وفاقی حکومت نے سالانہ عبوری محصولات کے اعداد و شمار جاری کرنے پر پابندی لگادی
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
وفاقی حکومت نے سالانہ عبوری محصولات کے اعداد و شمار جاری کرنے پر پابندی لگادی۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کےتحت مکمل یا جزوی اعداد و شمارکسی شخص یا ادارے سے شائع کرنے پرپابندی ہوگی، عوام، میڈیا یا کسی بھی بیرونی فریق کے ساتھ اعداد شمار شیئر نہیں کیے جائیں گے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ محصولات جاری کرنے کے لیے وزارت خزانہ کی پیشگی اور واضح منظوری لازمی قرار دی گئی ہے، بغیر اجازت کے عبوری اعداد و شمار کا اجرا پروگرام کی رازداری کی خلاف ورزی تصور ہوگا، قبل از وقت عبوری اعداد و شمار کا اجرا آئی ایم ایف کے جائزہ عمل کو متاثر کر سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ عمل مجموعی طور پر پروگرام کے نتائج کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے، تمام محصولات کے اعداد و شمار پہلے جائزے کی تکمیل تک خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق منظور شدہ اعداد و شمار باضابطہ ذرائع سے عوام کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
گرین کریڈٹ پروگرام: الیکٹرک بائیک خرید کر 1 لاکھ روپے کا انعام حاصل کریں
پنجاب حکومت کی جانب سے صوبے میں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے اور شہریوں کو ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے نجات دلانے کے لیے الیکٹرک بائیک کی خریداری پر 1 لاکھ روپے تک کی خصوصی مراعات دینے کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ چیف منسٹر گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت نئی فیکٹری سے بنی ہوئی الیکٹرک بائیک خریدنے والے شہریوں کو یہ انعام 2 اقساط میں فراہم کیا جائے گا۔ سب سے پہلے تو یہ لازم ہے کہ ای بائیک 20 دسمبر 2024 کے بعد خریدی گئی ہو۔
حکومتی اعلامیے کے مطابق پہلی قسط 50 ہزار روپے کی ہوگی جو رجسٹریشن اور بائیک کی تصدیق کے بعد فوراً دی جائے گی، جبکہ بقیہ 50 ہزار روپے اس وقت ملیں گے جب خریدار اپنی بائیک کو سرکاری گرین کریڈٹ موبائل ایپ سے لنک کرے گا۔
صرف یہی نہیں بلکہ خریداری کے پہلے 6 ماہ میں کم از کم 6 ہزار کلومیٹر کا سفر بھی مکمل کرے گا، جس کی تصدیق ایپ کے ذریعے کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ہونڈا نے سی جی 150 اور الیکٹرک بائیک لانچ کردی، قیمتیں بھی حیران کن
اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے شہریوں کو بائیک کی رجسٹریشن بک، چیسس نمبر، ماڈل، خریداری کی تاریخ اور واضح تصاویر سمیت تمام مطلوبہ دستاویزات آن لائن پورٹل پر جمع کروانی ہوں گی، جس کے بعد محکمہ ٹرانسپورٹ کا نمائندہ بائیک کی فزیکل تصدیق کرے گا۔
حکام کے مطابق یہ اسکیم صرف نئی الیکٹرک بائیک کے لیے ہے اور پرانے پیٹرول بائیک کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے والے افراد اس میں شامل نہیں ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف شہریوں کے سفری اخراجات میں کمی لائے گا بلکہ توانائی کے متبادل ذرائع کے فروغ اور ماحولیاتی تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ مگر اس کے لیے ملک میں انفراسٹرکچر ایک بہت بڑی ضرورت ہے۔ تاکہ اس نئے منصوبے کی آڑ میں بائیک خریدنے کے بعد شہری اپنے فیصلے کو نہ صرف خوش آئند قرار دیں۔ بلکہ وہ الیکٹرک بائیک کے اصل مقصد سے بھی مستفید ہو سکیں۔
آٹو ایکسپرٹ فاروق پٹیل کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان میں الیکٹرک بائیک کی کامیابی کا انحصار صرف حکومتی مراعات پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ ملک میں سروس سینٹرز، بیٹری ریپلیسمنٹ سہولیات، اور اسپیئر پارٹس کی فراہمی آسانی سے ممکن ہو۔
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا طلبا کو الیکٹرک بائیکس ایوارڈ دینے کا اعلان
ان کے مطابق اگر یہ بنیادی سہولتیں فراہم نہ ہوئیں تو خریدار کچھ عرصے بعد مشکلات کا شکار ہو جائیں گے، جس سے منصوبے پر عوام کا اعتماد کم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو مقامی مینوفیکچررز کے ساتھ مل کر معیاری اور سستی بیٹریاں تیار کرنی چاہئیں تاکہ درآمدی اخراجات کم ہوں اور الیکٹرک بائیک عام آدمی کی پہنچ میں رہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو الیکٹرک بائیکس کی قیمتیں لاکھوں میں ہیں۔ جس کہ وجہ سے ابھی بھی وہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ اور اس کی مینٹیننس پاکستان میں سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہایت ہی مشکل ہے۔
ماحولیاتی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر فہیم الیاس نے کہا کہ پنجاب حکومت کا چیف منسٹر گرین کریڈٹ پروگرام مثبت اور بروقت قدم ہے جو نہ صرف ایندھن کے بڑھتے اخراجات سے شہریوں کو ریلیف دے گا بلکہ ماحول دوست ٹیکنالوجی کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی فراہمی ناگزیر ہے، خاص طور پر الیکٹرک بائیک کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کا جال بچھانا۔
ڈاکٹر فہیم کے مطابق منصوبے میں ایک اہم خلا یہ ہے کہ چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کے لیے کوئی فنڈ مخصوص نہیں کیا گیا، جس سے صارفین کو عملی مشکلات پیش آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت واقعی الیکٹرک بائیک کے استعمال کو پائیدار بنانا چاہتی ہے تو اسے چارجنگ سہولیات، مقامی بیٹری مینوفیکچرنگ، اور سروس نیٹ ورک پر بھی توجہ دینی ہو گی، تاکہ شہری اس سہولت کو پورے اعتماد کے ساتھ اپنائیں اور منصوبے کا اصل مقصد ماحولیاتی آلودگی میں کمی حاصل ہو سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں