پی ای سی اے بل اور ہمارا آئینی امتحان
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سال کے آغاز میں، 29 جنوری کو صدرِ پاکستان نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (PECA) میں ترمیم پر دستخط کیے۔ حکومت نے اسے جعلی خبروں، ریاست مخالف بیانیے اور ڈیجیٹل انتشار سے نمٹنے کے لیے ضروری قدم قرار دیا، مگر اس بل کی منظوری کے طریقہ کار، اس کے غیر واضح الفاظ، اور بے پناہ اختیارات نے ایک بنیادی سوال کو جنم دیا: کیا ہم جمہوریت میں جی رہے ہیں یا محض ریاستی کنٹرولڈ براڈکاسٹ کے سبسکرائبر بن چکے ہیں؟
اس قانون کا پس منظر چند خوفناک سوشل میڈیا سانحات سے جڑا ہے: مشہور انفلوئنسر ثنا یوسف کا پْراسرار قتل، ٹک ٹاک اسٹارز پر بڑھتے تشدد، اور حافظ آباد میں اجتماعی زیادتی کا دل دہلا دینے والا واقعہ۔ ان جذباتی لمحوں نے سوشل میڈیا کو غصے اور بے بسی سے بھر دیا، اور ریاست نے ان ہی جذبات کی آڑ میں ایک ایسا بل منظور کر لیا جو ڈیجیٹل اظہار کی نئی تعریف طے کرتا ہے۔ اور اگرچہ یہ بل کئی مہینے پہلے منظور ہو چکا ہے، اس کے اثرات آج بھی ہماری ڈیجیٹل فضا پر گہرے سائے کی مانند چھائے ہوئے ہیں۔
آئین پاکستان قانون سازی کا واضح جمہوری طریقہ بتاتا ہے: پارلیمانی بحث، عوامی مشاورت، کمیٹی کی جانچ پڑتال، اور سینیٹ کی منظوری۔ مگر پی ای سی اے میں ان تمام مراحل کو نظرانداز کرتے ہوئے، بل کو چند منٹوں میں منظور کر لیا گیا۔ صحافیوں کو نظر انداز کیا گیا، کوئی عوامی مشاورت نہ ہوئی اور ہر قدم پر خاموشی کو ترجیح دی گئی۔ یہ عمل کسی جمہوری ریاست سے زیادہ ایک آمرانہ ’’ڈیجیٹل ڈرامے‘‘ کی قسط معلوم ہوتا ہے۔
اس قانون کے تحت ریاستی اداروں پر تنقید، مبینہ غلط معلومات، یا طنزیہ پوسٹس پر تین سال قید، جرمانہ، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش کی سزا ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی، ’’سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی‘‘ اور سائبر کرائم ٹربیونلز جیسے ادارے تجویز کیے جا رہے ہیں جنہیں وسیع اختیارات دیے جائیں گے مگر عدالتی نگرانی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ حکومت کے نزدیک یہ قانون نظم و ضبط کے لیے ہے، لیکن وکلا، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان اسے ’’خوف کی زبان‘‘ میں لپٹا ہوا ’’خاموشی کا قانون‘‘ سمجھتے ہیں۔
اصل خطرہ یہی ہے کہ اگر ہم اس طرح کے قوانین کو جذباتی ہنگاموں کی بنیاد پر معمول بنا لیں، تو کل کو یہی جواز آزادیِ اظہار، لباس، عقیدے یا سوچ پر پابندی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر عوام کو ان کی آزادیوں میں تبدیلی کے وقت شریک نہ کیا جائے، تو جمہوریت صرف ایک رسمی اصطلاح بن کر رہ جائے گی۔ پی ای سی اے بل صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ عوامی یادداشت اور آئینی حوصلے کا امتحان ہے۔ یہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ ہم اس خاموش تجاوز پر خاموش رہیں گے یا سوال، تنقید اور اظہارِ رائے کا حق واپس لیں گے؟ کیونکہ اگلی قسط تیار ہو رہی ہے۔ کیا ہم بولیں گے، یا خاموشی ہی ہماری آئندہ شناخت بنے گی؟
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا
پڑھیں:
سوشل میڈیا اسٹار احمد شاہ کے چھوٹے بھائی کے اچانک انتقال کی وجہ سامنے آگئی
’’پیچھے تو دیکھو‘‘ ڈائیلاگ سے مشہور ہونے والے ننھے سوشل میڈیا اسٹار احمد شاہ کے چھوٹے بھائی عمر شاہ کے اچانک انتقال کی وجہ سامنے آگئی۔
احمد شاہ نے پیر کی صبح اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر یہ غم ناک خبر شیئر کی تھی کہ ان کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔
پوسٹ میں لکھا گیا ’’ہمارے خاندان کا ننھا چمکتا ستارہ عمر شاہ خالقِ حقیقی سے جا ملا۔‘‘ ساتھ ہی مداحوں سے ان کی مغفرت اور اہلِ خانہ کے لیے صبر کی دعا کی درخواست بھی کی گئی۔
عمر شاہ اپنی معصوم مسکراہٹ اور شرارتی طبیعت کے باعث مداحوں میں بے حد مقبول تھے۔ وہ اکثر اپنے بڑے بھائی احمد شاہ کے ساتھ ویڈیوز اور ٹی وی پروگرامز میں دکھائی دیتے تھے، خصوصاً رمضان ٹرانسمیشن کے دوران ان کی موجودگی ناظرین کو بہت پسند آتی تھی۔
عمر کے اہلخانہ نے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک تھے لیکن رات کو اچانک طبیعت خراب ہوئی اور انہیں قے آئی۔ قے کے باعث کوئی چیز سانس کی نالی میں چلی گئی جس کے بعد انہیں سول اسپتال لے جایا گیا لیکن بدقسمتی سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔