عالمی بینک کی پالیسیوں میں تبدیلی، جوہری توانائی کی فنانسنگ پر عائد پابندی ختم
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جون2025ء) عالمی بینک نے پالیسیوں میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے جوہری توانائی کی فنانسنگ پر عائد طویل المدتی پابندی ختم کر دی۔عالمی بینک کے صدر اجے بانگا کے مطابق یہ فیصلہ ترقی پذیر ممالک میں بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے اور ترقیاتی اہداف کے حصول کیلئے ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بینک کے صدر نے گزشتہ روز عملے کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا کہ بورڈ کے ساتھ تعمیراتی گفتگو کے بعد نئی توانائی پالیسی کی منظوری دی گئی ہے، تاہم اپ اسٹریم قدرتی گیس کے منصوبوں کی فنڈنگ پر بورڈ میں تاحال مکمل اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہا کہ عالمی بینک اب اقوامِ متحدہ کی جوہری نگران ایجنسی آئی اے ای اے کے ساتھ قریبی تعاون کرے گا تاکہ جوہری عدم پھیلاؤ کی نگرانی اور مؤثر ریگولیٹری نظام کی تشکیل میں مدد دی جا سکے۔(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ ترقی پذیر ممالک میں بجلی کی طلب 2035 تک دوگنی سے زیادہ ہو جائے گی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ہر سال توانائی پیداوار، گرڈز اور سٹوریج پر سرمایہ کاری کو موجودہ 280 ارب ڈالر سے بڑھا کر تقریباً 630 ارب ڈالر کرنا ہوگا۔عالمی بینک کے صدر کا کہنا تھا کہ ہم ان ممالک میں موجودہ جوہری ری ایکٹرز کی مدت بڑھانے کی کوششوں میں مدد کریں گے اور بجلی کے گرڈز اور متعلقہ انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے تعاون کریں گے۔واضح رہے کہ عالمی بینک جو ترقی پذیر ممالک کو کم شرح سود پر قرض فراہم کرتا ہے، نے 2013 میں جوہری توانائی منصوبوں کی فنڈنگ بند کر دی تھی، جبکہ 2017 میں اس نے 2019 سے اپ اسٹریم تیل و گیس منصوبوں میں سرمایہ کاری بند کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم غریب ترین ممالک میں بعض گیس منصوبے اب بھی زیر غور رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق جوہری توانائی پر بورڈ میں اتفاق رائے نسبتاً آسانی سے ہوا تاہم جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اپ اسٹریم گیس منصوبوں پر محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری توانائی عالمی بینک ممالک میں
پڑھیں:
برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کردیں
فلسطینی عوام پر اسرائیل کی درندگی اور نسلی نسل کشی کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ردعمل بڑھتا جا رہا ہے، برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔
برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے قابض اسرائیلی حکومت کے دو انتہاپسند وزرا پر پابندیاں عائد کی ہیں، جو فلسطینیوں کے خلاف نفرت، تشدد اور جبر کو کھلے عام ہوا دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنین کیمپ میں غیر ملکی وفد پر اسرائیلی فائرنگ، بین الاقوامی برادری کی شدید مذمت
یہ پابندیاں قابض اسرائیل کے وزیر برائے ’قومی سکیورٹی‘ ایتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بیتسلئیل سموٹریچ پر لگائی گئی ہیں، جن کا شمار انتہائی دائیں بازو کے نسل پرست عناصر میں ہوتا ہے۔
برطانوی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں وزیروں نے مسلسل فلسطینیوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آئیں۔
دونوں اسرائیلی وزرا پر سفری پابندیاں اور اثاثے منجمد کرنے کے فیصلے پر برطانیہ کے ساتھ کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے بھی مشترکہ طور پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں کو بھوکا مارنے پر فرانس کی اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے دیگر 4 ممالک کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ’ ایتمار بن گویر اور بیتسلئیل سموٹریچ نے فلسطینی عوام کے خلاف انتہاپسندوں کو تشدد پر اکسایا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ رویہ ناقابل قبول ہے اور اسی بنا پر ہم نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان جیسے افراد کو جوابدہ بنایا جاسکے۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان ممالک کا مقصد غزہ میں فوری جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد کی فراہمی اور مستقبل میں دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرنا ہے۔
یہ کارروائی برطانوی حکومت کی جانب سے گزشتہ ماہ اسرائیل کے ساتھ آزادانہ تجارت کے مذاکرات معطل کرنے اور جنگ کے انعقاد پر اپنے سفیر کو طلب کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے فلسطینیوں کو ریلیف ایجنسی سے بھی محروم کردیا، یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی
اس نے متعدد ممتاز آباد کاروں کے ساتھ ساتھ دو غیر قانونی چوکیوں اور فلسطینی کمیونٹیز کے خلاف تشدد کی پشت پناہی کرنے والی دو تنظیموں پر مالی پابندیوں اور سفری پابندیوں کا بھی اعلان کیا۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے گزشہ ماہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات بھی معطل کردیے تھے، اور غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی پر اسرائیلی سفیر کو طلب بھی کیا تھا۔
برطانیہ نے غزہ میں فلسطینی کمیونٹیز کے خلاف تشدد کی پشت پناہی کرنے والی 2 صیہونی تنظیموں پر مالی اور سفری پابندیوں کا بھی اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے ان پابندیوں کو ’شرمناک قدم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ ہفتے کابینہ کا خصوصی اجلاس بلا کر ان پابندیوں کے خلاف ردعمل پر غور کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: دُنیا کے 52 ممالک کا اقوام متحدہ سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ
اسرائیلی وزیر خزانہ بیتسلئیل سموٹریچ نے جو حال ہی میں مقبوضہ الخلیل میں ایک نئی غیرقانونی صہیونی بستی کا افتتاح کر رہے تھے ان پابندیوں پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’برطانیہ نے ماضی میں بھی ہمیں اپنے وطن میں بسنے سے روکنے کی کوشش کی تھی، لیکن ہم اس سازش کو اب کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم تعمیر و توسیع جاری رکھیں گے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آسٹریلیا اسرائیل برطانیہ پابندیاں فلسطین کینیڈا نیوزی لینڈ