کراچی پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی کے میئر کے انتخابات میں حافظ نعیم الرحمن کے 9 لاکھ ووٹ پیپلز پارٹی کے 3 لاکھ ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ حافظ نعیم الرحمن کے 192 ووٹ پیپلز پارٹی کے 173 ووٹوں کے سامنے پسپا ہوگئے۔ یہ ظلم اور جبر کی انتہا ہے۔ یہ صرف پیپلز پارٹی کی فسطائیت نہیں ہے یہ اسٹیبلشمنٹ کی فسطائیت بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی سیاسی قیادت نہیں کررہی۔ ملک کے تمام فیصلے اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے۔
کراچی کی تاریخ میں کراچی پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں ان میں جرنیلوں کا مرکزی کردار ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی مرکز تھا۔ کراچی ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ تھا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز تھا۔ کراچی میں ملک کا واحد بین الاقوامی ہوائی اڈہ تھا۔ کراچی شہر قائد تھا۔ چناں چہ قائداعظم نے کراچی کو ملک کا دارالحکومت ہونے کا اعزاز بخشا۔ مگر جنرل ایوب نے کراچی کی پوری تاریخ پر تھوک دیا۔ انہوں نے اسلام آباد کو ملک کا دارالحکومت بنادیا۔ اسلام آباد نہ ملک کا صنعتی مرکز تھا، نہ اس کی کوئی تجارتی حیثیت تھی، اسلام آباد کا کوئی تاریخی پس منظر تک نہ تھا۔ اسلام آباد کو جنرل ایوب عدم سے وجود میں لائے تھے۔ یہ کراچی کے ساتھ ظلم تھا۔ جنرل ایوب نے کراچی کے ساتھ دوسرا ظلم محترمہ فاطمہ جناح کی تذلیل کے ذریعے کیا، مادرِ ملت کا مرکز کراچی تھا۔ مادرِ ملت نے جنرل ایوب کی فسطائیت کو چیلنج کیا تو جنرل ایوب نے ملک کے بڑے بڑے اخبارات میں نصف صفحے کے اشتہارات شائع کرائے۔ ان اشتہارات میں مادر ملت کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ یہ اچھا ہی ہوا قائداعظم 1948ء میں انتقال کرگئے۔ ورنہ قائداعظم بھی جنرل ایوب کو چیلنج کرتے تو جنرل ایوب انہیں بھی بھارتی ایجنٹ قرار دے دیتے۔ جنرل ایوب کی فوجی حکومت نے کراچی کے ساتھ تیسرا بڑا ظلم یہ کیا کہ چونکہ کراچی نے صدارتی انتخاب میں مادر ملت کو فتح یاب کرایا تھا اسی لیے جنرل ایوب نے کراچی میں پہلا مہاجر پٹھان فساد کرا دیا جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو وہ پہلے دن سے کراچی دشمن پارٹی ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جس کے لسانی بل نے سندھ میں سندھی مہاجر کی تفریق پیدا کی۔ جس نے سندھی زبان کو قومی زبان اردو کے مقابل لاکھڑا کیا۔ یہ سراسر ایک شیطانی کھیل تھا۔ پاکستان کی تخلیق کی دو ہی بنیادیں ہیں۔ ایک اسلام اور دوسری اردو۔ اسلام نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا اردو نہ ہوتی تو بھی پاکستان نہ ہوتا۔ مگر پیپلز پارٹی کی اندھی لسانیت پرستی نے سندھی کو اردو کے مقابل لاکھڑا کیا۔ حالاں کہ اردو اور سندھی میں تصادم کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی۔ پیپلز پارٹی نے دوسرا بڑا ظلم پورے شہری سندھ بالخصوص کراچی پر ہی کیا کہ اس نے صوبے پر کوٹا سسٹم مسلط کردیا۔ ابتدا میں اسی کوٹا سسٹم کا جواز تھا۔ سندھی نوجوانوں میں تعلیم کم تھی اور وہ تعلیم یافتہ مہاجر نوجوانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ انہیں دس پندرہ سال تک کوٹا سسٹم کا حصار مہیا کرنا ضروری تھا مگر اس سسٹم کو عارضی ہونا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے کوٹا سسٹم کو تقریباً دائمی بنا دیا ہے۔ یہ شہری سندھ بالخصوص کراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ ظلم ہے۔ بدقسمتی سے دوسری سیاسی طاقتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کے سلسلے میں بھی پیپلز پارٹی کی تاریخ شرمناک ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ ملک کی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے جنرل یحییٰ کے ساتھ مل کر سازباز کی اور پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار مساوات نے بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے حوالے سے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگادیا۔ بھٹو نے صاف کہا کہ اگر مغربی پاکستان کے کسی منتخب نمائندے نے شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے طلب کیے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بھٹو نے 1977ء کے انتخابات سے بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا اور انہوں نے درجنوں حلقوں میں دھاندلی کروا کر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب قرار دلا دیا۔ چناں چہ اس کے ردعمل میں پی این اے وجود میں آئی اور اس نے بھٹو کی فسطائیت کو چیلنج کیا۔ بھٹو پر دبائو بڑھا تو بھٹو نے پی این اے کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ ہمیں جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر پروفیسر غفور احمد نے خود بتایا کہ بھٹو نے 30 سے زیادہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں دھاندلی تسلیم کرکے دوبارہ انتخابات کرانے پر آمادگی ظاہر کردی تھی مگر جنرل ضیا الحق درمیان میں کود پڑے اور بھٹو کی دھاندلی اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی پی این اے کی تحریک بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک لے گئی۔
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ جنرل ضیا الحق نے سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی میں جماعت اسلامی کو کمزور کرنے کے لیے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنا کر کھڑا کردیا۔ مہاجر مذہب پرست تھے، الطاف حسین نے انہیں سیکولر بنانے کی سازش کی، مہاجر معاشرے کا مہذب ترین طبقہ تھے، الطاف حسین نے ان کے ہاتھ میں ہتھیار پکڑا دیے، مہاجر میرٹ پرست تھے الطاف حسین نے مہاجر نوجوانوں کو نقل کی لت ڈالی۔ مہاجر تعلیم یافتہ تھے الطاف حسین نے انہیں بھتا خور بنایا۔ مہاجر پاکستان بنانے والے تھے الطاف حسین نے انہیں پاکستان سے بدظن کیا۔ کراچی میں کوئی مہاجر پٹھان کشمکش موجود نہ تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کو مہاجر رہنما بنانے کے لیے کراچی کے ایک علاقے میں مہاجر کش حملہ کرایا۔ مبینہ طور پر پٹھانوں کے ایک گروہ نے ایک مہاجر بستی میں گھس کر چھے گھنٹے تک قتل عام کیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے چھے گھنٹے تک علاقے میں داخل ہی نہ ہوسکے۔ کراچی میں سندھی مہاجر کشمکش بھی موجود نہ تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے یہ کشمکش بھی پیدا کی۔ کراچی کے ایک بڑے اخبار میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ سندھ نیشنل الائنس کا ایک جلوس کراچی کے علاقے صدر سے گزر رہا تھا کہ ایک مہاجر خاتون کی کار جلوس میں پھنس گئی۔ مہاجر خاتون کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ خبر میں بتایا گیا کہ سندھ نیشنل الائنس جلوس کے شرکا نے مہاجر عورت اور اس کے بچے کو مار ڈالا۔ سندھی اخبارات میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ کراچی کے ایک بڑے سرکاری اسپتال میں 9 سندھی خواتین کی لاشیں لائی گئی ہیں۔ ان لاشوں کو مسخ کیا گیا تھا۔ صحافیوں نے ان دونوں واقعات کی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ یہ دونوں واقعات سرے سے ہوئے ہی نہیں۔
کراچی کے ساتھ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کراچی ملک کو اس کی آمدنی کا 70 فی صد کما کر دیتا ہے مگر وفاق کراچی کو 70 روپے میں 5 روپے بھی دینے کے لیے تیار نہیں۔ سندھ صوبے کی حیثیت سے اگر سال میں سو روپے کماتا ہے تو کراچی اسے 95 روپے کما کر دیتا ہے مگر سندھ کراچی پر 10 روپے خرچ کرنے کا بھی روادار نہیں۔ چناں چہ مسائل کے انبار میں دبا ہوا ہے۔ کراچی کو یومیہ 1200 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے مگر کراچی کو یومیہ صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم ہورہا ہے۔ چناں چہ آدھا کراچی پانی جیسی بنیادی سہولت کو ترس رہا ہے اور شہر پر ٹینکر مافیا راج کررہی ہے۔ کراچی میں یومیہ 11 سو ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس کا چالیس فی صد ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔ چناں چہ کراچی ایک بڑی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ کراچی کی بیش تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور موٹر ایبل نہیں ہیں۔ کراچی میں نکاسی آب کا نظام پچاس سال پرانا ہے اور شہر میں جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں زمین دوز ریلوے کا نظام موجود ہے کراچی ایسے نظام سے محروم ہے۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں بڑی بسوں کے بیڑے موجود ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کی آبادی تک پوری نہیں گنی جاتی۔ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زیادہ ہے اور گزشتہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ظاہر کی گئی ہے۔ حال ہی میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ گنی گئی ہے۔ اس طرح کراچی کی ایک سے ڈیڑھ کروڑ آبادی پھر شمار ہونے سے رہ گئی ہے۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر کراچی کی ’’سیاسی ضرورت‘‘ نہیں ’’وجودی ضرورت‘‘ ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی نے کراچی کو ’’کلین اور گرین‘‘ بنادیا تھا۔ انہوں نے شہر میں قلت آب کے مسئلے پر بھی بڑی حد تک قابو پالیا تھا۔ میئر افغانی کے طویل دور میں ایک پیسے کی کرپشن بھی رپورٹ نہیں ہوسکی تھی۔ نعمت اللہ خان نے جب کراچی کی میئر شپ سنبھالی تو بلدیہ کراچی کا بجٹ صرف 7 ارب روپے تھا۔ نعمت صاحب نے کوئی ٹیکس لگائے بغیر اس بجٹ کو 42 ارب تک پہنچادیا۔ نعمت صاحب نے چار سال میں ایک درجن سے زیادہ کالج قائم کیے۔ امراض قلب کے ادارے بنائے۔ شہر کو 40 سے زیادہ پارکوں کا تحفہ دیا۔ کراچی کے لیے پانی کے منصوبے کے تھری کو مکمل کیا۔ نئے منصوبے کے فور کی بنیاد رکھی۔ نعمت صاحب نے 42 ارب روپے کا بجٹ دیا مگر ان پر ایک پیسے کی کرپشن کا الزام نہ لگ سکا۔ پیپلز پارٹی کراچی کو کچھ دے سکتی تو پچاس سال میں دے چکی ہوتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی نے حافظ نعیم کا راستہ روک کر کراچی کے گلے پر پائوں رکھ دیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: الطاف حسین نے ان کراچی کی ا بادی پیپلز پارٹی کے کراچی کے ساتھ جماعت اسلامی جنرل ایوب نے اسلام ا باد کی فسطائیت کراچی میں کوٹا سسٹم کراچی ملک کہ کراچی سے زیادہ انہوں نے کراچی پر نے کراچی کراچی کو بھٹو نے چناں چہ کے لیے ملک کا کے ایک
پڑھیں:
سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کب تک، پی پی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ فارمولا کیا ہے؟
بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزیراعلیٰ کی مدت کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے بیانیے میں تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے جو آگے چل کر اختلافات کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان حکومت کا شفافیت کے فروغ اور بجٹ میں 14 ارب روپے کی بچت کا دعویٰ
ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی علی مدد جتک نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں گے اور اتحادی جماعتوں سمیت سب ان کے ساتھ ہیں جبکہ دوسری جانب صوبائی وزیر نور محمد دمڑ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت وزیراعلیٰ کا منصب ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے تقسیم کیا گیا ہے۔
علی مدد جتک نے کہا کہ ’میں یقین سے کہتا ہوں کہ پورے 5 سال وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی ہی رہیں گے اور پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دیگر اتحادی سب اس پر متفق ہیں‘۔
ان کے بقول پیپلز پارٹی اپنی پوری قوت کے ساتھ وزیراعلیٰ کے پیچھے کھڑی ہے اور اس حوالے سے کسی بھی طرح کا ابہام پیدا کرنے کی کوشش محض افواہیں ہیں۔
تاہم صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ڈھائی، ڈھائی سالہ اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ پہلے ہی طے پا چکا ہے اور یہ محض سیاسی وعدہ نہیں بلکہ ایک دستاویزی شکل میں موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ فیصلہ ہماری پارٹی قیادت نے کیا ہے اور وقت آنے پر ن لگ کا وزیراعلیٰ سامنے آئے گا‘۔
مزید پڑھیے: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟
بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ہمیشہ سے سیاسی معاہدوں اور پاور شیئرنگ فارمولوں پر چلتی آئی ہیں۔ سب سے نمایاں مثال سنہ 2013 کی ہے جب ن لیگ اور نیشنل پارٹی نے ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے وزیراعلیٰ کا عہدہ بانٹنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس فارمولے کے تحت پہلے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جنہوں نے اپنی نصف مدت پوری کی۔ اس کے بعد معاہدے کے مطابق وزارتِ اعلیٰ ن لیگ کے نواب ثناء اللہ زہری کو منتقل کی گئی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا لیویز فورس میں اصلاحات کا اعلان، پرانے نوٹیفکیشنز منسوخ
اس سے قبل بلوچستان میں حکومت سازی کے دوران بھی یہ سننے میں آیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈھائی ڈھائی سالہ پاور شئیرنگ کا معاملہ پا گیا ہے جس پر اس وقت گورنر بلوچستان اور مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے ڈھائی ڈھائی سال کا معاہدہ ہے جس پر پی پی پی کے سینیئر رہنما میر عبد القدوس بزنجو نے ایسے کسی بھی معاہدے کی تردید کی تھی۔
اگرچہ اس پاور شیئرنگ ماڈل کے نتیجے میں حکومت نے آئینی مدت تو مکمل کی لیکن درمیان میں سیاسی کشیدگی بھی سامنے آئی خصوصاً جب نواب ثناء اللہ زہری کو اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی تحریک عدم اعتماد کے دباؤ پر مستعفی ہونا پڑا۔ اس مثال نے یہ واضح کیا کہ بلوچستان میں پاور شیئرنگ فارمولے وقتی استحکام تو فراہم کرتے ہیں لیکن طویل المدت سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں دے پاتے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے منصب پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں لیکن اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا موجودہ حکومت بھی سنہ 2013 والے ’پاور شیئرنگ ماڈل‘ پر چل رہی ہے یا نہیں۔ اگر واقعی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تحریری معاہدہ موجود ہے تو مستقبل قریب میں اقتدار کی منتقلی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر علی مدد جتک کا دعویٰ درست ہے اور پیپلز پارٹی اپنی مدت پوری کرنے پر اصرار کرتی ہے تو یہ اتحادیوں کے درمیان تناؤ کو جنم دے سکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر حکومتیں مرکز صوبہ کشیدگی یا اتحادی اختلافات کے باعث اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں پاور شیئرنگ فارمولوں نے سیاسی استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا بینک آف بلوچستان کے قیام کا اعلان
اس پس منظر میں دیکھیں تو نور محمد دمڑ کا بیان زیادہ حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے لیکن فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کر پاتے ہیں یا ڈھائی سال بعد اقتدار ن لیگ کو منتقل ہو جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان مخلوط حکومت وزیراعلیٰ بلوچستان کی مدت