اسرائیلی حملوں کے بعد ایرانی عوام کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کچھ ہوسکتا ہے؟ تہران یونیورسٹی کے پروفیسر کا بیان آگیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
تہران (نیوز ڈیسک) ایران کی تہران یونیورسٹی کے پروفیسر فؤاد ایزدی نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں نے ایران میں “جھنڈے کے گرد اتحاد” کی فضا پیدا کر دی ہے اور اب جنگ ایک ناگزیر حقیقت بن چکی ہے۔
قطری خبررساںادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ایزدی کا کہنا تھا کہ ایرانی عوام کی رائے واضح ہے کہ “اب ایران کو جواب دینا ہے، اور سخت جواب دینا ہے۔” ان کے مطابق “ایران جنگ نہیں چاہتا تھا، لیکن دوسرے فریق نے ایران کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں چھوڑا۔ اب جواب ایسا ہونا چاہیے کہ آئندہ ایسی حرکت دوبارہ نہ کی جا سکے۔”
انہوں نے کہا “یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے، لیکن ہمیں ایک اور جنگ ہوتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔”
ایزدی کے مطابق ایران میں ان حملوں کو “امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائی” سمجھا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے خطے میں موجود امریکی اڈوں کو بھی ممکنہ فوجی ہدف تصور کیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا “ایران کبھی بھی امریکا سے فوجی تصادم نہیں چاہتا تھا، لیکن اگر ایران امریکی اڈوں کو نشانہ بناتا ہے، تو اس کے پاس اس کے لیے مکمل طور پر جائز دلائل موجود ہیں۔”
مزیدپڑھیں:حکومت بلوچستان کا کوئٹہ شہر کے اندر پیپلز ٹرین چلانے کا فیصلہ
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات، قطر سے مکمل یکجہتی کا اعادہ
فوٹو بشکریہ سوشل میڈیاوزیر اعظم شہباز شریف نے دوحہ میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کی۔ ملاقات ہنگامی عرب اسلامک سمٹ کے موقع پر ہوئی۔
اس موقع پر ملاقات میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، فیلڈ مارشل عاصم منیر، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ بھی موجود تھے۔
ملاقات میں وزیر اعظم نے اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے قطر سے مکمل یکجہتی کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا۔
وزیراعظم کی دوحہ میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات ہوئی ہے
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران سے تعلقات مزید بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ سمٹ نے اسرائیل کو واضح اور متحد پیغام دیا ہے۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے پاکستان کے فلسطین پر مؤقف کو سراہا۔
وزیر اعظم نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللّٰہ خامنہ ای کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
ملاقات میں پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی رابطہ جاری رکھنے پر بھی اتفاق ہوا۔