سندھ ہائی کورٹ: ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ سندھ کیخلاف نیب انکوائری کالعدم
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
سندھ ہائی کورٹ—فائل فوٹو
سندھ ہائی کورٹ نے پیرول رہائی پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ سندھ اقبال میمن کے خلاف نیب انکوائری کالعدم قرار دے دی۔
عدالتِ عالیہ نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ سندھ کے خلاف نیب انکوائری کالعدم قرار دینے کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا۔
حکم میں عدالت نے کہا ہے کہ نیب نے اقبال میمن کو پیرول پر زیرِ حراست قیدی کی رہائی کے معاملے پر انکوائری نوٹس بھیجا، وزیرِ اعلیٰ ملزم کو 48 گھنٹے سے زائد پیرول پر رہائی کی اجازت دے سکتے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ملزم کی پیرول پر رہائی کے لیے تمام قانونی تقاضوں کو پورا کیا گیا، زیرِ حراست ملزم کی پیرول پر رہائی عدالتی نہیں انتظامی اقدام ہے۔
عدالتِ عالیہ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ نیب پراسیکیوٹر اور سرکاری وکیل ملزم کی پیرول پر رہائی میں بے ضابطگی ثابت نہیں کر سکے، ملزم پر ابھی جرم ثابت نہیں ہوا، خاندان کے اہم مواقع پر شرکت سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پیرول پر رہائی سندھ ہائی کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ، ملزم کو سزا چرس برآمدگی پر نہیں بیوقوفی پر ہوئی، ججز کا دلچسپ مکالمہ
سپریم کورٹ میں دوران سماعت مجرم کے وکیل کا کہنا تھا کہ مؤکل سے چرس بر آمد کرنے والا پولیس افسر ہی تفتیشی افسر بھی بن گیا تھا، تفتیشی افسر ہی چرس لے کر فارنزک کروانے گیا، سارے کیس میں چرس پکڑنے والا پولیس آفیسر ہی سب کچھ ہے، عدالتی فیصلہ ہے جو منشیات بر آمد کرے گا وہ خود تفتیش نہیں کرے گا۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے منشیات اسمگلنگ کیس میں 2017ء سے گرفتار سزا یافتہ مجرم ظفر اللہ کاکڑ کی عمر قید کیخلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا، ظفراللہ کی قومیت کاکڑ ہونے پر ججز کے درمیان ہلکے پھلکے ریمارکس کا تبادلہ ہوا۔ سپریم کورٹ میں منشیات سمگلنگ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ سخی سرور کا علاقہ خیبرپختونخوا میں آتا ہوگا، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ ملزم کاکڑ ہے، بلوچستان کا رہائشی ہے، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ملزم کاکڑ ہے تو کیا ہے، ملزم میرا کون سا واقف ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم سے 12 کلو چرس بر آمد ہوئی تھی، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ کیا ملزم چرس گاڑی میں لے کر جا رہا تھا۔؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم چرس پیدل لے جا رہا تھا، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ ملزم کو سزا چرس برآمدگی پر نہیں، بیوقوفی پر ہوئی۔ مجرم ظفر اللہ کاکڑ کے وکیل قمر سبزواری نے کہا کہ مؤکل سے چرس بر آمد کرنے والا پولیس افسر ہی تفتیشی افسر بھی بن گیا تھا، تفتیشی افسر ہی چرس لے کر فارنزک کروانے گیا، سارے کیس میں چرس پکڑنے والا پولیس آفیسر ہی سب کچھ ہے، عدالتی فیصلہ ہے جو منشیات بر آمد کرے گا وہ خود تفتیش نہیں کرے گا۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ پولیس والے کے ہاتھ ایک کاکڑ آگیا، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ پولیس والا ملزم کے خلاف ون مین شو بن گیا، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پولیس سٹیشن میں 2 مزید انسپکٹر موجود تھے۔ اپیل کنندہ کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں پولیس انسپکٹر شکایت کنندہ بھی ہے اور تفتیشی بھی وہی ہے، بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس پر مزید سماعت ملتوی کر دی۔