الجولانی و نیتن یاہو رژیموں کے درمیان براہ راست مذاکرات
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
کینیڈین خبر رساں ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ قابض اسرائیلی رژیم و باغی شامی حکومت نے باہمی کشیدگی کو کم کرنیکے مقصد سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سمیت متعدد سرحدی مقامات پر آمنے سامنے ملاقاتوں میں گفتگو کے کئی ایک دور منعقد کئے ہیں! اسلام ٹائمز۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا بھر کے مختلف ممالک، حتی قابض اسرائیلی رژیم کے یورپی اتحادی بھی، قابض و سفاک صیہونی رژیم کو بین الاقوامی میدان سے الگ تھلگ کر دینے اور غزہ کی پٹی میں گذشتہ 19 ماہ کے جنگی جرائم و نسل کشی کے ارتکاب کے باعث اس قابض رژیم پر سنگین پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں، "جہاد فی سبیل اللہ" کی داعی الجولانی رژیم "اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لئے براہ راست مذاکرات" میں مصروف ہے! اس بارے 5 باخبر ذرائع سے نقل کرتے ہوئے کینیڈین خبررساں ایجنسی روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ قابض اسرائیلی رژیم اور باغی شامی حکومت براہ راست رابطے میں ہیں اور انہوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران، کشیدگی کو کم کرنے اور سرحدی علاقوں میں جھڑپوں کو روکنے کے لئے متعدد بار دو بدو ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
اس بارے 2 شامی ذرائع، 2 مغربی ذرائع اور 1 علاقائی انٹیلیجنس ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ یہ رابطے پس پردہ بات چیت پر مبنی ہیں جو "شام میں باغیوں کے اقتدار سنبھالنے کے وقت سے" ہی ثالثوں کے ذریعے سے شروع ہو چکی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ ان مذاکرات کی قیادت جبہۃ النصرہ کے ایک سینیئر جنگجو احمد الدالاتی کے ہاتھ میں ہے جسے اسد حکومت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے متصل صوبہ القنیطرہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا جبکہ جاری ہفتے کے شروع میں ہی اسے جنوبی صوبے السویدا میں سکیورٹی کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے جو شامی دروز اقلیت کا گڑھ ہے۔
روئٹرز نے لکھا کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ ان ملاقاتوں میں اسرائیل کی جانب سے کون سا شخص موجود تھا لیکن 2 ذرائع نے یہ بتایا ہے کہ ان مذاکرات میں قابض اسرائیلی رژیم کے اعلی سکیورٹی اہلکار شریک رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دیگر 3 ذرائع کا بھی کہنا ہے کہ سرحدی علاقے میں آمنے سامنے گفتگو کے کئی ایک ادوار منعقد ہوئے ہیں کہ جن میں اسرائیل کے زیر کنٹرول مقبوضہ فلسطینی علاقے بھی شامل ہیں!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قابض اسرائیلی رژیم
پڑھیں:
ترکیہ کی درخواست، پاکستان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند
ذرائع کے مطابق پاکستان نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکام نے بھی مذاکرات کے حوالے سے سفارتی سطح پر رابطے کیے ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات دوبارہ بحال ہورہے ہیں، ترکیہ چاہتا ہے کہ اس کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر افغان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہو گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ استنبول سے پاکستانی وفد مذاکرات میں ناکامی کے بعد آج واپس روانہ ہونے والا تھا مگر میزبانوں کی درخواست پر طالبان سے مذاکرات کے لیے اب استنبول میں مزید قیام کرے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ مذاکراتی عمل کو دوبارہ جاری رکھ کر امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، مذاکرات پاکستان کے اُسی مرکزی مطالبے پر ہوں گے کہ افغانستان دہشت گردوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کرے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکام نے بھی مذاکرات کے حوالے سے سفارتی سطح پر رابطے کیے ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات دوبارہ بحال ہورہے ہیں، ترکیہ چاہتا ہے کہ اس کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور قطر میں افغانستان کے سفیر سہیل شاہین نے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا ایک اور دور ہونا چاہئے، عام طور پر اس طرح کے مذاکرات میں ایک ہی بیٹھک یا ایک ہی دور میں حتمی معاہدے نہیں ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے 4 طویل ادوار ہوئے مگر طالبان کے مؤقف میں تبدیلی رکاوٹ بنی رہی، طالبان وفد کا کابل انتظامیہ سے رابطے کے بعد مؤقف تبدیل ہوجاتا، ایسے لگتا جیسے کابل انتظامیہ کو کہیں اور سے کنٹرول کیا جا رہا ہو۔ ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں طالبان وفد نے پاکستان کے جائز مطالبات کو ثالثوں کے سامنے تسلیم کیا مگر کابل انتظامیہ سے رابطہ ہوتے ہی وہ مؤقف تبدیل کر لیا، ثالثوں نے بھی پاکستان کے مطالبات کو جائز قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے دوحہ میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے اور جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یہ بھی طے پایا تھا کہ استنبول مذاکرات میں دہشت گردی کی روک تھام اور نگرانی کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔