کیا پنجابی قوم پرست بن سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
حالیہ عرصے میں پہلی بار پنجاب سے تعلق رکھنے والوں میں ’قوم پرستی‘ کا رجحان ابھرتا نظر آرہا ہے۔ اگرچہ یہ بہت معمولی سطح پر ہے مگر اس سے قبل یہ رجحان معمولی سطح پر بھی نہیں تھا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ان افسوسناک واقعات کا ردعمل ہے جو بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بلوچ دہشتگردوں کی جانب سے مختلف عرصوں میں پیش آئے ہیں۔ سو لازم ہے کہ اس پر بروقت بات کرلی جائے۔
ہم بات ذاتی تجربے سے شروع کریں گے۔ ڈھائی برس کے تھے جب والدین کی ہمراہی میں خیبر پختون خوا سے کراچی پہنچے تھے۔ اگلے 22 برس یہیں گزرے۔ شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو ایک تواتر کے ساتھ سننا شروع کیا کہ پنجابی سب کھا گئے، دوسروں کے حصے کا خیال بالکل نہیں رکھتے۔
یہ بات ہم نے پختون، مہاجر اور سندھی سب سے سنی۔ دورانِ مطالعہ قومی تاریخ کے کچھ اہم واقعات بھی اس کی تائید کرتے نظر آئے۔ یوں ہماری بھی یہ رائے بن گئی کہ پنجابی سب کھا گئے۔ ایسے میں نومبر 1994ء میں بالکل غیر متوقع طور پر اسلام آباد منتقل ہوئے تو یہ پریشانی بھی ساتھ لائے کہ روزگار کے معاملےمیں پنجابی سے اپنا حصہ کیسے حاصل کریں گے؟ یہ تو سب خود کھا جاتا ہے۔ مگر کچھ ہی عرصہ بعد ایک پنجابی اللہ وسایا قاسم مرحوم نے پوچھا
’تم باقاعدہ کالم لکھنا کیوں شروع نہیں کر دیتے؟‘
’ہم یہاں نئے ہیں، تگڑے لنکس ابھی بنے نہیں۔‘
’میرے ایک دوست ہیں حامد میر، وہ روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر بن کر یہاں آئے ہیں ان سے بات کرتا ہوں۔‘
ہم کسی کام کے سلسلے میں اچانک کراچی آگئے تھے۔ یہیں اللہ وسایا کا فون آیا کہ حامد میر کہہ رہے ہیں ایک ماہ تک لکھ کر دکھاؤ۔ دیکھنا ہے کہ لکھ بھی سکتے ہو یا نہیں؟ یوں ہم نے پہلا کالم کراچی سے ہی لکھ کر فیکس کردیا۔ اگلے دن اللہ وسایا کی پھر کال آئی:
’میر صاحب کہہ رہے ہیں، وہ لکھ سکتا ہے۔ اس سے کہیے کالم کا عنوان سوچ کر بھیجے، اور باقاعدگی سے لکھنا شروع کردے۔‘
یوں ایک پنجابی نے دوسرے پنجابی سے بات کی اور اس پنجابی نے ہماری صورت تک دیکھے بغیر بطور کالم نگار ہمارا کیریئر شروع کروا دیا۔ سو حیرت کا پہلا جھٹکا ہمیں یہی لگا کہ بھئی کمال ہے۔ پنجابیوں نے تو کسی مطالبے کے بغیر ہی ہمارا ’حصہ‘ بنا دیا۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ ہم اسلام آباد اس خیال کے ساتھ گئے تھے کہ سب کچھ تو پنجابی کھا جاتا ہے لہذا ہمیں جلد ہی واپس لوٹنا پڑے گا مگر ہمارا وہ قیام 25 برس پر محیط ہوگیا۔
دارالحکومت ہونے کے سبب اسلام آباد میں تمام صوبوں کے ہی نہیں بلکہ پنجاب کے تو ہر ضلع کے افراد ہوتے ہیں۔ سو ہم نے لگ بھگ ہر ضلع کا پنجابی اس عرصے میں خوب خوب چکھ رکھا ہے۔ ان 25 برسوں میں ہم سے ڈومیسائل کا پوچھا گیا نہ ہی مذہب و مسلک کا۔ قوم کا پوچھا جاتا تو بتادیتے کہ پختون ہیں، یوں رویوں میں مزید والہانہ پن آجاتا۔ پختون کلچر کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات ہوتے۔ ہم جوابات دیتے تو دلچسپی سے سنتے بھی جاتے اور سراہے بھی جاتے۔
ہمارے حلقہ یاراں میں اب بڑی تعداد میں پنجابی بھی شامل تھے۔ ظاہر ہے دوستوں کے ساتھ آپ کا روٹھنا منانا بھی چلتا ہے۔ سو ان کے ساتھ بھی تعلق ہر رنگ سے گزرا۔ مگر ان کی جس بات کی ہم محشر میں بھی گواہی دے سکتے ہیں، یہ ہے کہ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پنجابی دوست کے نامناسب رویے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ یہ اس لیے روا رکھا گیا کہ ہم پختون ہیں۔ امید ہے آپ کو سمجھ آچکا ہوگا کہ پنجابیوں کی کوئی قوم پرست تنظیم کیوں نہیں؟ اور جب ایک بار نعرہ لگا کہ جاگ پنجابی جاگ ! تو وہ نعرہ فوراً ہی دفن کیوں ہوگیا؟
پنجابیوں کے برخلاف پختونوں میں قوم پرست تنظیمیں بھی ہیں اور قومیت کی گفتگو بھی۔ یہ سندھیوں اور بلوچوں میں بھی ہیں مگر ہم صرف اپنی بات کریں گے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ پختونوں کی گھنٹہ بھر کی بیٹھک ہو اور پختون قومیت کا فخریہ ذکر نہ ہو۔ اس سے بظاہر یہی تاثر ابھرتا ہے کہ یہ قوم مجموعی طور پر شدید قسم کی قوم پرست ہے۔ مگر یہ تاثر غلط ہے۔ پنجابیوں کے مقابلے میں پختونوں کے ہاں اپنی قومیت کا ذکر بکثرت اس لیے ملتا ہے کہ وہ قبائلی معاشرہ ہے۔ ہر قبیلے کی روایات ہی نہیں بلکہ زبان تک میں فاصلے کے تناسب سے فرق ہے۔ مثلاً ہم تورغر کے ہیں۔ کوہاٹ سے آگے زیارت تک کی پشتو سمجھنے کے لیے ہمیں دماغ پر بہت زور ڈالنا پڑتا ہے۔ خدا گواہ ہے بسا اوقات پلے ککھ نہیں پڑا ہوتا مگر سر یوں ہلا رہے ہوتے ہیں جیسے وہ بھی سمجھ چکے ہوں جو ابھی کہا بھی نہیں گیا۔
اسی طرح روایات میں بھی بہت واضح فرق ہے۔ لیکن یہی فرق سوات کے معاملے میں خاصا کم ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا ہم سے فاصلہ کم ہے۔ پھر سب سے اہم یہ کہ فرق محض روایات اور زبان کا ہی نہیں بلکہ علاقے کا بھی ہوتا ہے۔ ہر پختون قبیلے کا اپنا مستقل جغرافیہ بھی ہے۔ یوں ہر قبیلہ نہ صرف اپنی جغرافیائی حدود بلکہ زبان اور روایات پر بہت سختی سے فوکسڈ ہوتا ہے۔اسی لیے پختون اپنے قبیلے اور روایات کا ذکر بکثرت کرتے ہیں۔ اس ذکر سے یہ درحقیقت اپنی حدود ہی مستحکم کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی معیار کو ذہن میں رکھ کر آپ دنیا کے کسی بھی قبائلی معاشرے کا جائزہ لیں تو عین یہی صورتحال ملے گی۔ مثلا عرب تفاخر ہی دیکھ لیجیے۔ قبائلی معاشرہ ہے سو عربیت پر ناز زوروں پر ہے۔
مگر وہ جو سیاسی قسم کی ’قوم پرستی‘ ہوتی ہے جس پر صوبائیت کا رنگ غالب ہوتا ہے، وہ خیبر پختون خوا میں کتنی ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجیے کہ اے این پی پاکستان کی ہم عمر جماعت ہے۔ مگر 75 برس میں یہ صوبائی اقتدار تک صرف ایک بار پہنچ پائی ہے اور وہ بھی اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے۔ خیبر پختون خواپر زیادہ عرصہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے حکومت کی ہے جو بنیادی طور پر سندھ اور پنجاب کی جماعتیں ہیں۔
اے این پی کی جڑیں تو اتنی کمزور ہیں کہ چارسدہ باچاخان فیملی کا گھر ہے۔ اسی چارسدہ کی قومی اسمبلی کی سیٹ پر 1990ء کے انتخابات میں مولانا حسن جان شہید خان عبدالولی خان کو صرف شکست ہی نہیں دے چکے بلکہ ان کے سیاسی کیریئر کی فاتحہ خوانی بھی کرچکے۔ باچا خان کے صاحبزادے غنی خان ایک لیجنڈری پختون شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے کلام کا غالب حصہ مولویوں کے ہی خلاف ہے مگر ان کا قدآور بھائی اپنے آبائی حلقے میں ہی مولوی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگیا۔ ذرا سوچیے، کیا کسی بھٹو کو لاڑکانے میں ہرایا جاسکا ہے؟
خیبرپختون خوا کے حوالے سے ایک اہم سیاسی نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ پختون قبائل پاکستان کی قومی سیاست میں قبائلی بنیاد پر دخل نہیں دیتے۔ یہ نہیں ہوتا کہ الیکشن سے قبل کسی پختون قبیلے کا جرگہ ہو رہا ہو، جس میں یہ فیصلہ ہونا ہو کہ اس قبیلے کے افراد آنے والے انتخابات میں کس پارٹی کو ووٹ دیں گے؟ ایسا قطعاً نہیں ہوتا۔ قومی سیاست کے معاملے ہر پختون شہری قبیلے کے کسی بھی دباؤ میں نہیں ہوتا لیکن جب کوئی جماعت پختون نیشنلزم کا جھنڈا اٹھا کر آتی ہے تو پختون سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی قیادت کس قبیلے اور علاقے کی ہے؟
یوں اگر ولی خان ہوئے تو صرف آبائی اور سسرالی پٹی کے پختون ہی حمایت کریں گے۔ باقی پختونوں کے لیے وہ ان کے قبیلے سے نہیں لہذا نیشنلزم پر حمایت نہیں ملے گی۔یہی حال آپ منظور پشتین کا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وزیرستان سے باہر ناکام ہیں کہ نہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ پختون قومیت کے فیصلے قبیلے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سو غیر محسود اور غیر وزیر قبائل سے تعلق رکھنے والوں کے پاس منظور پشتین کو مسترد کرنے کے لیے اتنی وجہ کافی ہے کہ وہ محسود ہیں۔ باچا خان فیملی کی چار نسلیں نیشنلزم کے ایجنڈے کے ساتھ ناکامی سے دوچار ہوئیں کہ نہیں؟ آپ پختون کے پاس نیشنلزم کا ایجنڈا لے کر جائیں گے تو باچا خان، خان عبدالولی خان، اسفندیار ولی خان اور ایمل ولی خان کی طرح مکمل ناکام ہوں گے۔ کیونکہ نیشنلزم کا لفظ سنتے ہی ہر پختون سب سے پہلے آپ کا قبیلہ پوچھے گا۔ آپ اس کے قبیلے سے نہیں تو دم پخت کھلا کر رخصت کردے گا مگر ساتھ کسی صورت نہیں دے گا۔
پھر وزیرستان والوں کا مسئلہ تو یوں مزید بھی سنگین ہے کہ اسی قوم کے افراد نے اپنے قبیلے کے بڑوں کو قتل کرکے وہاں دہشتگردی کا اڈہ قائم کرلیا تھا۔ اور قوم نے ذرا بھی پروا نہیں کی۔ جب تک وہاں دہشتگرد موجود رہے کوئی پی ٹی ایم بنی نہ ہی پختون حقوق کی بات ہوئی۔ لیکن جب دہشتگرد کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے تو انہیں اچانک اپنے حقوق یاد آگئے۔ جو اپنے قبیلے کے مشران کو نہ بچاسکے بلکہ الٹا ان کے قاتلوں سے سمجھوتہ کرگئے وہ پختون قوم کو حقوق دلاسکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ وزیرستان کو ایک بڑے کیاس کا سامنا ہے۔ قبیلے کے بڑے ہی نہیں بلکہ بااثر علماء کو بھی یہ خود قتل کرچکے۔ ان کے نوجوان کراچی میں سہراب گوٹھ سے لے کر بحریہ ٹاؤن تک کی پٹی میں موٹرسائیکل سواروں کو لوٹ رہے ہیں۔ اور منظور پشتین کو لگتا ہے کہ اس کے کیاس زدہ قبیلے کو باقی قبائل اپنا قائد مان لیں گے۔ قومیت کے نام پر پختون قبائل نے باچاخان کے بڑے قد کاٹھ کو قبول نہیں کیا تو سہراب گوٹھ کا سابق دکاندار کیا بیچتا ہے؟
اس پورے پس منظر کے ساتھ پنجابیوں سے ہماری ہمدردانہ درخواست ہے کہ نیشنلزم والے چورن سے دور رہیے۔ یہ تو اس قبائلی پختون معاشرے میں بھی اپنی مارکیٹ نہ بنا سکا جہاں قبائلی تفاخر باقاعدہ کلچر کا حصہ ہے۔ آپ کی تو یہ سائیکی ہی کے خلاف ہے۔ آپ کی سائیکی یہ ہے کہ آپ اپنے دروازے باہر سے آنے والوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ چنانچہ پنجاب کے ہر بڑے شہر میں پختونوں کی بڑی بڑی مارکیٹس قائم ہیں۔ اور یہ دروازے کھلے رکھنا آپ کی نفسیات میں اس شدت سے شامل ہے کہ آپ نے پچھلی صدیوں میں افغان، ترک اور برطانوی ایمپائر جبکہ حالیہ تاریخ میں امریکیوں کے لیے بھی دروازے کھول دیئے۔
ڈومیسائل چھوڑیے آپ تو اگلے کا غیرملکی ہونا بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ جبکہ قوم پرست تو سب سے پہلے دروازے بند کرتا ہے۔ بلوچ قوم پرستوں نے پنجابیوں کو قتل کرکے اپنے دروازے بند کرنے کی ہی تو کوشش کی ہے۔ آپ کرسکتے ہیں دروازے بند؟ اگر آپ کو لگتا ہے انہوں نے آپ کا نقصان کیا ہے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ قومیں اپنے کلچر اور روایات سے پہچانی جاتی ہیں۔ اب بلوچوں کی اگلی سات نسلوں کو یہ طعنہ سہنا پڑے گا کہ انہوں نے معصوموں نہتے پنجابیوں کا قتل اپنے گھر میں کیا تھا۔ان کی سفید بلوچ پگڑیاں اب ہمیشہ اس خون سے رنگیں رہیں گی۔اور یہ کبھی بھی یہ چھینٹیں نہ مٹا پائیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ہی نہیں بلکہ کہ پختون سکتے ہیں ہوتے ہیں قبیلے کے میں بھی کریں گے کے ساتھ ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
رائے عامہ
جب‘ اس خودنوشت کو پڑھنا شروع کیا۔ تو مصنف‘ رائے ریاض حسین کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے لکھاری ہیں۔ اس کتاب کے ورق پلٹتا گیا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ سادہ لفظوں پر مشتمل ‘ دل پر اثر کرنے والی تحریر۔ اب ایسے گمان ہے کہ برادرم ریاض کو بہت بہتر طریقہ سے جانتا ہوں۔ اپنی زندگی پر متعدد لوگ ‘ لکھتے رہتے ہیں۔ مگر جس ایمانداری اور تہذیب سے مصنف نے لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔
وہ بہت کم لوگ نباہ پاتے ہیں۔ دراصل اپنی آپ بیتی کو انصاف سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جید لکھاری‘ دوران تحریر ڈول جاتے ہیں۔ مگر ریاض حسین نے حد درجہ ایمانداری سے اپنی سرکاری اور خاندانی زندگی کا ذکر کیا ہے۔ یہ نکتہ قابل ستائش ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ رائے ریاض مجھ سے کافی سینئر ہیں اور ان سے دم تحریر ‘ کبھی بھی ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر ان کی اور میری زندگی میں کافی قدریںمشترک ہیں۔ تقریباً ایک ہی علاقے سے تعلق‘ اپنی جنم بھومی سے عشق‘ ملک سے شدید محبت اور طاقت کے ایوانوں میں زندگی صرف کرنی۔ کہتا چلوں کہ سرکاری ملازم کے تجربات ‘ اس قدر متنوع اور منفرد ہوتے ہیں‘ کہ اگر آپ نے سرکار کی نوکری نہیں کی ہوئی۔ تو شاید اس کینوس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
کبھی آپ اقتدار کی غلام گردشوں میں حد درجہ اہم ہوتے ہیں۔ اور کبھی اسی دربار میں معتوب قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے متعدد المیوں میں یہ بھی ہے کہ ایک دور میں آپ کو بہترین افسر قرار دیا جاتا ہے۔ کام کی بھرپور ستائش ہوتی ہے۔ اور جب اس کے بعد‘ کوئی متضاد بادشاہ ‘ تخت نشین ہوتا ہے۔تو آپ کو نکما ‘ نکھٹو اور خزانے پر بوجھ بتایا جاتا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ‘ بہت مشکل ہوتے ہیں‘ اور ہر سرکاری غلام‘ ان میں سے گزرتا ہے۔ بات ’’رائے عامہ‘‘ کی ہو رہی تھی۔ دونشستوں میں اول سے آخری صفحے تک ورق گردانی کرلی۔ اس خوبصورت تحریر سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
برادرم حامد میر لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گیا تو رائے صاحب بھی وہاں آئے ۔ میں نے کانفرنس کی آرگنائزر راجیت کور کو بتایا کہ رائے ریاض حسین دہلی میں چلتا پھرتا پاکستان ہے۔ رائے صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہوا کہ رائے ریاض حسین سرکاری ملازمت سے تو ریٹائر ہو گئے لیکن ان کی پاکستانیت ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئی۔ یہ کتاب ایک سچے انسان کی سچی کہانی ہے۔
مصنف آگے لکھتا ہے۔1993کے آخر میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر لاہور جاتے تھے۔پریس سیکریٹری سید انور محمود کے پاس پرنسپل انفارمیشن آفیسر (PIO) کا چارج بھی تھا۔ اس لیے لاہور وزیراعظم کے ساتھ میں جاتا تھا۔ آخری دنوں میں ایک عجیب کام شروع ہوا کہ کابینہ کے وزرا ء نے ایک ایک کر کے استعفے دینے شروع کر دیے۔
ایک ویک اینڈ پر صبح سویرے جب ہم اسلام آباد سے لاہور وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں روانہ ہونے لگے تو میاں صاحب حسب معمول سب اسٹاف ممبران اور سیکیورٹی کے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے لیے جہاز میں پچھلی طرف آئے۔ جب انھوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میں نے السلام علیکم کے بعد آہستہ سے کہا ’’جی وہ حسین حقانی نے بھی کام دکھا دیا ہے‘‘۔ میاں صاحب پہلے آگے ہوئے لیکن فوراً واپس ہوئے اور مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میںنے کہا کہ اس نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں پریس اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر تھے اور فارن پریس کو دیکھتے تھے۔ میاں صاحب نے جب یہ سنا تو آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ’’… امریکا کا ایجنٹ ہے‘‘۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہاکہ اگر امریکی ایجنٹ ہے تو اتنا عرصہ آپ کے ساتھ کیا کرتا رہا۔ نہ جانے کس مجبوری کے تحت میاں صاحب نے اسے پریس اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا۔
دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دورانیہ میں وہاں کی منظر کشی کمال ہے۔12اکتوبر 1999:دہلی ایئرپورٹ جو کہ لاہورکے بادامی باغ بس اسٹینڈ سے بھی بدتر ہے‘ سے اڑ کر آنے والا مسافر جب لاہور ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور پھر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد آتا ہے تو وہ تقریباً بیہوش ہو جاتا ہے۔
’’بیہوشی‘‘ کے اس سفر کی داستان میں کئی بھارتی دوستوں سے سن چکا ہوں جو پہلی دفعہ پاکستان آتے ہیں اور پھر واپس جا کر پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے قصے سناتے ہوئے ان کے منہ سوکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شیوسینا اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ‘ بی جے پی کے رہنما پر اس تجربے کا خوشگوار اثر پڑا ہو گا مگر صدیوں کے تجرے کے بعد میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دورے سے بھارت کی سوچ بدل جائے گی یا دل بدل (Change of Heart) جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں تین ہزار سال قبل مسیح پہلے پیدا ہونے والا فلسفی‘ جو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا سے منسلک رہا اور چندر گپت موریہ خاندان کی حکومت کو نظریاتی اساس فراہم کی‘ چانکیہ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔
محسن پاکستان ہم شرمندہ ہیں:محسن پاکستان مجھے آپ کا کہوٹہ میں دفتر اس وقت دیکھنے کا موقع ملا جب ایک بہت اہم دوست ملک کی خاص شخصیت وہاں کے دورے پر گئی اور میں سرکاری ڈیوٹی پر تھا تو آپ کے دفتر کے اردگرد چاروں طرف کمرے میں نے خود دیکھے اور سیکیورٹی تو الامان۔ جب آپ پر نیوکلیئر سنٹری فیوجز بیچنے کا الزام لگا تو میں حیران و پریشان تھا کہ اس قسم کی سیکیورٹی میں آپ کس طرح سنٹری فیوجز نہ صرف وہاں سے باہر بلکہ ملک سے باہر بھیج سکتے ہیں یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں جو انسان اکیلا جیب میں ڈال کر باہر لے جائے۔
مجھے آج تک آپ کے دفتر کے سامنے چھوٹے سے میوزیم میں رکھا ہوا پتھر یاد ہے۔ جاسوسی کرنے والا پتھر ایک چرواہے کی مدد سے منظر عام پر آیا۔ اس ’’پتھر‘‘ کے اندر سے نکلے ہوئے آلات کسی عام انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھے مگر آپ نہایت اطمینان اور حد درجہ طمانیت سے مہمانوں کو اس ’’پتھر‘‘ کی داستان سنا رہے تھے ۔ جو آپ کی جاسوسی پر تعینات کیاگیا تھا اور بالآخر وہ بھی ناکام و نامراد ہوا۔
رائے ریاض حسین نواز ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک میں راٹھور صاحب نے سارا دن گزارا تھا انھیں اور ڈرائیور کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی ایک ریسٹورنٹ پر شہباز شریف نے دو برگر خریدے اور وہ دونوں برگرخود ہی کھا لیے ۔
تاج محل آگرہ واقعی دنیا کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ یقین نہیں آتا کہ یہ شاہکار انسان نے تخلیق کیا ہے ۔ مگر آگرہ شہر اتنا گندہ اور غلیظ ہے کہ الامان۔ ہر طرف گائیں ‘ سور اور بندر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
تاج محل تو بس یوں ہے کہ جیسے کسی نے ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج کسی کوڑے کے ڈھیر پر رکھ دیا ہو۔ تاج محل کا نظارہ قلعے کی اس کھڑکی سے بہت دلفریب ہے جہاں سے شاہ جہاں بیٹھ کر نظارہ کیا کرتا تھا۔ دریائے جمنا البتہ سوکھ چکا ہے مگر تاج محل اپنی آب و تاب سے قائم ہے۔ محبت کی ایک یادگار کے طورپر اور ممتاز محل اور شاہ جہاں کی یاد دلاتا ہے۔ بھارت کی سرزمین پر جگہ جگہ مسلمانوں کی مہر ثبت ہے۔ دہلی کے اندر‘ اورنگ زیب روڈ‘ شاہ جہاں روڈ اور اکبر روڈ وغیرہ جگہ جگہ مسلمانوں کی یاد دلاتے ہیں۔
یہ کتاب اتنی پرتاثیر ہے کہ بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے!