WE News:
2025-11-03@09:53:46 GMT

کیا پنجابی قوم پرست بن سکتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

حالیہ عرصے میں پہلی بار پنجاب سے تعلق رکھنے والوں میں ’قوم پرستی‘ کا رجحان ابھرتا نظر آرہا ہے۔ اگرچہ یہ بہت معمولی سطح پر ہے مگر اس سے قبل یہ رجحان معمولی سطح پر بھی نہیں تھا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ان افسوسناک واقعات کا ردعمل ہے جو بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بلوچ دہشتگردوں کی جانب سے مختلف عرصوں میں پیش آئے ہیں۔ سو لازم ہے کہ اس پر بروقت بات کرلی جائے۔

ہم بات ذاتی تجربے سے شروع کریں گے۔ ڈھائی برس کے تھے جب والدین کی ہمراہی میں خیبر پختون خوا سے کراچی پہنچے تھے۔ اگلے 22 برس یہیں گزرے۔ شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو ایک تواتر کے ساتھ سننا شروع کیا کہ پنجابی سب کھا گئے، دوسروں کے حصے کا خیال بالکل نہیں رکھتے۔

یہ بات ہم نے پختون، مہاجر اور سندھی سب سے سنی۔ دورانِ مطالعہ قومی تاریخ کے کچھ اہم واقعات بھی اس کی تائید کرتے نظر آئے۔ یوں ہماری بھی یہ رائے بن گئی کہ پنجابی سب کھا گئے۔ ایسے میں نومبر 1994ء میں بالکل غیر متوقع طور پر اسلام آباد منتقل ہوئے تو یہ پریشانی بھی ساتھ لائے کہ روزگار کے معاملےمیں پنجابی سے اپنا حصہ کیسے حاصل کریں گے؟ یہ تو سب خود کھا جاتا ہے۔ مگر کچھ ہی عرصہ بعد ایک پنجابی اللہ وسایا قاسم مرحوم نے پوچھا

’تم باقاعدہ کالم لکھنا کیوں شروع نہیں کر دیتے؟‘

’ہم یہاں نئے ہیں، تگڑے لنکس ابھی بنے نہیں۔‘

’میرے ایک دوست ہیں حامد میر، وہ روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر بن کر یہاں آئے ہیں ان سے بات کرتا ہوں۔‘

ہم کسی کام کے سلسلے میں اچانک کراچی آگئے تھے۔ یہیں اللہ وسایا کا فون آیا کہ حامد میر کہہ رہے ہیں ایک ماہ تک لکھ کر دکھاؤ۔ دیکھنا ہے کہ لکھ بھی سکتے ہو یا نہیں؟ یوں ہم نے پہلا کالم کراچی سے ہی لکھ کر فیکس کردیا۔ اگلے دن اللہ وسایا کی پھر کال آئی:

’میر صاحب کہہ رہے ہیں، وہ لکھ سکتا ہے۔ اس سے کہیے کالم کا عنوان سوچ کر بھیجے، اور باقاعدگی سے لکھنا شروع کردے۔‘

یوں ایک پنجابی نے دوسرے پنجابی سے بات کی اور اس پنجابی نے ہماری صورت تک دیکھے بغیر بطور کالم نگار ہمارا کیریئر شروع کروا دیا۔ سو حیرت کا پہلا جھٹکا ہمیں یہی لگا کہ بھئی کمال ہے۔ پنجابیوں نے تو کسی مطالبے کے بغیر ہی ہمارا ’حصہ‘ بنا دیا۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ ہم اسلام آباد اس خیال کے ساتھ گئے تھے کہ سب کچھ تو پنجابی کھا جاتا ہے لہذا ہمیں جلد ہی واپس لوٹنا پڑے گا مگر ہمارا وہ قیام 25 برس پر محیط ہوگیا۔

دارالحکومت ہونے کے سبب اسلام آباد میں تمام صوبوں کے ہی نہیں بلکہ پنجاب کے تو ہر ضلع کے افراد ہوتے ہیں۔ سو ہم نے لگ بھگ ہر ضلع کا پنجابی اس عرصے میں خوب خوب چکھ رکھا ہے۔ ان 25 برسوں میں ہم سے ڈومیسائل کا پوچھا گیا نہ ہی مذہب و مسلک کا۔ قوم کا پوچھا جاتا تو بتادیتے کہ پختون ہیں، یوں رویوں میں مزید والہانہ پن آجاتا۔ پختون کلچر کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات ہوتے۔ ہم جوابات دیتے تو دلچسپی سے سنتے بھی جاتے اور سراہے بھی جاتے۔

ہمارے حلقہ یاراں میں اب بڑی تعداد میں پنجابی بھی شامل تھے۔ ظاہر ہے دوستوں کے ساتھ آپ کا روٹھنا منانا بھی چلتا ہے۔ سو ان کے ساتھ بھی تعلق ہر رنگ سے گزرا۔ مگر ان کی جس بات کی ہم محشر میں بھی گواہی دے سکتے ہیں، یہ ہے کہ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پنجابی دوست کے نامناسب رویے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ یہ اس لیے روا رکھا گیا کہ ہم پختون ہیں۔ امید ہے آپ کو سمجھ آچکا ہوگا کہ پنجابیوں کی کوئی قوم پرست تنظیم کیوں نہیں؟ اور جب ایک بار نعرہ لگا کہ جاگ پنجابی جاگ ! تو وہ نعرہ فوراً ہی دفن کیوں ہوگیا؟

پنجابیوں کے برخلاف پختونوں میں قوم پرست تنظیمیں بھی ہیں اور قومیت کی گفتگو بھی۔ یہ سندھیوں اور بلوچوں میں بھی ہیں مگر ہم صرف اپنی بات کریں گے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ پختونوں کی گھنٹہ بھر کی بیٹھک ہو اور پختون قومیت کا فخریہ ذکر نہ ہو۔ اس سے بظاہر یہی تاثر ابھرتا ہے کہ یہ قوم مجموعی طور پر شدید قسم کی قوم پرست ہے۔ مگر یہ تاثر غلط ہے۔ پنجابیوں کے مقابلے میں پختونوں کے ہاں اپنی قومیت کا ذکر بکثرت اس لیے ملتا ہے کہ وہ قبائلی معاشرہ ہے۔ ہر قبیلے کی روایات ہی نہیں بلکہ زبان تک میں فاصلے کے تناسب سے فرق ہے۔ مثلاً ہم تورغر کے ہیں۔ کوہاٹ سے آگے زیارت تک کی پشتو سمجھنے کے لیے ہمیں دماغ پر بہت زور ڈالنا پڑتا ہے۔ خدا گواہ ہے بسا اوقات پلے ککھ نہیں پڑا ہوتا مگر سر یوں ہلا رہے ہوتے ہیں جیسے وہ بھی سمجھ چکے ہوں جو ابھی کہا بھی نہیں گیا۔

اسی طرح روایات میں بھی بہت واضح فرق ہے۔ لیکن یہی فرق سوات کے معاملے میں خاصا کم ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا ہم سے فاصلہ کم ہے۔ پھر سب سے اہم یہ کہ فرق محض روایات اور زبان کا ہی نہیں بلکہ علاقے کا بھی ہوتا ہے۔ ہر پختون قبیلے کا اپنا مستقل جغرافیہ بھی ہے۔ یوں ہر قبیلہ نہ صرف اپنی جغرافیائی حدود بلکہ زبان اور روایات پر بہت سختی سے فوکسڈ ہوتا ہے۔اسی لیے پختون اپنے قبیلے اور روایات کا ذکر بکثرت کرتے ہیں۔ اس ذکر سے یہ درحقیقت اپنی حدود ہی مستحکم کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی معیار کو ذہن میں رکھ کر آپ دنیا کے کسی بھی قبائلی معاشرے کا جائزہ لیں تو عین یہی صورتحال ملے گی۔ مثلا عرب تفاخر ہی دیکھ لیجیے۔ قبائلی معاشرہ ہے سو عربیت پر ناز زوروں پر ہے۔

مگر وہ جو سیاسی قسم کی ’قوم پرستی‘ ہوتی ہے جس پر صوبائیت کا رنگ غالب ہوتا ہے، وہ خیبر پختون خوا میں کتنی ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجیے کہ اے این پی پاکستان کی ہم عمر جماعت ہے۔ مگر 75 برس میں یہ صوبائی اقتدار تک صرف ایک بار پہنچ پائی ہے اور وہ بھی اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے۔ خیبر پختون خواپر زیادہ عرصہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے حکومت کی ہے جو بنیادی طور پر سندھ اور پنجاب کی جماعتیں ہیں۔

اے این پی کی جڑیں تو اتنی کمزور ہیں کہ چارسدہ باچاخان فیملی کا گھر ہے۔ اسی چارسدہ کی قومی اسمبلی کی سیٹ پر 1990ء کے انتخابات میں مولانا حسن جان شہید خان عبدالولی خان کو صرف شکست ہی نہیں دے چکے بلکہ ان کے سیاسی کیریئر کی فاتحہ خوانی بھی کرچکے۔ باچا خان کے صاحبزادے غنی خان ایک لیجنڈری پختون شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے کلام کا غالب حصہ مولویوں کے ہی خلاف ہے مگر ان کا قدآور بھائی اپنے آبائی حلقے میں ہی مولوی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگیا۔ ذرا سوچیے، کیا کسی بھٹو کو لاڑکانے میں ہرایا جاسکا ہے؟

خیبرپختون خوا کے حوالے سے ایک اہم سیاسی نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ پختون قبائل پاکستان کی قومی سیاست میں قبائلی بنیاد پر دخل نہیں دیتے۔ یہ نہیں ہوتا کہ الیکشن سے قبل کسی پختون قبیلے کا جرگہ ہو رہا ہو، جس میں یہ فیصلہ ہونا ہو کہ اس قبیلے کے افراد آنے والے انتخابات میں کس پارٹی کو ووٹ دیں گے؟ ایسا قطعاً نہیں ہوتا۔ قومی سیاست کے معاملے ہر پختون شہری قبیلے کے کسی بھی دباؤ میں نہیں ہوتا لیکن جب کوئی جماعت پختون نیشنلزم کا جھنڈا اٹھا کر آتی ہے تو پختون سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی قیادت کس قبیلے اور علاقے کی ہے؟

یوں اگر ولی خان ہوئے تو صرف آبائی اور سسرالی پٹی کے پختون ہی حمایت کریں گے۔ باقی پختونوں کے لیے وہ ان کے قبیلے سے نہیں لہذا نیشنلزم پر حمایت نہیں ملے گی۔یہی حال آپ منظور پشتین کا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وزیرستان سے باہر ناکام ہیں کہ نہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ پختون قومیت کے فیصلے قبیلے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سو غیر محسود اور غیر وزیر قبائل سے تعلق رکھنے والوں کے پاس منظور پشتین کو مسترد کرنے کے لیے اتنی وجہ کافی ہے کہ وہ محسود ہیں۔ باچا خان فیملی کی چار نسلیں نیشنلزم کے ایجنڈے کے ساتھ ناکامی سے دوچار ہوئیں کہ نہیں؟ آپ پختون کے پاس نیشنلزم کا ایجنڈا لے کر جائیں گے تو باچا خان، خان عبدالولی خان، اسفندیار ولی خان اور ایمل ولی خان کی طرح مکمل ناکام ہوں گے۔ کیونکہ نیشنلزم کا لفظ سنتے ہی ہر پختون سب سے پہلے آپ کا قبیلہ پوچھے گا۔ آپ اس کے قبیلے سے نہیں تو دم پخت کھلا کر رخصت کردے گا مگر ساتھ کسی صورت نہیں دے گا۔

پھر وزیرستان والوں کا مسئلہ تو یوں مزید بھی سنگین ہے کہ اسی قوم کے افراد نے اپنے قبیلے کے بڑوں کو قتل کرکے وہاں دہشتگردی کا اڈہ قائم کرلیا تھا۔ اور قوم نے ذرا بھی پروا نہیں کی۔ جب تک وہاں دہشتگرد موجود رہے کوئی پی ٹی ایم بنی نہ ہی پختون حقوق کی بات ہوئی۔ لیکن جب دہشتگرد کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے تو انہیں اچانک اپنے حقوق یاد آگئے۔ جو اپنے قبیلے کے مشران کو نہ بچاسکے بلکہ الٹا ان کے قاتلوں سے سمجھوتہ کرگئے وہ پختون قوم کو حقوق دلاسکتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ وزیرستان کو ایک بڑے کیاس کا سامنا ہے۔ قبیلے کے بڑے ہی نہیں بلکہ بااثر علماء کو بھی یہ خود قتل کرچکے۔ ان کے نوجوان کراچی میں سہراب گوٹھ سے لے کر بحریہ ٹاؤن تک کی پٹی میں موٹرسائیکل سواروں کو لوٹ رہے ہیں۔ اور منظور پشتین کو لگتا ہے کہ اس کے کیاس زدہ قبیلے کو باقی قبائل اپنا قائد مان لیں گے۔ قومیت کے نام پر پختون قبائل نے باچاخان کے بڑے قد کاٹھ کو قبول نہیں کیا تو سہراب گوٹھ کا سابق دکاندار کیا بیچتا ہے؟

اس پورے پس منظر کے ساتھ پنجابیوں سے ہماری ہمدردانہ درخواست ہے کہ نیشنلزم والے چورن سے دور رہیے۔ یہ تو اس قبائلی پختون معاشرے میں بھی اپنی مارکیٹ نہ بنا سکا جہاں قبائلی تفاخر باقاعدہ کلچر کا حصہ ہے۔ آپ کی تو یہ سائیکی ہی کے خلاف ہے۔ آپ کی سائیکی یہ ہے کہ آپ اپنے دروازے باہر سے آنے والوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ چنانچہ پنجاب کے ہر بڑے شہر میں پختونوں کی بڑی بڑی مارکیٹس قائم ہیں۔ اور یہ دروازے کھلے رکھنا آپ کی نفسیات میں اس شدت سے شامل ہے کہ آپ نے پچھلی صدیوں میں افغان، ترک اور برطانوی ایمپائر جبکہ حالیہ تاریخ میں امریکیوں کے لیے بھی دروازے کھول دیئے۔

ڈومیسائل چھوڑیے آپ تو اگلے کا غیرملکی ہونا بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ جبکہ قوم پرست تو سب سے پہلے دروازے بند کرتا ہے۔ بلوچ قوم پرستوں نے پنجابیوں کو قتل کرکے اپنے دروازے بند کرنے کی ہی تو کوشش کی ہے۔ آپ کرسکتے ہیں دروازے بند؟ اگر آپ کو لگتا ہے انہوں نے آپ کا نقصان کیا ہے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ قومیں اپنے کلچر اور روایات سے پہچانی جاتی ہیں۔ اب بلوچوں کی اگلی سات نسلوں کو یہ طعنہ سہنا پڑے گا کہ انہوں نے معصوموں نہتے پنجابیوں کا قتل اپنے گھر میں کیا تھا۔ان کی سفید بلوچ پگڑیاں اب ہمیشہ اس خون سے رنگیں رہیں گی۔اور یہ کبھی بھی یہ چھینٹیں نہ مٹا پائیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ہی نہیں بلکہ کہ پختون سکتے ہیں ہوتے ہیں قبیلے کے میں بھی کریں گے کے ساتھ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • پنجاب بھر میں دفعہ 144 کے نفاذ میں توسیع، احتجاج اور اجتماعات پر پابندی برقرار
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • کینیا: خشک سالی سے نمٹنے کے لیے گائے کی جگہ اونٹ پالنے کا رجحان
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • غزہ میں 20 ہزار ناکارہ بم موجود ہیں
  • تجدید وتجدّْد