خواجہ آصف نے پارلیمانی عہدیداروں کی تنخواہوں اور مالی مراعات میں اضافے کو مالی فحاشی قراردے دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جون ۔2025 )وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمانی عہدیداروں کی تنخواہوں اور مالی مراعات میں نمایاں اضافے کے فیصلے پر تنقید کی جا رہی ہے خود حکومتی صفوں سے بھی اعتراضات سامنے آئے ہیں وزیر دفاع اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر اس اقدام کو مالی فحاشی قرار دیا .
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں اور مالی مراعات میں بے تحاشہ اضافہ مالی فحاشی کے زمرے میں آتا ہے عام آدمی کی زندگی کو ذہن میں رکھیں ہماری تمام عزت آبرو اسکی مرہون منت ہے گزشتہ روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اراکین پارلیمنٹ کی ماہانہ تنخواہوں میں اچانک اضافے کا دفاع کیا انہوں نے کہا کہ اگر ہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بات کرتے ہیں، تو وزراءکی تنخواہوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے. انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی تنخواہیں 2 لاکھ 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 21 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ہیں تو وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ وزرا، وزرائے مملکت اور اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں آخری بار کب اضافہ کیا گیا تھا. انہوں نے وضاحت کی کہ کابینہ وزراءکی تنخواہیں آخری بار 2016 میں بڑھائی گئی تھیں اور اگر ہر سال باقاعدگی سے اضافہ کیا جاتا تو حالیہ اضافہ اتنا بڑا محسوس نہ ہوتا حکومت نے بجٹ تقریر میں وفاقی ملازمین (گریڈ 1 سے گریڈ 22) کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشنرز کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کا بھی اعلان کیا ہے تاہم مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں کم از کم اجرت کو 37ہزار روپے ماہانہ پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے حالانکہ اس میں اضافے کے لیے عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے مطالبات موجود تھے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تنخواہوں میں کی تنخواہوں انہوں نے
پڑھیں:
آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟
جنوبی ایشیا میں بلند ترین شرح نموپاکستانی وزارتِ صحت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آبادی کی شرح نمو دو اعشاریہ چار فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر ایک خاتون اوسطاً تین سے زائد بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ صرف ایک چوتھائی خواتین ہی مانع حمل طریقوں سے فائدہ اٹھا پا رہی ہیں، جبکہ 17 فیصد خواتین ایسی بھی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس سہولت سے محروم ہیں۔
آبادی کو کنٹرول کرنے کا نظام مکمل ناکامیہ تشویش ماضی کی طرح اب صرف ماہرین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اعتراف سرکاری طور پر بھی سامنے آ رہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک میں بے قابو حد تک آبادی کا بڑھنا قومی ترقی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے موجودہ فرسودہ نظام اور کمزور منصوبہ بندی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے لیے بہت زیادہ آبادی کا بوجھ کس حد تک قابل برداشت؟
عالمی یوم آبادی: پاکستان میں شرح آبادی’بڑا خطرہ‘
پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر کہتے ہیں کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ محض اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ریاست کے تمام نظاموں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں: ''اس کے منفی اثرات براہِ راست صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی اور خاص طور پر خواتین اور بچیوں کی زندگیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔
‘‘ آبادی بے قابو، اہداف بے اثرڈاکٹر صوفیہ یونس، ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن وِنگ، کے مطابق وزارتِ صحت کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے 2025ء کے اہداف پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک قومی سطح کا کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ سال 2030ء تک آبادی میں اضافے کی شرح کو 1.1 فیصد تک محدود کرنا ایک مشکل ہدف ہو سکتا ہے۔
اسی طرح عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب صحت کا نظام پہلے ہی دباؤ کا شکار ہو اور صنفی پالیسی سازی کے لیے ٹھوس اور تازہ اعداد و شمار موجود نہ ہوں، تو ان اہداف تک پہنچنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔
سیاسی ایجنڈے سے غائبسابق چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافے کا مسئلہ کبھی بھی حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور نہ ہی اپنے منشور میں شامل کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، وسائل منتشر ہیں اور کوئی حکومت عملی اقدامات نہیں کر رہی۔ نیلوفر بختیار نے احتساب کے فقدان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، مگر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی: ''خواتین اور بچوں کو روزانہ مشکلات اور اموات کا سامنا ہوتا ہے، لیکن نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی فرد ذمہ داری قبول کرتا ہے، سب کچھ صرف نوٹس لینے تک محدود ہے جبکہ عملی اقدامات کا شدید فقدان ہے۔‘‘ صورتحال انتہائی تشویشناکپاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی صورتحال تشویشناک ہے، جہاں ہر سال لاکھوں خواتین مجبوری میں اسقاط حمل کراتی ہیں، جبکہ مانع حمل سہولیات کی بھی صرف 65 فیصد طلب ہی پوری ہو رہی ہے۔ ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر امِ حبیبہ کے مطابق، خاندانی منصوبہ بندی کے ناقص انتظامات اور خواتین کا محدود سماجی کردار پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بلند شرح کے اہم اسباب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سہولیات کی کمی، مذہبی پابندیاں، اور اسقاط حمل سے متعلق منفی معاشرتی رویے خواتین کو غیر محفوظ طریقے اپنانے پر مجبور کرتے ہیں، جو ان کی صحت اور زندگی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف فنڈز تک محدودڈاکٹر رابعہ اسلم، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ جینڈر اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی کے مطابق، پاکستان میں پالیسی سازوں کے لیے آبادی کے مسئلے کی نشاندہی پہلے ہی کی جا چکی ہے، لیکن یہ معاملہ تاحال صرف علامتی بیانات تک محدود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ آگاہی کا نہیں بلکہ سیاسی عزم کی کمی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ زبانی دعووں سے ہٹ کر خواتین کی صحت، تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے کو خاندانی منصوبہ بندی کا محور بنا کر مؤثر اصلاحات کی جائیں۔نیلوفر بختیار نے آبادی کے مسئلے پر ملکی اداروں کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بعض تنظیمیں اسے صرف عالمی فنڈز کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاپولیشن کونسل کی مثال دی، جس کی برسوں سے موجودگی کے باوجود کوئی مؤثر کارکردگی سامنے نہیں آئی۔