ریاض +مدینہ منورہ (ممتاز احمد بڈانی+ نوائے وقت رپورٹ+جاوید اقبال بٹ) مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ صالح بن حمید نے خطبہ حج  میں کہا  کہ اے اللہ! فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والوں کو برباد کر دے، ان کے قدم اکھیڑ دے۔ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ صالح بن حمید نے خطبہ حج دیا۔  امام شیخ صالح بن حمید کا کہنا تھا کہ تقوی اختیار کرو، اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، تقویٰ اختیار کرنے پر اللہ جنت عطا فرمائے گا۔ انہوں نے کہا نبی کریمؐ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نیکو کاروں، تقویٰ اختیار کرنے والوں کیلئے آخرت میں اچھا انجام ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہ جانو۔ اللہ فخر اور تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ نماز قائم کرو، یہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک بہترین رابطہ اور سب سے زیادہ درمیان کی نماز کی حفاظت کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ شیطان انسان کا دشمن ہے، شیطان سے بچو، شیطان تمہارے اندر دشمنی ڈالنا چاہتا ہے۔ اللہ تمہیں آزماتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں لہٰذا نیکیوں کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ نیک لوگ جنت میں جائیں گے اور ہمیشہ وہیں رہیں گے۔ نیکی اور برائی کبھی برابر نہیں ہو سکتی۔ شیخ صالح بن حمید نے امت مسلمہ کو بدعت اور غیبت سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سے دعا مانگتے رہو، اس کی عبادت کرتے رہو۔ اللہ کی توحید، اس کے رسولوں پر ایمان لانا ایمان کا حصہ ہے۔ قیامت، جہنم، جنت پر ایمان ہونا چاہیے۔ اللہ کی رضا جنت سے بھی بڑی ہے۔ دنیا میں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ لوح محفوظ میں لکھا ہے۔ دین اسلام کے تین درجات ہیں اور سب سے بڑا درجہ احسان ہے۔ والدین سے صلہ رحمی، نرمی اور وعدوں کی تکمیل بھی دین کا حصہ ہے۔ حیا ایمان کی شاخ ہے، ایمان اور حیا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ حج کے دوران اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنا، دعائیں کرنی چاہئیں اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگنی چاہیے۔ اللہ نے فرمایا کہ نیکی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور بری باتوں سے رک جائیں۔ اللہ صبر کرنے والوں کو پورا ثواب عطا کرتا ہے اور ایمان والوں کو سچی باتیں کہنی چاہئیں، جھوٹ سے بچنا چاہیے۔  امام حرم نے امت مسلمہ کیلئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ! مسلمانوں کے احوال اچھے کر دے، ہمارے دل جوڑ دے، ہمارے دلوں میں محبت ڈال دے۔ انہوں نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے خصوصی دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ! فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، ان کے شہداء کو معاف کر دے، زخمیوں کو شفا دے۔ اے اللہ! عرفات سے دعا کی جا رہی ہے، اہل فسلطین کے دشمنوں کو تباہ و برباد کردے، ان میں تفریق ڈال دے۔ اے اللہ! وہ بچوں کے قاتل ہیں، ان میں تفریق ڈال دے۔ اے اللہ! مسلمانوں کو ہدایت عطا فرما۔ اے اللہ فلسطین میں ہمارے  بھائیوں کا خیال رکھ، فلسطینی بھائیوں کی بھوک، مصائب اور تکالیف کا خاتمہ فرما۔ اے اللہ فلسطین کے گھروں کو آسرا دے، انہیں امن عطا کر، دشمنوں کے شر سے نجات دے۔ فلسطین میں ہمارے بھائیوں کو دشمن پر غالب فرما۔ مسلمان حکمرانوں کو بھائی کی توفیق دے، انہیں ہدایت اور تقویٰ عطا فرما۔ اس موقع پر امام حرم نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صحت اور ولی عہد محمد بن سلمان کیلئے آسانی کی دعا فرمائی۔ خطبہ حج کے بعد حجاج کرام نے میدان عرفات میں امام شیخ صالح بن حمید کی امامت میں ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر ادا کیں۔ اذان مغرب کے بعد نماز پڑھے بغیر حجاج کرام میدان عرفات سے مزدلفہ روانہ ہو گئے۔ مزدلفہ میں حجاج کرام نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ملا کر ادا کیں۔ مزدلفہ میں حجاج کرام نے شیطان کو مارنے کیلئے کنکریاں جمع کیں اور پھر حجاج نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے رات گزاری۔ آج  10 ذوالحجہ کو وقوف مزدلفہ کے بعد حجاج رمی کیلئے روانہ ہوں گے۔ حجاج بڑے شیطان کو 7 عدد کنکریاں ماریں گے اور قربانی کریں گے۔ حجاج کرام حلق کرانے کے بعد احرام کھول دیں گے۔ کل 11 ذوالحجہ کو حجاج کرام چھوٹے، درمیانے اور بڑے شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں گے۔ رمی جمرات کے بعد حجاج کرام طواف زیارت کیلئے خانہ کعبہ روانہ ہوں گے۔ طواف زیارت کے بعد حجاج کرام صفا مروہ کی سعی کریں گے۔ 12 ذوالحجہ کو زوال آفتاب کے بعد تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماری جائیں گی۔ 13 ذوالحجہ کو حجاج کرام رمی جمرات کے بعد منیٰ سے اپنی رہائش گاہ روانہ ہو جائیں گے۔ شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید نے خطبہ حج میں قوانین و ضوابط کی پابندی کرنے پر زور دیتے ہوئے اسے نظم وضبط کیلئے انتہائی اہم قرار دیا۔ خطیب حرم نے خطبہ حج میں حجاج اور ملت اسلامیہ سے تقویٰ اختیار کرنے پر زور دیا کہ اسی میں دنیا اور آخرت کی فلاح و بھلائی ہے۔ شیخ صالح بن حمید نے والدین سے حسن سلو ک، مشکلات و پریشانیوں پر صبر اور کثرت سے توبہ و استغفار کرنے پر زور دیا۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: شیخ صالح بن حمید نے کے بعد حجاج ذوالحجہ کو فلسطین کے روانہ ہو اللہ کی اے اللہ

پڑھیں:

بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان

معصوم مرادآبادی

بہار میں چناؤ کا اسٹیج پوری طرح تیار ہے ۔یہاں اصل مقابلہ’این ڈی اے ‘ اور’انڈیا اتحاد’ کے درمیان ہے ۔انڈیا اتحاد’مہا گٹھ بندھن’ کے نام سے چناؤ لڑرہا ہے ، جس میں سات پارٹیاں شامل ہیں۔ اس اتحاد کی ساری امیدیں مسلم رائے دہندگان کے ساتھ ہیں جو ریاست کے 13 کروڑ ووٹروں میں اٹھارہ فیصد کے قریب ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ بہار کا ووٹر دیگر صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ باشعور اور بالغ ہے اور وہ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتا۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے اس الیکشن میں لالو پرشاد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو وزیراعلیٰ کا چہرہ ہیں اور ان کے ساتھ ہی ملاح سماج کے مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے طورپر پیش کیا گیا ہے ۔ یہیں سے دراصل مسلم حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئی ہیں کہ جب دوتین فیصد ووٹوں والے ملاح برادری کے لیڈر کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر اٹھارہ فیصد مسلم رائے دہندگان کی نمائندگی کرنے والے کسی مسلمان کو یہ عہدہ کیوں نہیں مل سکتا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ نائب وزیراعلیٰ سے ہوتی ہوئی مسلم وزیراعلیٰ تک پہنچ گئی ہے ۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بہار میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہریاست میں مسلم وزیراعلیٰ کیوں نہیں ہوسکتا؟ حالانکہ ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 17/فیصد ہے ۔’ بیرسٹر اویسی نے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کے لیے حکمراں این ڈی اے اور اپوزیشن انڈیا اتحاد دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ مجلس اتحاد المسلمین اس بار بہار کی32/اسمبلی نشستوں پر چناؤ لڑرہی ہے ۔ بہار کیگزشتہ چناؤ میں مجلس کوپانچ نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور یہ تلنگانہ کے باہر کسی ریاست میں اس کی سب سے بڑی کامیابی تھی، لیکن درمیان میں مجلس کے چار ممبران اسمبلی نے بغاوت کرکے آرجے ڈی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور اس واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب شاید ہی بیرسٹر اویسی بہار کا رخ کریں گے ، لیکن اب وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ بہار اسمبلی الیکشن لڑرہے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ بیرسٹر اویسی نے گوپال گنج سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہ”بہار میں مسلمان وزیراعلیٰ کیوں نہیں بن سکتا؟ جہاں 17فیصد مسلمان رہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان جماعتوں کو ایک ایسے شخص کو نائب وزیراعلیٰ بنانے میں کوئی دقت نہیں ہے ، جو آبادی کے صرف تین فیصد حصے کی نمائندگی کرتا ہو۔ بیرسٹر اویسی نے اس سلسلہ میں انڈیا اتحاد کی جانب سے نشاد لیڈر مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کی پیشکش کا حوالہ دیا جو وکاس شیل انسان پارٹی کے سربراہ ہیں۔ بیرسٹر اویسی نے یہ بھی کہا کہ کانگریس، آرجے ڈی اور سماجوادی پارٹی جیسی جماعتوں کو مسلمانوں کے ووٹ چاہئیں، وہ بی جے پی سے ڈراکر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی ہیں لیکن یہ بی جے پی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں سے ووٹ مانگتی ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان پارٹیوں کے جھوٹ کو بے نقاب کیا جائے ۔ یہ پارٹیاں ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ نہیں دے سکتیں۔ مسلمانوں کو اپنی قیادت بنانے پر توجہ دینی چاہئے ۔بہار میں کسی مسلمان کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنانا اس وقت انڈیا اتحاد کی مجبوری ہے کیونکہ یہ مسئلہ اب سنگین رخ اختیار کرتا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بہار کانگریس کے انچارج کرشنا الاورو نے یہ اشارہ دیا ہے کہ”مہاگٹھ بندھن کی سرکار میں کانگریس سے دوسرا نائب وزیراعلیٰ مسلمان ہوسکتا ہے ۔ ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہار میں مہا گٹھ بندھن کی طرف سے مسلمانوں کو نظرانداز کئے جانے کی بات گھر گئی ہے اور انڈیا اتحاد اس معاملے میں فکر مند نظر آتا ہے ۔ فکر مندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہار میں پولنگ کے دن سرپر ہیں اور اگر ایسے میں مسلمان تذبذب کا شکار ہوگئے تو اس کا بڑا نقصان مہا گٹھ بندھن کو پہنچ سکتا ہے ۔حالانکہ عام خیال یہی ہے کہ بہار میں مسلم ووٹوں کی اکثریت آرجے ڈی کے حق میں جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ بہار میں کبھی کوئی مسلمان وزیراعلیٰ نہ رہا ہو۔ جن لوگوں کی یادداشت اچھی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ چچا عبدالغفور بہار میں 1973 سے 1975تک کانگریس کے وزیراعلیٰ رہے ۔بہار ہی نہیں آسام میں بھی انورہ تیمور کانگریس کی وزیراعلیٰ ر ہیں۔ اتنا ہی نہیں مہاراشٹر جیسی ریاست جہاں مسلم آبادی دس فیصد سے بھی کم ہے عبدالرحمن انتولے کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا،جو آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے معتمد خاص تھے ، لیکن ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ مسلمان حاشئے پر پہنچادئیے گئے ہیں کشمیر کے علاوہ کسی مسلمان کو کسی اورریاست کا وزیراعلیٰ پروجیکٹ کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ ماضی میں ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت اس درجہ رہی ہے کہ سیکولر اسٹیج پر کسی مسلمان لیڈر کو بٹھانا سیاسی ضرورت سمجھی جاتی تھی، لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے سیکولر پارٹیوں کے لیے بھی مسلمان’اچھوت’ بن گئے ہیں۔یہ پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں، لیکن انھیں حصہ داری نہیں دینا چاہتیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان بی جے پی سے خوفزدہ ہوکر انھیں ووٹ دے گا۔
بہار میں کسی مسلمان کو وزیراعلیٰ بنانے کا مطالبہ نیا نہیں ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام ولاس پاسوان نے سب سے پہلے یہ موضوع اچھالا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیٹے اور لوک جن شکتی پارٹی کے موجودہ صدر چراغ پاسوان نے کہا ہے کہ”میرے والد رام ولاس پاسوان نے کسی مسلمان کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے اپنی پارٹی تک قربان کردی تھی، لیکن مسلمانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ انھوں نے راشٹریہ جنتا دل پر الزام عائد کیا کہ وہ2005میں بھی مسلم وزیراعلیٰ کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لیے 2025کے چناؤ میں بھی ڈپٹی سی ایم کے عہدے کے لیے کسی مسلمان کی حصہ داری یقینی نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان اگر صرف ووٹ بینک بن کررہیں گے تو انھیں عزت اور اقتدار میں حصہ داری نہیں ملے گی۔
راشٹریہ جنتا دل بہار میں مسلم ووٹوں کی سب سے بڑی دعویدار پارٹی ہے اور وہ اس مرحلے میں جبکہ چناؤبالکل سرپر ہیں یہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ انتخابی ماحول میں کوئی بدمزگی پیدا ہو۔آرجے ڈی کے لیے کسی مسلمان کانام نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے پیش کرنے کے خطرات اور بھی ہیں۔ آرجے ڈی میں نئے اور پرانے مسلم لیڈروں کی بھرمار ہے اور یہ سب ذات پات کے حصار میں قید ہیں۔ بہار میں اونچے اور نیچے طبقوں کی تفریق اتنی زیادہ ہے کہ اگر کسی ایک طبقہ کے مسلم لیڈر کانام نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے پیش کیا گیا تو دوسرا طبقہ لازمی طورپر ناراض ہوجائے گا۔اس لیے راشٹریہ جنتا دل یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔بہرحال بہار کے انتخابی میدان میں بی جے پی کو چھوڑ کر تمام ہی سیکولر اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے ۔سبھی کو یہ امید ہے کہ مسلمان اسے ووٹ دیں گے اور سبھی مسلمانوں کی خیرخواہی کے دعویدار بھی ہیں۔6/اور11/ نومبر کو دومرحلوں میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں آرجے ڈی نے اپنے 143/ امیدواروں میں 18/ مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں جبکہ کانگریس کے مسلم امیدواروں کی تعداد دس ہے ۔جنتا دل (یو) کے 101/امیدواروں میں مسلمانوں کی تعداد محض چار ہے ۔ جبکہ چراغ پاسوان کی پارٹی نے اپنے 29 امیدواروں میں صرف ایک مسلمان محمد کلیم الدین کو بہادر گنج سے ٹکٹ دیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے مسلمان کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔2020کے اسمبلی چناؤ میں 24/ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ بہار میں کم وبیش پچاس سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان ہارجیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مسلم اکثریتی حلقے سیمانچل میں واقع ہیں اور سبھی پارٹیاں یہاں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • جمعیت علماء اسلام کے تحت عوامی حقوق کیلئے لانگ مارچ
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • گرائونڈ طیاروں کی بحالی،قائمہ کمیٹی دفاع نے پی آئی اے حکام کو طلب کرلیا
  • قائمہ کمیٹی دفاع کی قومی ایئر لائن حکام کو طلب کرنے کی ہدایت
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • آئمہ کرام کی رجسٹریشن کیلئے کوئی قواعد و ضوابط جاری نہیں کیے، محکمہ داخلہ
  • حکمرانوں کو مانگنے اور کشکول اٹھانے کی عادت پڑ چکی ہے، حافظ تنویر احمد