سرینگر(اوصاف نیوز) بھارتی ایئرپورٹ مسلسل بند ، طیارے ہٹا دیئے ، خوف یا خفیہ منصوبہ بندی ، سیز فائر کے باوجود 24 بھارتی ایئرپورٹ مسلسل بند ہیں جبکہ 444 پروازیں منسوخ کی گئی ہیں اور طیارے بھی ہٹا دیئے گئے ہیں۔

امرتسر ، سری نگر ، جموں ، لداخ ، دھرم شالا ، شملہ ، آدم پور اور چندی گڑھ کی آج بھی تمام پروازیں منسوخ کی گئی ہیں۔ کاشان گڑھ ، راجکوٹ ، ہیر اسر ائیر پورٹ کا فلائٹ آپریشن آٹھویں روز بھی معطل رہی۔ 24 ایئرپورٹ کا فلائٹ آپریشن آج بھی غیر فعال ، تمام طیارے بھی ہٹا لیے گئے ہیں۔

امرتسر ایئرپورٹ سے روزانہ 123 پروازیں آپریٹ ہوتی ہیں تمام منسوخ ، سیسنا طیارہ موجود ہے۔ 7 دن سے بند سری نگر ائیر پورٹ سے روزانہ کی 65 پروازیں منسوخ ہوئیں ، کوئی طیارہ بھی موجود نہیں ہے۔

لداخ کے لیح کوشک ائیر پورٹ کی آج بھی تمام 30 پروازیں منسوخ ہیں ، فلائٹ شیڈول کے مطابق جموں ایئر پورٹ کی 30 پروازیں منسوخ ہیں اور تمام طیارے ہٹا لئے گئے ہیں۔

دھرم شالہ کی 14 پروازیں منسوخ ، پنجاب سول ایوی ایشن کا ایک گلوبل رینجر جہاز موجود ہے ، چندی گڑھ کی آج کی تمام 70 پروازیں منسوخ ، گراؤنڈ پر 4 چھوٹے جہاز کھڑے ہیں۔ جودھ پور ایئرپورٹ کی 20 پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں ، 505 جیٹ رینجر ایکس موجود ہے۔ راجکوٹ ہیراسر ایئرپورٹ 20 پروازیں آج بھی منسوخ ، 7 دن سے کسی ایئر لائن کا کوئی جہاز نہیں اتر سکا ہے۔

گجرات کے بھوج ائیر پورٹ سے بھی 10 پروازیں منسوخ ہیں، کوئی جہاز بھی نہیں آ سکا ، کلو بونٹر 6 پروازیں آپریٹ ہوتی ہیں، تمام منسوخ، ایئرپورٹ خالی ہے۔ جالندھر کے آدم پور ایئرپورٹ کی 2 پروازیں منسوخ ہیں کوئی طیارہ موجود نہیں ہے۔شملہ کی یومیہ 4 پروازیں آج بھی منسوخ ، ایئرپورٹ پر 6 دن سے 1 طیارہ اور 1 ہیلی کاپٹر موجود ہے ، لدھیانہ ائیر پورٹ کی آج کی 2 پروازیں منسوخ ہیں ، اب کوئی طیارہ موجود نہیں ہے۔

بٹھنڈا ائیر پورٹ کی 4 سہارن پور کی پروازیں منسوخ اور وہاں 4 طیارے موجود ہیں۔ بیکانیر نال کی 4 پروازیں بند ، 7 دن سے انڈین ائیر فورس کا لاک ہیڈ میریٹن سی 130 جے 30 ہر کولیس طیارہ موجود ہے۔

کشن گڑھ کی 10 پروازیں منسوخ ، ایویانا ایوی ایشن اکیڈمی کے 6 پائپر آرچر طیارے 7 دن سے موجود ہیں۔ سکھر اور میرپور خاص کے قریبی بھارت کے جیسل میر ائیر پورٹ پر بھی کوئی طیارہ موجود نہیں ہے۔

ہریانہ کے مہاراجہ اگرسین ایئرپورٹ سے آج کی 4 پروازیں منسوخ، کوئی طیارہ موجود نہیں، بٹھنڈا کی 4 پروازیں منسوخ، 7 دن سے فلائی بگ ایئر کا ایک وکنگ طیارہ موجود ہے۔

کاندھلا کی یومیہ کی 2 پروازیں آج بھی منسوخ ، سپائس جیٹ ایئر کے طیارے کے گوا منتقل کردیا گیا۔ جام نگر کی 2 ، کیشود کی 4 پروازیں منسوخ ، پور بندر ، راج کوٹ ائیر پورٹ پر کوئی طیارہ موجود نہیں ہے۔
بنیان مرصوص، فتح 1 ، 2 میزائل سسٹم سے پٹھانکوٹ کو ٹارگٹ کرنے کی بھی ویڈیو منظر عام پر آ گئی

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کوئی طیارہ موجود نہیں ہے پروازیں منسوخ ہیں کی 4 پروازیں ائیر پورٹ پروازیں ا موجود ہے پورٹ سے پورٹ کی ا ج بھی

پڑھیں:

ائیر انڈیا کا جہاز کیا پائلٹ نے تباہ کیا؟

بھارت کے شہر، احمد آباد میں گزشتہ ماہ ایئر انڈیا کا طیارہ اڑان بھرتے ہی تباہ ہو گیا تھا۔اس حادثے میں 260 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سانحے کے بارے میں نئی تفصیلات وسط جولائی میں سامنے آگئیں۔ان تفصیلات میں طیارہ گرنے سے قبل آخری لمحات کے دوران سینئر پائلٹ کی کارروائیوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

ممتاز امریکی اخبار ، وال اسٹریٹ جرنل نے 16جولائی کو ایک رپورٹ شائع کی۔اس رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ، شواہد کے ابتدائی جائزے یعنی دونوں پائلٹوں کے درمیان آخری گفتگو کی بلیک باکس آڈیو ریکارڈنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاز کے کپتان نے ہوائی جہاز کے انجنوں میں ایندھن کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے والے سوئچز کو بند کر دیا تھا۔

پچھلے ہفتے ہی انڈیا کے ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (اے اے آئی بی) کی ابتدائی رپورٹ میں پتا چلا کہ جہاز کے دونوں انجن ایک سیکنڈ کے اندر بند ہو گئے تھے۔اس وجہ سے جہاز کی اونچائی کو فوری طور پر نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں طیارہ احمد آباد کے ایک گنجان آباد مضافاتی علاقے میں جا گرا ۔ تاہم،اس رپورٹ میں، جس میں کہا گیا تھا کہ ایندھن پر قابو پانے والے سوئچز "کٹ آف" پوزیشن پر چلے گئے تھے،سئینر اور جونئیر، دونوں پائلٹوں کو اس واقعے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔بھارت میں کمرشل پائلٹوں کے دو گروپوں نے بھی ان تجاویز کو مسترد کر دیا ہے کہ ہو سکتا ہے، انسانی غلطی اس تباہی کا سبب بنی ہو۔

ایئر انڈیا کی فلائٹ کا کیا ہوا؟

12 جون کو دوپہر 1بجکر 38 منٹ پر(08:08 GMT) ایئر انڈیا کی پرواز 171 نے احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے سے لندن گیٹوک ہوائی اڈے جانے کے لیے اڑان بھری ۔اس میں 230 مسافر، 10 کیبن عملہ اور دو پائلٹ سوار تھے۔

ٹیک آف کے تقریباً 40 سیکنڈ بعد ہوائی جہاز، بوئنگ 787 ڈریم لائنر کے دونوں انجن ابتدائی چڑھائی کے دوران بجلی سے محروم ہو گئے۔ اس کے بعد طیارہ رن وے سے 1.85 کلومیٹر (1.15 میل) دور آبادی والے مضافاتی علاقے میں واقع بی جے میڈیکل کالج ہاسٹل سے ٹکرا گیا۔

طیارہ عمارت سے ٹکرانے سے ٹوٹ گیا، جس سے اس میں آگ لگ گئی۔اس آگ سے پانچ عمارتوں کے حصے جل گئے۔ ہوائی جہاز میں سوار تمام مسافروں کی موت ہو گئی سوائے ایک کے ، وشواس کمار رمیش، ایک 40 سالہ برطانوی شہری جو ہندوستانی نژاد ہے۔ زمین پر موجود 19 افراد بھی ہلاک اور 67 زخمی ہوئے۔

اے آئی بی کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

اے اے آئی بی بوئنگ کمپنی، امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین کے ساتھ مل کر حادثے کی تحقیقات کر رہا ہے جو ایک دہائی میں ہوا بازی کا سب سے مہلک واقعہ کہا جاتا ہے۔ جولائی کے دوسرے ہفتے جاری ہونے والی تفتیش کاروں کی ابتدائی رپورٹ میں پتا چلا کہ طیارے کوسفر کے قابل سمجھا گیا تھا، اس کی جدید ترین دیکھ بھال کی گئی تھی اور اس میں کوئی خطرناک سامان نہیں تھا۔

لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018ء کی یو ایس فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن ایڈوائزری نے ڈریم لائنر سمیت کچھ بوئنگ طیاروں کے فیول کنٹرول سوئچ سسٹم میں ممکنہ خامی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایئر انڈیا نے سسٹم کا معائنہ نہیں کیا اور اس کے لیے ایسا کرنا لازمی نہیںتھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حادثے کے دوران ریکوری سسٹم چالو ہو گیا تھا لیکن ایک انجن میں صرف جزوی ریلیٹ نے جنم لیا یعنی وہ پھر چل پڑا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔

دونوں انجن ٹیک آف کے فوراً بعد بند ہو گئے کیونکہ ایندھن کے سوئچز(Fuel Switches) "رن" سے "کٹ آف" پوزیشن پر منتقل ہو گئے۔ رپورٹ میں ایک بلیک باکس آڈیو ریکارڈنگ کا حوالہ دیا گیا جس میں ایک پائلٹ نے پوچھا، "آپ نے (ایندھن) کیوں کاٹ دیا؟" اور دوسرے نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ رپورٹ کی رو سے مقررین کی شناخت نہیں ہو سکی۔

ہنگامی اقدامات کرنے کے باوجود صرف ایک انجن جزوی طور پر دوبارہ شروع ہوا اور عمارت سے ٹکرانے سے چند لمحے پہلے اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہونے سے پہلے "مے ڈے" کال جاری کی گئی۔

ایئر ٹریفک کنٹرول کو اس ایمرجنسی کال کے بعد کوئی جواب نہیں ملا لیکن اس نے طیارے کو ہوائی اڈے کی حدود سے باہر گرتے دیکھا۔ ہوائی اڈے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں فلائٹ ریکوری سسٹم میں سے ایک دکھایا گیا جسے رام ایئر ٹربائن (Ram Air Turbine) کے نام سے جانا جاتا ہے۔وہ سسٹم لفٹ آف کے فوراً بعد تعینات ہوتا ہے جس کے بعد تیزی سے نیچے اترتا دکھائی دیتا ہے۔

پائلٹ کون تھے؟

  56 سالہ کیپٹن سومیت سبھروال نے پرواز میں پائلٹ ان کمانڈ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ ایک نرم گو تجربہ کار پائلٹ تھا جس نے 15,600 سے زیادہ پرواز کے اوقات لاگ ان کیے تھے، جن میں سے 8,500 بوئنگ 787 پر تھے۔ سبھروال اپنی مخصوص طبیعت، محتاط عادات اور جونیئر پائلٹوں کی رہنمائی کے لیے جانا جاتا تھا۔

اس نے ہندوستان کے پریمیئر ایوی ایشن اسکول، اندرا گاندھی راشٹریہ یوران اکیڈمی میں تربیت حاصل کی اور وال اسٹریٹ جرنل سے بات کرنے والے دوستوں نے انہیں اچھا پائلٹ قرار دیا جواپنے کیرئیر کو بہتر سے بہتر بنانا چاہتا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ اپنے بوڑھے والد کی دیکھ بھال بھی تندہی سے کر رہاتھا۔انھوں نے اچھے لفظوں میں اپنے ساتھی اور سول ایوی ایشن کے سابق اہلکار کو بھی یاد کیا۔

32 سالہ فرسٹ آفیسر کلائیو کنڈر حادثے کے وقت طیارے کو اڑانے والا پائلٹ تھا جبکہ سبھروال اس کی نگرانی کر رہا تھا۔کنڈر نے 3,400 سے زیادہ پرواز کے گھنٹے جمع کیے تھے جن میں ڈریم لائنر پر 1,128 گھنٹے شامل تھے۔ اڑان اس کا بچپن کا خواب تھا کہ کلائیو کنڈر کی والدہ کے بطور ایئر انڈیا فلائٹ اٹینڈنٹ کے تیس سالہ کیریئر سے ازحد متاثر تھا۔

انیس سال کی عمر میں اس نے امریکہ میں تربیت حاصل کی اور 2017 میں ایئر انڈیا میں شامل ہونے کے لیے بھارت واپس آنے سے پہلے کمرشل پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق کلائیو کنڈر کو خاندان اور دوستوں کی طرف سے خوش کن، متجسّس اور ٹیک سیوی کے طور پر بیان کیا گیا۔ کنڈر کو ہوا بازی کا شوق تھا اور وہ بوئنگ 787 اڑانے کے لیے پُرجوش بتایا گیا۔

رپورٹ میں کیا سامنے آیا ہے؟

امریکی حکام جنہوں نے حادثے کے شواہد کی جانچ کی ،ان کے قریبی ذرائع نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا، کاک پٹ کی آواز کی ریکارڈنگ سے پتا چلتا ہے کہ یہ سبھروال ہی تھا جس نے ٹیک آف کے بعد فیول کنٹرول سوئچز کو "کٹ آف" پر منتقل کیا تھا، ایسا عمل جس سے دونوں انجنوں کی پاور کٹ گئی۔

سوئچز کو چند سیکنڈ بعد دوبارہ آن کر دیا گیا، لیکن بھاری بھرکم ہوائی جہاز کے لیے مکمل زور دوبارہ حاصل کرنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔وال سٹریٹ جرنل رپورٹ میں نامعلوم امریکی پائلٹوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ فلائنگ پائلٹ کے طور پر کنڈر کی ساری توجہ جہاز اڑانے پر مرکوز تھی اور اس دوران جہاز اڑانے والے پائلٹ کے لیے بالکل یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ سوئچز میں ہیرا پھیری کر سکتا۔ سبھروال اس وقت نگرانی کے پائلٹ کے طور پر کردار نبھا رہا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ آزاد تھے۔

ایندھن کو کنٹرول کرنے والے سوئچز

 پائلٹوں کی دو سیٹوں کے درمیان ،تھروٹل لیورز کے بالکل پیچھے، ایک کلیدی کاک پٹ پینل پر واقع یہ سوئچز ہوائی جہاز کے دو انجنوں میں سے ہر ایک میں ایندھن کے بہاؤ کا انتظام کرتے ہیں۔

پائلٹ زمین پر رہتے ہوئے انجن کو شروع کرنے یا بند کرنے کے لیے ایندھن کے کٹ آف سوئچ کا استعمال کرتے ہیں۔ پرواز میں پائلٹ ناکامی کی صورت میں انجن کو دستی طور پر بند یا دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔

 سوئچ کیسے کام کرتے ہیں؟

سوئچ دستی آپریشن کے لیے بنائے گئے ہیں۔ وہ اپنی جگہ پر مضبوطی سے رہنے کے لیے اسپرنگ سے لدے ہوتے ہیں اور فلائٹ آپریشن کے دوران حادثاتی طور پر یا ہلکے دباؤ کے ساتھ منتقل نہیں ہو سکتے۔

سوئچ کی دو سیٹنگیں ہیں: "کٹ آف" اور "رن"۔ "کٹ آف" موڈ ایندھن کو انجن تک پہنچنے سے روکتا ہے جبکہ "رن" ایندھن کے معمول کے بہاؤ کی اجازت دیتا ہے۔ پوزیشن تبدیل کرنے کے لیے پائلٹ کو سب سے پہلے سوئچ کو "رن" اور "کٹ آف" کے درمیان منتقل کرنے سے پہلے اوپر کی طرف کھینچنا ہوتا ہے۔

کیا حادثہ انسانی غلطی کی وجہ ؟

ماہرین اس بارے میں محتاط ہیں۔ امریکی ایوی ایشن تجزیہ کار ، میری شیاوو نے بھارت کے اخبار، فنانشل ایکسپریس کو بتایا کہ لوگوں کو وقت سے پہلے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ ابھی تک پائلٹ کی غلطی کا کوئی قطعی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔اس نے اسی طرح کے ایک واقعے پر روشنی ڈالی ۔اس واقعے میں 2019 میں اوساکا، جاپان جاتے ہوئے دوران پرواز آل نپون ایئر ویز بوئنگ 787 کے ایک انجن نے اچانک کام کرنا بند کر دیا تھا۔ یہ پرواز مگر پائلٹوں کی دانشمندی اور تجربے کاری کی بدولت اترنے میں کامیاب رہی۔

تفتیش کاروں کو بعد میں پتا چلا کہ طیارے کے سافٹ ویئر نے غلطی سے طیارے کے مرکزی نظام کو یہ باور کرا دیا کہ وہ زمین پر کھڑا ہوا ہے ۔اس عمل نے طیارے میں ایک سسٹم، تھرسٹ کنٹرول میں خرابی رہائش کے نظام کو متحرک کر دیا ۔اس سسٹم نے پائلٹس کی طرف سے کسی کارروائی کے بغیر خود بخود فیول سوئچ کو "رن" سے "کٹ آف" میں منتقل کرڈالا۔شیاوو خبردار کرتے ہوئے کہتی ہے، ایئر انڈیا کے حادثے میں بھی اسی طرح کی خرابی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔اس نے گمراہ کن تشریحات سے بچنے کے لیے مکمل کاک پٹ وائس ریکارڈر (CVR) ٹرانسکرپٹ جاری کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔وہ کہتی ہے’’کاک پٹ وائس ریکارڈر کی اب تک جو گفتگو سامنے آئی ہے، وہ یہ نہیں بتاتی کہ وہ کوئی پائلٹ خودکشی کرنا چاہتا تھا۔یا وہ اپنے ساتھ سبھی مسافروں کو بھی ہلاک کرنا چاہتا تھا۔میں سمجھتی ہوں کہ کاک پٹ وائس ریکارڈر پر آوازوں، الفاظ اور آوازوں کا احتیاط سے تجزیہ کیا جانا چاہیے۔"

امریکی اخبار میں شائع شدہ رپورٹ پر انڈیا کی فیڈریشن آف انڈین پائلٹس نے تنقید کی۔ ایک عوامی بیان میں فیڈریشن نے نوٹ کیا کہ رپورٹ سی وی آر کے اقتباسات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس میں جامع ڈیٹا کا فقدان ہے۔

"شفاف ڈیٹا سے چلنے والی تحقیقات سے پہلے کسی ایک پائلٹ پر الزام لگانا قبل از وقت اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ عملے کی پیشہ ورانہ مہارت کو مجروح کرتا اور ان کے اہل خانہ کو بے جا تکلیف پہنچاتا ہے۔

ایئر انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو، کیمبل ولسن نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ آنے کے بعد عملے پر زور دیا کہ وہ حادثے کی وجوہ کے بارے میں قبل از وقت کوئی نتیجہ نہ نکالیں، اور کہا کہ تحقیقات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • یوم آزادی: معرکہ حق میں استعمال طیاروں، ٹینکوں، توپوں، دیگر جنگی ہتھیاروں کی نمائش
  • یو اے ای میں چند ماہ سے  پھنسا ایدھی فاؤنڈیشن کا ایئر ایمبولینس طیارہ پاکستان پہنچ گیا
  • عدالت کو یقین دہانی کے باوجود اعظم سواتی کو پشاور ایئرپورٹ پر روک دیا گیا
  • سربراہ بھارتی فضائیہ کا مضحکہ خیز بیان، بھارت کی مزید جگ ہنسائی
  • بھارت کا عسکری غرور خاک میں مل چکا، ہر جارحیت کا بھرپور جواب دینگے، شہباز شریف
  • امریکا میں ایئرپورٹ پر دو طیارے آپس میں ٹکرا گئے؛ خوفناک آگ بھڑ اُٹھی
  • مونٹانا ایئرپورٹ پر طیارہ لینڈنگ کے دوران کھڑے جہاز سے ٹکرا گیا، آگ بھڑک اٹھی
  • پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں غیر متوقع بہتری نے بھارت کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا، فنانشل ٹائمز
  • ائیر انڈیا کا جہاز کیا پائلٹ نے تباہ کیا؟
  • بھارتی ایئرچیف کو پاکستانی طیارے گرانے کادعویٰ مہنگاپڑگیا