درآمدی گاڑیاں سستی، مقامی آٹو انڈسٹری خطرے میں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریوں کے دوران پاکستان میں گاڑیوں کی درآمد سے متعلق پالیسی پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر عائد پابندی ختم کی جائے، اور اب تین سے پانچ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے کی تجویز زیر غور ہے۔
درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے پاکستانی صارفین کو سستی، جدید اور لگژری گاڑیاں میسر آئیں گی، جو اس وقت مقامی مارکیٹ میں مہنگے داموں دستیاب ہیں۔ ایک درآمدکنندہ کے مطابق،660 سی سی کی درآمدی گاڑی اس وقت 20 سے 22 لاکھ روپے میں دستیاب ہے جبکہ اسی کیٹیگری کی مقامی گاڑی 25 لاکھ سے کم قیمت میں نہیں ملتی۔
تاہم مقامی آٹو مینوفیکچررز نے اس تجویز پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگر درآمدی گاڑیوں پر پابندیاں نرم کی گئیں تو مقامی آٹو انڈسٹری شدید متاثر ہوگی، جس سے لاکھوں افراد کا روزگار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
آٹو انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کو دانشمندانہ فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ ایک طرف صارفین کو بہتر آپشنز میسر آئیں، اور دوسری جانب مقامی صنعت اور اس سے وابستہ روزگار بھی محفوظ رہے۔
ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف معیشت بلکہ پاکستان کی صنعتی خودکفالت کے لیے بھی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ بجٹ سے قبل حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر متوازن پالیسی اختیار کرے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیلی فوج کا غزہ سے ڈھائی لاکھ فلسطینوں کی نقل مکانی کا دعویٰ
یروشلم: اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ غزہ شہر سے اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جب کہ فلسطینی حکام کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں کم ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ جنوبی علاقوں میں ہجوم کی وجہ سے منتقل نہیں ہو سکے۔
اقوام متحدہ نے اگست کے آخر میں اندازہ لگایا تھا کہ غزہ کے سب سے بڑے شہری مرکز اور اس کے اردگرد تقریباً دس لاکھ فلسطینی رہائش پذیر ہیں، جہاں کئی ماہ سے جاری محاصرے اور بمباری کے بعد قحط کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
فوجی ترجمان اویخائے ادرعی نے بتایا کہ "ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد اپنی حفاظت کے لیے شہر چھوڑ چکے ہیں۔" تاہم غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے دعویٰ کیا کہ اب تک صرف 70 ہزار کے قریب افراد ہی نکل سکے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ حماس کی قیادت کو ختم کیے بغیر غزہ میں امن ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "قطر میں رہنے والے حماس کے سربراہان عوام کی پرواہ نہیں کرتے، وہ مسلسل جنگ کو طول دینے کے لیے فائر بندی کی کوششوں کو ناکام بناتے رہے ہیں۔"
ادھر امریکی سینیئر سفارتکار مارکو روبیو نے کہا کہ قطر میں اسرائیلی حملے سے امریکا اور اسرائیل کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے، تاہم اس کے اثرات پر بات ضرور کی جائے گی تاکہ غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں جاری رہ سکیں۔