بڑھتا درجہ حرارت آبی حیات کیلیے خطرہ ہے، جنید انوار
  • مہوش حیات کو کیسے’ لائف پارٹنر‘ کی تلاش؟ اداکارہ نےبتا دیا
  • مہوش حیات کو کیسے ہمسفر کی تلاش ہے اور مستقبل کے ارادے کیا ہیں؟ اداکارہ نے سب بتا دیا
  • اسحاق ڈار سے پی آئی اے کے سی ای او عامر حیات کی ملاقات
  • رائٹر اقبال رضوی انتقال کر گئے
  • ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کی صوبائی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس، علامہ سید احمد اقبال رضوی کی شرکت 
  • بہت کم عمری میں اللہ تعالیٰ سے ایک گہرا رشتہ قائم کر لیا تھا، مہوش حیات
  • بھارتی فاسٹ بولر محمد سراج نے فوڈ بزنس میں قدم رکھ دیا
  • دبئی مال میں ولی عہد نے تمام افراد کے کھانے کا بل ادا کر دیا
  • مہوش حیات کی بہن نے بھی پاکستان شوبز میں انٹری دے دی