سندھ طاس معاہدے میں اسے یکطرفہ معطل یا ختم کرنےکی کوئی شق نہیں، صدر ورلڈ بینک
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
ویب ڈیسک : ورلڈبینک کے صدر اجے بنگا نےکہا ہےکہ سندھ طاس معاہدے میں اسے یکطرفہ معطل کرنے یا ختم کرنےکی کوئی شق نہیں ہے، معاہدے میں تبدیلی یا اسے ختم کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کا متفق ہونا ضروری ہے۔
ایک انٹرویو میں ورلڈبینک کے صدر اجے بنگا نےکہا کہ بھارت نے تکنیکی طورپر معاہدہ التوا میں ڈالا ہے، معاہدے کے طے شدہ طریقہ کار کی پاسداری ضروری ہے۔ اجے بنگا نے واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدے میں عالمی بینک کا کردار ایک سہولت کارکا ہے نا کہ ثالث کا، یہ معاہدہ دو خودمختار ملکوں کے درمیان ہے ، خواہش ہے دونوں ممالک اس معاہدے پر ایک نظر ڈالیں اور تعمیری انداز میں بات چیت کریں تاکہ معاہدےکی سالمیت اور اس کے اندر موجود تعاون کے جذبے کو برقرار رکھا جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات میں کوئی فیصلہ کرے یا مداخلت کرے۔ اس کا کام صرف یہ ہےکہ جب دونوں فریق درخواست دیں تو غیر جانبدار ماہرین یا ثالثی کے پینل کا تقرر کرے تاکہ اختلافات کو حل کیا جاسکے۔
Currency Exchange Rate Tuesday May 14, 2025
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: معاہدے میں
پڑھیں:
مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیزی مکروہ اقدام ہے، اس سے نمٹنا ہوگا، برطانوی وزیراعظم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر نے مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت انگیز رویوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ ہاؤس آف کامنز میں خطاب کے دوران انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ایسے رویے نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہیں بلکہ ایک مہذب معاشرے میں ان کی کوئی گنجائش نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت ملک میں بڑھتی اسلاموفوبیا اور نسلی امتیاز کی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ان کے مطابق مسلمانوں کے خلاف نفرت، دھمکی یا تعصب پر مبنی کسی بھی عمل کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمتِ عملی اختیار کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بھی اعلان کیا کہ مساجد اور مسلم اسکولوں کی سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے اضافی فنڈنگ فراہم کی جا رہی ہے تاکہ عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں کو تحفظ دیا جاسکے، نفرت انگیز سرگرمیوں کی نگرانی کی جاسکے اور متاثرہ افراد کی مدد کو مؤثر بنایا جاسکے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ برطانیہ ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتا ہے جہاں ہر مذہب اور ہر کمیونٹی کے افراد کو برابری اور احترام میسر ہو۔