سائنسدانوں کی مصنوعی انسانی ’ڈی این اے‘ بنانے کی کوشش، بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
انسانی ڈی این اے کو مکمل طور پر مصنوعی طریقے سے بنانے کے سائنسدانوں کے منصوبے نے بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا۔
دنیا کے سب سے بڑے طبی خیراتی ادارے ویلکم ٹرسٹ (Wellcome Trust) نے انسانی ڈی این اے کو شروع سے بنانے کے متنازعہ منصوبے کے آغاز کے لیے 10 ملین پاؤنڈ (تقریباً 117 کروڑ روپے) کی مالی امداد فراہم کی ہے۔ اس منصوبے میں آکسفورڈ، کیمبرج اور امپیریل کالج سمیت برطانیہ کی ممتاز جامعات کے سائنسدان شامل ہیں۔
ڈی این اے کو انسانی زندگی کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا ہے، جو نیوکلیوٹائیڈز (nucleotides) نامی اکائیوں سے بنتا ہے اور یہی وہ معلومات رکھتا ہے جو جسمانی طور پر ہمیں وہ بناتی ہے جو ہم ہیں۔
سنتھیٹک ہیومن جینوم پروجیکٹ (Synthetic Human Genome Project) کے سائنسدان اب ثبوت کے طور پر انسانی ڈی این اے کے تقریباً دو فیصد حصے پر مشتمل ایک مکمل مصنوعی کروموسوم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حتمی ہدف یہ ہے کہ ایک دن مکمل انسانی جینوم کو ابتدا سے تیار کیا جا سکے۔
کیمبرج کے ایم آر سی لیبارٹری آف مالیکیولر بایولوجی سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر جولیئن سیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم ایسی تھیراپیز پر کام کر رہے ہیں جو لوگوں کی زندگیوں کو عمر رسیدگی کے ساتھ بہتر بنائیں، تاکہ بڑھتی عمر میں بیماریاں کم ہوں اور صحت مند زندگی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے بیماریوں سے محفوظ خلیے تیار کرنا چاہتے ہیں، جنہیں جگر، دل یا حتیٰ کہ مدافعتی نظام جیسے متاثرہ اعضا میں دوبارہ آبادکاری کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
ویلکم سانگر انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر میتھیو ہرلز کے مطابق یہ سمجھنا کہ جینز اور ڈی این اے ہمارے جسم کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں، ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتا ہے کہ یہ کب اور کیسے بگڑتے ہیں، جس سے ہم بہتر علاج دریافت کر سکتے ہیں۔
پروفیسر ہرلز نے مزید کہا کہ ڈی این اے کو شروع سے تیار کرنا ہمیں یہ جانچنے کی اجازت دیتا ہے کہ ڈی این اے دراصل کیسے کام کرتا ہے اور ہم نئی نظریات کو آزما سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت ہم صرف موجودہ حیاتیاتی نظاموں میں موجود ڈی این اے میں تبدیلی کر کے ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈی این اے کو
پڑھیں:
اسمگلنگ سے بچائے گئے اڑیال کے تین بچوں کی مصنوعی خوراک پر کامیاب پرورش
لاہور:پنجاب کے نایاب اور قومی جنگلی جانور اڑیال کی بقا کی ایک امید بھری کہانی لاہور سفاری پارک کے وائلڈ لائف اسپتال سے سامنے آئی ہے، جہاں تین ننھے اڑیال بچوں کی زندگی نہ صرف محفوظ بنائی گئی بلکہ انہیں ماں کے دودھ کے بغیر بھی کامیابی سے پروان چڑھایا گیا۔
یہ تینوں بچے چند ماہ قبل جہلم میں اس وقت بازیاب کیے گئے تھے جب ایک شخص انہیں غیر قانونی طور پر اسمگل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بروقت کارروائی کے دوران ملزم کو گرفتار کر لیا گیا اور ننھے اڑیال لاہور منتقل کر دیے گئے، جہاں ان کی نگہداشت، علاج اور خوراک کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔
سفاری پارک کے وائلڈ لائف اسپتال میں جب یہ تینوں اڑیال لائے گئے تو وہ کمزور اور خوف زدہ تھے۔ ان کے لیے زندگی ایک نیا تجربہ تھی، ماں کے دودھ کی جگہ انسانوں کے ہاتھوں سے دی جانے والی مصنوعی خوراک، اور جنگل کی آزادی کے بجائے ایک محفوظ مگر محدود ماحول۔ مگر وائلڈ لائف کے ماہرین نے ان کے لیے وہ سب کیا جو فطرت شاید نہ کر پاتی۔ چوبیس گھنٹے نگرانی، ہر چند گھنٹے بعد خوراک، باقاعدہ وزن چیک کرنا، اور ان کی طبی حالت پر مسلسل نظر رکھنا—یہ سب اس داستان کے اہم کردار بن گئے۔
ڈائریکٹر وائلڈ لائف اسپتال، ڈاکٹر محمد رضوان خان کے مطابق پنجاب کی سالٹ رینج اڑیال کا قدرتی مسکن ہے، مگر بریڈنگ سیزن میں شکاری اکثر ان کے بچوں کو پکڑ کر فروخت یا اسمگل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے بقول، ماضی میں ماں سے جدا ہونے والے اڑیال بچوں کو جب ہاتھ سے دودھ پلا کر پالنے کی کوشش کی گئی تو اکثر ان میں ہاضمے کے مسائل اور اموات کی شرح زیادہ تھی۔ اس بار ہم نے سائنسی طریقہ اپنایا۔ ان کی خوراک میں جدید تبدیلیاں کیں، حفاظتی ادویات کا شیڈول بنایا، اور روزانہ ان کے وزن کی نگرانی کی۔ نتیجہ حیران کن تھا، تینوں بچے تیزی سے صحت یاب ہوئے، ان کا وزن بڑھا، اور وہ بیماریوں سے محفوظ رہے۔
ویٹرنری ماہر ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے بتایا کہ ان کے لیے خصوصی خوراک تیار کی گئی جس میں دودھ کے ساتھ ساتھ ٹوٹل مکسڈ ریشن (ٹی ایم آر) شامل تھی تاکہ انہیں تمام غذائی اجزاء متوازن طور پر مل سکیں۔ ان کے خون اور فضلے کے نمونوں کی جانچ باقاعدگی سے کی جاتی رہی تاکہ پرجیوی یا دیگر امراض کی بروقت شناخت ممکن ہو۔
سفاری زو کے کیئر ٹیکر کے مطابق جب یہ اڑیال کے بچے پہلی بار اسپتال لائے گئے تو عملہ ان سے اس طرح مانوس تھا جیسے اپنے بچوں سے۔ جب ان میں سے کوئی ایک خوراک کم کھاتا یا وزن میں کمی محسوس ہوتی، تو پورا عملہ فکر میں پڑ جاتا۔ ان کے لیے ہر لمحہ ایک ذمہ داری تھی، اور اب جب وہ دوڑتے ہیں، اچھلتے ہیں، تو یوں لگتا ہے جیسے قدرت نے مسکرا کر اس محنت کو قبول کر لیا ہو۔
وائلڈ لائف ماہرین کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب پنجاب اڑیال کے بچوں کو سائنسی بنیادوں پر مصنوعی خوراک کے ذریعے کامیابی سے پروان چڑھایا گیا ہے۔ ان کی صحت مند حالت اب نہ صرف ایک سائنسی کامیابی ہے بلکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے سفر میں ایک اہم سنگ میل بھی ہے، ایک ایسی کہانی جس میں انسان اور فطرت کے درمیان ہمدردی کا وہ رشتہ جھلکتا ہے جو دونوں کو زندہ رکھتا ہے۔