Express News:
2025-08-06@13:03:46 GMT

جنگیں تو ہوں گی!

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

لگ بھگ سات آٹھ سال پرانی بات ہے، امریکی ریاست جارجیا جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک قریبی عزیز کی وساطت سے جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی پولیٹیکل سائنس کے چند پروفیسرز سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان ملاقاتوں اور مشاہدات سے اس امر کا اندازہ ہوا کہ امریکا کی ٹاپ یونیورسٹیز اپنے اپنے شعبے میں کس طرح دنیا بھر کے موضوعات پر ریسرچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعدازاں منظم انداز میں ان نتائج کو مقالات، کتابوں اور کانفرنسز کی شکل میں دوسروں سے شیئر کرتے ہیں۔

اسی دوران ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ تقابل ادیان اور تاریخ کے پروفیسر تھے۔ ان کا تعلق بھارت کی ریاست بہار سے تھا۔ پی ایچ ڈی کرنے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا آئے اور پھر یہیں بس گئے۔ ان سے ملاقات اور مختلف موضوعات پر گفتگو انتہائی دلچسپ اور چشم کشا تھی۔

درخواست کی کہ ایک تفصیلی نشست اور ہو جائے، انھوں نے کمال مہربانی سے اسی شام یونیورسٹی بلڈنگ کے نیچے ایک معروف کافی شاپ کا وقت طے کر دیا۔

طے شدہ وقت پر ہم وہاں پہنچے تو کافی شاپ کا منظر قابل دید تھا۔ ماحول انتہائی آسودہ اور خوشگوار، کافی شاپس کلچر کے مطابق چھت سے لٹکی ہوئی روشنیاں مختلف انداز اور شیڈ سے ماحول کو پرفسوں بنا رہی تھیں۔ دیواروں پر مختلف طرح کے امیجز اور میورلز کئی داستانیں سنا رہے تھے۔

لگ بھگ شام چھ بجے کا وقت تھا، کافی شاپ میں بارونق اور تقریباً ہر میز پر یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کو کتابوں، گفتگو یا لیپ ٹاپس پر مصروف پایا۔ یونیورسٹی بلڈنگ کے نیچے واقع ہونے کے سبب ہمارے سوا تقریباً باقی سب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس ہی لگے۔ اس ماحول میں اپنے آپ کو پا کر ایک خوشگوار تازگی کا احساس ہوا جو عموماً لگے بندھے ماحول/ روٹین سے نکلنے پر ہوتا ہے۔

گفتگو ہلکے پھلکے موضوعات سے ہوتی ہوئی گمبھیر عالمی مسائل اور اقوام عالم کے تضادات کی طرف چلی گئی۔ سوال کیا کہ میڈیا اور اکیڈیمیا سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم اور سردجنگ کے خاتمے کے بعد تاریخ کی تیزترین صنعتی اور پوسٹ انڈسٹریل ترقی، گلوبلائزیشن، سمٹتے فاصلوں اور بڑھتے رابطوں کے سبب شاید ایک محفوظ دنیا تشکیل پا رہی ہے تاہم ایک کے بعد ایک، دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں تنازعات یا روایتی دشمنیاں جنگ یا تشدد کی صورت میں ہی نمٹانے کا روایتی چلن جاری ہے۔ آپ کے خیال میں دنیا میں امن کا مستقبل کیا دکھائی دیتا ہے؟

سوال سن کر وہ گہری سوچ میں پڑ گئے۔ چند ثانیے سوچنے کے بعد نظر اٹھائی، سامنے دیوار پر لٹکے ہوئے دنیا کے نقشے پر نظر ڈالتے ہوئے بولے کہ دنیا ایک تیسری جنگ عظیم کے لیے تڑپ رہی ہے یعنی:World is craving for 3rd world war!
اس قدر خوفناک اور بے باک اسٹیٹمنٹ سن کر ہم چونک گئے۔ وضاحت مانگی تو گفتگو کا سلسلہ پچھلی کئی دہائیوں کے تاریخی معاملات، مسائل اور جنگوں کی طرف مڑ گیا۔ اختلاف کے باوجود ان کی رائے میں وزن سے انکار نہ تھا۔ وہ اپنے مطالعے، تجربے اور مشاہدے پر استوار تاریخی شعور کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ انسان نے گزشتہ کئی صدیوں کی مارا ماری، جنگ وجدل اور خون آشامیوں کے باوجود بالعموم اپنی جبلت کو نہیں چھوڑا۔

صنعتی ترقی نے بے شمار سماجی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ مجموعی طور پر بہت سی قوموں نے تاریخ سے سبق سیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 60 /70 سالوں میں مجموعی طور پر دنیا میں جنگ عظیم جیسی صورت پیدا نہیں ہوئی، اسی لیے بہت سے خطوں میں امن رہا ہے۔ ان ممالک کی عوام نے Peace dividend یعنی امن کے ثمرات سماجی اور معاشی ترقی کی صورت میں حاصل کیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں معاشی وسماجی ترقی اور عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن کے سبب سیاسیات اور تنازعات سے نمٹنے کا انداز عمومی طور پر بیسویں صدی کے آغاز جیسا نہیں رہا۔

تاہم گلوبلائزیشن اور صنعتی ترقی کے عمل میں بہت سی قوموں کی ترتیب اوپر نیچے ہوئی ہے۔ گزشتہ چار پانچ سو سالوں کے فاتحین یا کولونیل پاورز میں سے کئی ایک کمزور ہو چکیں۔ امریکا واحد سپر پاور کے طور پہ ابھرا اور نہ صرف عسکری بلکہ ٹیکنالوجی، تجارت اور عالمی سیاست میں اپنا سکہ چلایا، دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ورلڈ آرڈر بنایا اور اب تک اسے دھڑلے سے چلایا تاہم سردجنگ کے خاتمے کے بعد کی یونی پولر دنیا دھیرے دھیرے اب کثیر القطبی دنیا بنتی جا رہی ہے۔

روس نے حیرت انگیز طور پر اپنی معاشی، سیاسی اور عسکری قوت کو دوبارہ سے بنوایا ہے۔ چین ایک نئی سپرپاور کے طور پر نمودار ہوا ہے۔ چین دنیا کا سب سے بڑا آبادی والا ملک تو تھا ہی، چین کا پھیلاؤ بھی ایک وسیع خطے پر ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور مغربی طاقتوں نے جو سلوک روس کی شکستگی کے دوران اور بعد میں اس سے کیا، چین نے اسے انتہائی غور سے دیکھا، سمجھا اور سبق سیکھا۔

یہی وجہ ہے کہ چین نے گزشتہ چار دہائیوں سے اپنی تمام تر توجہ ٹیکنالوجی، ٹریڈ، تعلیم اور سماجی ترقی پر مرکوز رکھی ہے تاہم مجموعی طور پر چین نے اپنے آپ کو کسی بھی جنگ میں الجھنے سے تائیوان اور ساؤتھ چائنا سمندر کے تنازعات کے باوجود اب تک بچائے رکھا ہے۔

معروف امریکی پروفیسر ٹموتھی شنائیڈر کے بقول 20ویں صدی کے شروع میں جنم لینے والے فاشزم کے ظہور میں ایک اہم عنصر یہ بھی رہا کہ بیسویں صدی کے شروع میں گلوبلائزیشن کے نتیجے میں معاملات ان کی منشاء کے مطابق شکل اختیار نہ کر سکے۔

پروفیسر شنائیڈر نے امریکا میں جمہوریت کو درپیش خطرات کے پیش نظر 20ویں صدی سے 20 سبق پر مشتمل ایک مختصر کتاب بھی لکھی۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ جمہوریت کو ارسطو کے زمانے سے لے کر زمانہ حال تک مہم جوئوں کا سامنا رہا ہے۔ بیانئے کی بنیاد پر عوام کو بھڑکا کر اپنی سیاست چمکانے والوں کی کل کوئی کمی تھی نہ آج کوئی دقت ہے۔

سات آٹھ سال قبل ہوئی اس ملاقات کے بعد دنیا کو ہر نئے سال نئے نئے تنازعات میں الجھتے دیکھ رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں روس یوکرائن جنگ، اسرائیل غزہ جنگ، سوڈان، ایتھوپیا اور میانمار کی خانہ جنگیاں، کانگو اور افریقہ میں جنگیں، لیبیا، یمن، شام… پاکستان بھارت کی پانچ روزہ جنگ… اور اب اسرائیل ایران جنگ۔ تمام دنیا کی نظریں اسرائیل ایران جنگ میں امریکا کے کردار اور اگلے قدم پر ہیں۔

طاقت کا نشہ اندھا اور تاریخ سے سبق سیکھنے سے انکاری ہوتا ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے قبرستانوں میں بے شمار طاقت ور محو ہو گئے لیکن جب تک انسان اپنی جبلت پر قائم ہے، جنگیں تو ہوں گی!
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بعد

پڑھیں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ 26 نومبر کو اموات ہوئی تھیں

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اگست 2025ء) ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ 26 نومبر کو اموات ہوئی تھیں۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ناصر حسین شاہ کی جانب سے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ 26 نومبر کو اموات ہوئی تھیں ایک شخص کی موت بھی افسوسناک ہوتی ہے، جتنی بھی اموات ہوئی وہ افسوسناک تھیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان مقبول ہیں لیکن یہ تحریک نہیں چلا پائیں گے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ کے صدر جنید اکبر نے کہا ہے کہ کل 5 اگست کو احتجاجی ریلیاں نکالیں گے، کارکنان یقینی بنائیں کہ کوئی شرپسند صفوں میں شامل نہ ہوسکے، جنید اکبر نے الزام عائد کیا کہ 9 مئی کو بھی ریاستی اداروں اور ریاست نے ہماری صفوں میں شرپسند شامل کئے اور الزام پی ٹی آئی پر لگا دیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ 5 اگست 2025 کو عمران خان کی ناحق قید کے دو سال پورے ہونے کو ہیں، عمران خان کی ہدایت پر بانی پی ٹی آئی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے احتجاجی ریلیاں نکالیں گے اور احتجاج کریں گے، پارٹی کی جانب سے جو ہدایت دی گئی ہیں ان پر کارکنان سختی سے عمل کریں ۔

ہم پرامن لوگ ہیں ہم ہر قانونی راستہ اختیار کریں گے۔ پارٹی کارکنان اس کو یقینی بنائیں کہ ہماری صفوں میں کوئی شرپسند شامل نہ ہوسکیں، تاکہ وہ ہمارے پرامن احتجاج کو پرتشدد نہ بناسکیں۔ آپ کو پتا ہوگا کہ 9 مئی کو بھی ریاستی اداروں اور ریاست نے اپنے شرپسندوں کو ہماری صفوں میں شامل کیا اور اس کا الزام پی ٹی آئی پر لگا دیا گیا۔ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔

اس لیئے یقینی بنائیں کہ کل والا احتجاج پرامن ہو، کل کا احتجاج ہماری تحریک کا پہلا مرحلہ ہے ، اس احتجاج میں آئندہ شدت بھی لائیں گے۔ کل دنیا کو دکھائیں گے کہ لوگ آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، ریاست اور ریاستی اداروں کے ہتھکنڈوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ہم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پارٹی قیادت کی ہدایت ہے کہ کارکنان اڈیالہ جیل کے سامنے احتجاج کریں ۔

دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے 5 اگست کے احتجاج سے قبل لاہور میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے سینکڑوں کارکن گرفتار کرلیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے اعلان کردہ 5 اگست کے احتجاج سے قبل پولیس نے لاہور میں بھرپور کارروائی کرتے ہوئے 200 سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ان افراد کو شہر کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا جن میں سے کچھ کو ضمانتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا لیکن اب پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس حوالے سے پولیس کی جانب سے ڈور ناکنگ کی کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • گلوکارہ آئمہ بیگ نے خاموشی سے نکاح کر لیا، تقریب کینیڈا میں منعقد ہوئی
  • کیا گلوکارہ آئمہ بیگ نے شادی کر لی؟
  • یوم آزادی معرکۂ حق؛ ہم سے پاکستان، ہم سب کا پیارا پاکستان 
  • اسلام آباد اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں بارش
  • پاک چین اکنامک کوریڈور خطے کی ترقی کا منصوبہ ہے: احسن اقبال
  • اس میں کوئی شک نہیں کہ 26 نومبر کو اموات ہوئی تھیں
  • کوہستان کے برف پوش پہاڑوں سے حیرت انگیز خبر، 28 سال بعد برف سے لاش برآمد
  • پی ٹی آئی فتنہ کی نئی کال دے رہی ہے، ملک ترقی کرے تو انہیں تکلیف ہوتی ہے: عظمیٰ بخاری
  • آرٹیفشل انٹیلی جنس میں ترقی،دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
  • شاہراہ ریشم تک پہنچنے کا راستہ