پاکستان کے آئندہ مالی سال2025-26  کیلیے وفاقی بجٹ سازی بارے حکومت  اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ  کے درمیان ورچوئل مذاکرات کا آغاز آج  سے شروع ہورہا ہے۔ جو 16 اپریل تک جاری رہیں گے۔ بجٹ مذاکرات کے دوسرے اور آخری مرحلے کے لیے آئی ایم ایف مشن ہفتے کے روز  اسلام آباد پہنچے گا اور 23 مئی تک مذاکرات ہوںگے۔ تفصیلات کے مطابق پاک بھارت کشیدگی نے آئی ایم ایف ٹیم کی پاکستان آمد کو متاثر کیا۔آئی ایم ایف خطے میں سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے اسلام آباد کے سفر میں تاخیر کے بعد آج  سے نئے بجٹ پر ورچوئل مذاکرات کا آغاز کرے گا۔  سکیورٹی صورتحال کے باعث آئی ایم ایف مشن منگل کی بجائے اب ویک اینڈ پر اسلام آباد پہنچنے کا امکان ہے، وزارت خزانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں آمدن اور اخراجات پر بات ہوگی۔  آئندہ بجٹ میں 400ارب روپے کے ٹیکس اقدامات پر غورہوگا اوربجٹ میں ٹیکس ریلیف اقدامات پر بھی خصوصی سیشنز ہوں گے۔ تنخواہ دارطبقے پر انکم ٹیکس میں ریلیف پر آئی ایم ایف کو منانے کیلئے خصوصی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ صنعتوں اور تعمیراتی شعبے کیلئے بھی آئی ایم ایف کو راضی کرنے کی کوشش ہوگی۔آئی ایم ایف نے بلغاریہ سے وابستہ مس آئیوا پیٹرووا کو پاکستان میں  نیا مشن چیف بھی مقرر کر دیا ہے۔ حکومت عید تعطیلات سے قبل 2 جون کو نیا بجٹ پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ آئندہ مالی سال میں بھی مالیاتی پالیسی سخت رہنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ جی ڈی پی پرائمری بجٹ سرپلس کا 1.

6 فیصد ہونے کے مفروضے پر بجٹ بنائے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف

پڑھیں:

آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط، مذاکرات آج شروع ہوں گے

اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے سابق ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کیخلاف توہین عدالت انٹرا کورٹ اپیل کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آرٹیکل 5کی شق دو کے تحت ہر شہری پر آئین کی پابندی لازم ہے۔

یہ سپریم کورٹ کے ریگولر بینچ کے معزز ججز (جسٹس منصو ر علی شاہ کی سربراہی میں بینچ ) کی آئینی ذمے داری تھی کہ وہ آئین پاکستان پر عمل کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کو مزید آگے بڑھانے سے اس وقت رک جاتے جب آئین کے آرٹیکل 191اے تین اور پانچ کا حوالہ دیا گیا ۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے جج کے سامنے جوابدہ نہیں،جب اعلی عدلیہ کا جج اپنے جج کیخلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا تو توہین عدالت کی کارروائی کیسے کر سکتا ہے؟

سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ جج کیخلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں قرار دیا سوال یہ ہے کہ آئینی اور ریگولر کمیٹی میں شامل ججز کیخلاف توہین عدالت کاروائی ممکن ہے یا نہیں،آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججز کو انتظامی امور میں استثنی حاصل ہے،ججز کو اندرونی اور بیرونی مداخلت سے تحفظ دیا گیا ہے۔

ایک ججز اپنی ہی عدالت کے کسی جج کیخلاف کسی قسم کی رٹ یا کاروائی نہیں کر سکتا،محمد اکرام چوہدری کیس کے فیصلے کی مطابق ججز کیخلاف کارروائی ممکن نہیں،عدلیہ جمہوری ریاست میں قانون کی حکمرانی کے محافظ کے طور پر بنیادی ستون ہے۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے جج کے سامنے جوابدہ نہیں،جب اعلی عدلیہ کا جج اپنے جج کیخلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا تو توہین عدالت کی کارروائی کیسے کر سکتا ہے،سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ جج کیخلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔

آرٹیکل 209 جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی اور فورم پر جج کیخلاف کاروائی پر قدغن لگاتا ہے، توہین عدالت قانون بنانے کا پارلیمنٹ کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ایک جج دوسرے جج کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججز اپنے ساتھی ججز کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتے اور نہ ہی سزا دے سکتے ہیں۔ 

اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اپنے دائرے میں مساوی حیثیت اور اختیار رکھتے ہیں،اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج دوسرے پر برتر یا کم تر حیثیت نہیں رکھتا کہ وہ ہدایت جاری کرے یا سزا دے سکے، اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کو اپنے ہی ساتھی جج کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی اجازت دی جائے تو یہ ان کے درمیان باہمی احترام اور یکجہتی کو نقصان پہنچائے گا۔ 

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم رکھنا عدالتوں کے ہموار کام کے لیے ضروری ہے، کسی جج کا اپنے ساتھی جج کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنا اندرونی اختلافات، شکایات اور کدورتیں پیدا کرے گا، اس سے انارکی پھیلے گی اور نظامِ عدل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا۔ 

پاکستانی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس عدالت نے ”جسٹس (ر) افتخار حسین چوہدری و دیگر“ کیس میں سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ان جج صاحبان کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے جنہوں نے 3 نومبر 2007 کے حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی سی او کا حلف اٹھایا۔

جولائی 2009 کے فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ غیرآئینی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بعد وہ صاحبان جج ہی نہیں رہے تھے۔ یہ اصول طے شدہ ہے کہ جزوی طور پر سنے گئے مقدمات کو کسی انتظامی حکم کے ذریعے منتقل نہیں کیا جا سکتا تاہم اگر کسی مقدمے کی سماعت کے دوران آئین یا قانون میں ترمیم یا نئی قانون سازی کے ذریعے عدالت کا دائرہ اختیار ختم کر دیا جائے تو وہ عدالت مزید کارروائی کی مجاز نہیں رہتی۔

کسی جج یا بینچ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ دفتر یا کسی کمیٹی کو یہ ہدایت دے کہ کوئی مخصوص مقدمہ اس کے سامنے مقرر کیا جائے جبکہ وہ مقدمہ اس کے دائرہ اختیار میں نہ ہو یا رول کے مطابق اس کے سامنے مقرر نہ کیا گیا ہو، جج صاحبان اپنے حلف، ججوں کے ضابطہ اخلاق، قانون اور قواعد کے پابند ہیں، اگر ہر جج اپنی مرضی کے مقدمے سننے لگے تو عدالت کا نظم و ضبط متاثر اور عوام کا اعتماد مجروح ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان ٹیکس ہدف پورا نہ کرسکا،آئی ایم ایف کے تحفظات
  • آئی ایم ایف نے گزشتہ مالی سال کا ٹیکس ہدف پورا نہ ہونے پر تحفظات ظاہر کردیے
  • آئی ایس او پاکستان کا مرکزی تین روزہ ''شہید مقاومت سیمینار '' آج سے شروع ، ملک بھر سے قافلے روانہ 
  • معاشی ٹیم نے ٹیکس محاصل اور مالی کارکردگی کا ڈیٹا آئی ایم ایف سے شیئر کردیا
  • آئی ایم ایف کا گزشتہ مالی سال 12 ہزار 970 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار
  • 7 ارب ڈالر قرض پروگرام، آئی ایم ایف جائزہ مشن پاکستان پہنچ گیا
  • آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط، مذاکرات آج شروع ہوں گے
  • آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط، مذاکرات آج شروع ہوں گے 
  • 7 ارب ڈالرز قرض پروگرام: آئی ایم ایف مشن پاکستان پہنچ گیا
  • ارب ڈالرز قرض پروگرام: آئی ایم ایف مشن پاکستان پہنچ گیا