شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ، کسی ملک کو جھوٹے بیانیے پر اجارہ داری کی اجازت نہیں دینگے: ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ انحصار خود پر ہے اور پاکستانی قوم کبھی جھکی ہے اور نہ جھکے گی۔ میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں اب بھی کہتا ہوں ہماری شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ ہے۔ چاہے کسی نے نیلی‘ سفید یا خاکی وردی پہن رکھی ہے، شہادت ہمارے لئے اعزاز ہے۔ چینی میڈیا گروپ کو انٹرویو میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم اللہ کے بعد سب سے زیادہ اپنے آپ پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم چیز اس کی طاقت ہے۔ جب ہمارا عزم مضبوط ہوگا اور جو ہم نے دکھایا، تو بین الاقوامی کمیونٹی بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کے جتنے بھی ممالک ہیں سب کو اس وقت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ لوگ انسانیت کی ترقی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی آبادی کے مسائل کا سامنا ہے۔ کیا ایسے میں ایک ملک دوسرے ملک پر بلاجواز، جھوٹے بیانیے، بغیر ثبوت کے چڑھ دوڑے؟۔ پڑوسی ممالک کے اوپر اپنی اجارہ داری مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ پاکستان کی قوم نہ پہلے جھکی تھی اور نہ ہم اب جھکیں گے۔ میں پہلی بھی کہتا رہا ہوں، اب بھی کہتا ہوں کہ ہماری شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ ہے۔ ہماری پہلی ترجیح امن ہے۔ آج پاکستان کی گلیوں میں دیکھیں تو لوگ آپ کو امن کی خوشی مناتے نظر آئیں گے۔ پاکستان اور چین دونوں ہی خطے میں امن و استحکام کے لیے کوشاں ہیں۔ ہم دہشتگردی کی لعنت سے لڑ رہے ہیں، دہشتگردی کا مقصد ہی ترقی کو روکنا ہے۔ چین نے کم عرصے میں جو ترقی کی ہے اسے دنیا کو دیکھنا چاہیے۔ پاکستان کے عوام بھی ترقی اور استحکام کی جانب جانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں میں آپ کو انسانیت نظر آئے گی۔ پاکستان کی آہنی دیوار میں عوام، مسلح افواج اور تمام شعبے شامل ہیں۔ اس آہنی دیوار کو دہشتگردی کے ناسور کی طرف موڑنا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ملک کیسے دوڑتا ہوا ترقی کی منازل طے کرے گا۔ پاکستان اور چین دنیا میں دو ذمہ دار ملک ہیں۔ پاکستان اور چین دونوں کی پہلی ترجیح لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔ لوگوں کی خوشحالی ہمیشہ امن و استحکام سے آتی ہے۔ پاکستان اور چین دونوں خطے میں امن و استحکام کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کے لئے ہم دہشتگردی کی لعنت سے لڑ رہے ہیں اور دہشتگردی کا مقصد ہی ترقی کو روکنا ہے۔ ہماری پہلی ترجیح امن ہے۔ آج پاکستان کی گلیوں میں دیکھیں تو آپ کو فتح نہیں بلکہ امن کی خوشی مناتے لوگ نظر آئیں گے۔ پاکستان کے لوگوں میں آپ کو انسانیت نظر آئے گی۔ ہم عاجزی کرتے ہوئے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں اور ہم اﷲ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ ہم امن پسند ہیں۔ پاکستان کی جو آہنی دیوار جس میں عوام‘ مسلح افواج اور تمام شعبے شامل ہیں‘ کو دہشتگردی کے ناسور کی جانب موڑنا ہے۔ ایک ملک جھوٹے بیانیے کی بنیاد پر ثبوت کے بغیر الزامات لگا رہا ہے۔ ایک ملک اگر جھوٹے بیانیے کی بنیاد پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ہم پر چڑھ دوڑے تو ہم کبھی اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیا موجودہ جدید دنیا میں کوئی ملک اپنے پڑوسی ممالک پر اجارہ داری مسلط کرنے کی کوشش کرسکتا ہے؟۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان اور چین جھوٹے بیانیے پاکستان کے پاکستان کی سے زیادہ
پڑھیں:
مستحکم معیشت، مضبوط دفاع
دورکی نظر رکھنے والے فلسفی یوول نوح ہراری اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ قدیم زمانے میں ریاستوں کی مجموعی پیداوارکا آدھا حصہ جنگ و جدل اور دفاع پر خرچ ہوتا تھا جوگزرتے وقت کے ساتھ کم ہوکر پانچ یا چھے فیصد پر آکر ٹھہرا ہے۔
ان کا یہ مشاہدہ درست ہوگا لیکن پرانے وقتوں میں جنگیں گھوڑوں، ہاتھیوں، اونٹوں،پیدل سپاہیوں ، تلوار، ڈھال اور نیزوں کے ساتھ لڑی جاتی تھیں اور آج کی جنگیں دور مار میزائلوں جو ان زمانوں کے نیزوں کا نعم البدل ہیں اور اب ڈرونز اور جدید ٹیکنالوجی سے لڑی جاتی ہیں۔
آج کی جنگیں زمینوں پر نہیں، فضاؤں میں لڑی جا رہی ہیں۔ جنگوں کا ارتقاء بڑی تیزی سے ہوا ہے۔ قدیم زمانوں میں کسی ریاست یا پھر دنیا کی مجموعی پیداوار کیا ہوگی؟ دور اکبری میں دہلی یا آگرہ کے زیر کنٹرول ہندوستان کی مجموعی پیداوار کا کوئی ثانی نہیں تھام، جب دنیا کی عظیم لوٹ مارکا قصہ کھولا جائے گا تو نادر شاہ افشار کا نام سرِفہرست ہے جس نے موجودہ افغانستان، ازبکستان اور دیگر ہمسایہ ریاستوں میں قتل و غارت کی، ہندوستان میں راجدھانی دلی میں لوٹ مارکی اورکوہِ نور بھی چرایا۔
جنگ کرنے کے لیے جنگ کا بیانیہ بھی بڑا ہونا چاہیے۔ ایک منظم بیانیہ بڑی معنی رکھتا ہے، یہ جنگ کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ ہم نے پاکستان کو دراصل ریا ست بننے ہی نہیں دیا۔
پاکستان بننے کے بعد ہم نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتو علاقوں کو قبائلی نظام کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ بلوچستان کے بلوچ ایریاز کو سرداری قبائلی نظام کے سپرد کیے رکھا۔ سندھ اور جنوبی پنجاب جاگیرداروں، وڈیروں اور گدی نشینوں کے اقتدار میں دیدیا۔
افغانستان کبھی مہذب جمہوری ریاست نہ بن سکا اور نہ سماجی ارتقائی عمل کا حصہ بنا۔ وہ طاقتور اقوام کی باہمی جنگ کا میدان بنا رہا۔ یہ ملک منشیات، ہتھیار، بارود کے کاروبار میں رہا۔
انسانی حقوق کے اعتبار سے آج بھی دنیا کی بدترین ریاست ہے ، آج اس غیرذمے دار ریاست اور اس کے ڈی فیکٹو حکمرانوںکو ہندوستان، پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ آج ہماری افواج ان کے سامنے چٹان کی طرح کھڑی ہے مگر ملکی سیاسی قیادت کہیں پیچھے۔
چند ریاستیں ایسی بھی ہیں جن کی مثالیں کچھ مختلف ہیں جیسا کہ چین ، جو دنیا کی عظیم معاشی و دفاعی طاقت ہے، لیکن وہاں ایسے آئین کا وجود نہیں جس میں انسانی حقوق پیوست ہوں۔ ان کی معیشت کا انحصار بین الاقوامی منڈی پر ہے۔
امن اور مارکیٹ اکانومی دو مختلف مظہر ہیں۔ جب ہندوستان اور پاکستان کی حالیہ جنگ میں پاکستان نے چین سے خرید کیے ہوئے جہازوں کے ذریعے ہندوستان کے وہ جہاز مارگرائے جو انھوں نے فرانس سے خرید کیے تھے۔
جنگی سازوسامان کی خرید و فروخت کی بڑی منڈی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی آج کل آسمانوں کو چھو رہی ہے اور اس جنگی ساز و سامان کی جدت میں مصنوعی ذہانت کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان جنگی ہتھیاروں اور سازو سامان کو بیچنے کی بھی حکمتِ عملی ہے۔ جنگی ہتھیار ہر ملک کو نہیں بیچے جاتے، اگرکوئی ریاست بڑی معیشت ہے مگر دفاعی طاقت نہیں تو وہ ریاست دوسروں کی محتاج ہے۔
روس کوئی بڑی معیشت نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کی معدنیات اور خصوصاً تیل و گیس میں خود کفیل ہے۔ نہ ہی دنیا کی سو بڑی کمپنیوں کی فہرست میں روس کی کسی کمپنی کا نام ہے، نہ ہی آئی ٹی کی کمپنیوں میں اور نہ ہی ایروناٹیکل انجینیئرنگ میں یعنی کسی ہوائی جہاز سازی یا فضائیہ کمپنی میں۔
بیس سال قبل تک چین نہ ہی معاشی طاقت تھا اور نہ دفاعی طاقت۔ چین نے اپنی معیشت کو بھی دنیا کی مستحکم معیشت بنایا اور دفاعی طاقت کو بھی۔ یورپین یونین دنیا کی تیسری بڑی معاشی طاقت ہے مگر دفاعی اعتبار سے وہ روس کے برابر نہیں۔ روس کی دفاعی طاقت کو یوکرین نے چیلنج کردیا۔
اس جنگ کے آغاز کو دو سال ہوچکے ہیں لیکن اب تک روس یوکرین پر قبضہ نہیں کر سکا اور نہ ہی یہ جنگ جیت سکا۔ روس آج سے چالیس سال قبل دنیا کی سپر طاقت تھا۔ سوویت یونین کے لبادے میں روسی روح رکھتا تھا، مگر آج بھی وہ اس بات کو تسلیم نہیں کر رہا ہے کہ اس سوویت یونین کی معیشت مارکیٹ اکانومی نہیں تھی۔
روس دفاعی اعتبار سے امریکا کے برابر ضرور تھا مگر معاشی اعتبار سے نہیں۔ معاشی اعتبار سے روس ایسا پسپا ہوا کہ جغرافیائی اعتبار سے بکھرگیا۔ اس کے بکھرنے سے درجنوں ریاستیں ابھریں۔ پورا ایسٹ یورپ جو سوشلسٹ بلاک تھا گرگیا۔
کیوبا سے لے کر ویت نام تک انھوں نے اپنے اتحادیوں کی معاشی اور دفاعی مدد کی اور اسی طرح سینٹرل ایشیاء کے ملک جو ان کا حصہ تھے ان کو بھی نوازا۔ بس وہ معاشی اعتبار سے مضبوط نہ بن سکے۔ ان کی مجموعی پیداوار بڑھی ضرور مگر اخراجات کم نہ ہوئے۔
اس وقت کیپٹل ازم ایک نئی شکل اختیارکرچکا ہے۔کیپٹل ازم، مارکیٹ اکانومی کے اس پوائنٹ پکھڑا ہے جہاں جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔
چین اور امریکا، دنیا میں دو بڑے ملک ہیں جو دنیا میں تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی لا رہے ہیں،کیونکہ وہ ہی دو ملک ہیں جو فضا میں کثیر مقدار میں کاربن چھوڑ رہے ہیں، جس سے فضا میں آلودگی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ دونوں ممالک جتنے بڑے ممالک ہیں، اتنے ہی فضا میں آلودگی کے ذمے دار ہیں۔ اس آلودگی کے اثرات ہوتے ہیں، ہم جیسے ممالک پر جہاں سیلاب آتے ہیں۔
امریکا میںری پبلیکن ہمیشہ جنگی جنون کو ہوا دیتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی عرب ریاستیں معاشی طور پر انتہائی مضبوط طاقتیں ہیں لیکن دفاعی اعتبار سے امریکا نے ہمیشہ ان کو کمزور بنا کر رکھا تاکہ وہ امریکا کے محتاج رہیں۔ پھر امریکا کا حمایتی، اسرائیل جس کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ پر اپنی جارحیت جاری رکھے جس سے تاثر یہ رہے کہ امریکا بہت طاقتور ہے اور عرب ریاستیں، امریکا کے رعب میں رہیں۔
موجودہ جنگیں اپنے عہد کی آخری جنگیں ہیں۔ آنیوالے پچاس سالوں میں بہت کچھ یکساں اور ایک جیسا ہو جائے گا۔ جیسا کہ انگریزی زبان پوری دنیا میں یکساں ہو جائے گی۔ مصنوعی ذہانت انسان کو چست بنا دے گی۔ انسان سے اس کے تمام ہنر چھین کے اپنے تابع کر دے گی۔ اس انقلاب میں بہت سی زبانیں اور ثقافتیں تحلیل ہو جائیں گی۔
آج کی جنگیں معاشی اور تجارتی جنگیں ہیں۔ معدنیات اور معدنی ذخائر پر قبضہ کرنے کی جنگیں ہیں۔ زمینیں اور سرحدیں بے معنی ہو چکی ہیں اور مزید ہونگی۔ آنیوالے پچاس سالوں میں کرنسی اپنی ماہیت تبدیل کردی گی۔
قدیم ادوار میں سونا کرنسی تھا، اشرفیاں اور سکے تھے، پھرکرنسی کاغذ میں جاری کی گئی، پھر پلاسٹک کارڈز اور اب بٹ کوائن اور اب مزید تبدیل ہوگی۔ پہلے دنیا کا سیاسی نظام کالونیوں میں تھا، پھر نو آبادیاتی نظام آیا، سرد جنگ، پھر ایک اور سرد جنگ۔
اب انسان خلاء میں کالونیاں بنائے گا۔ چاند اور مریخ پر آباد ہوگا، کالونی بنائے گا۔اس بدلتی دنیا میں ایک مضبوط ریاست بننے کی ضرورت ہے، مستحکم معیشت اور مضبوط ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔ ریاست اور مذہب کو جدا رکھنے کی ضرورت ہے اور ایسا ہی قائدِ اعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں فرمایا تھا۔
پاکستان یقینا آگے جا سکتا ہے۔ ان بحرانوں میں ہمارا ایٹمی طاقت ہونا ہمیں ہندوستان پر فوقیت دیتا ہے، لیکن کیا ایٹمی طاقت ہونے پر ہماری معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔ ہماری معیشت کو سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ مشرقِ وسطیٰ آخرِکار ہم سے جڑے گا۔ ایک انقلابی تبدیلی پاکستان میں ضرور آئی ہے وہ ہے افغان پالیسی جو کل تک کمپرو مائزڈ تھی مگر آج نہیں ہے۔