فوٹو: اسکرین گریپ 

سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کے واقعے سے متعلق مزید اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، حادثے کی نوعیت کا معلوم نہ ہونے پر ریسکیو ٹیمیں کشتیاں اور جال ساتھ نہیں لائیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ضلع میں دفعہ 144 نافذ تھی جس پر عمل درآمد پولیس کی ذمہ داری تھی، پولیس جائے وقوعہ پر سب سے آخر میں پہنچی، سیاح 8 بجکر 30 منٹ پر ہوٹل کے کیفے میں ناشتہ کرنے پہنچے، نجی ہوٹل بند تھا، سیاح پچھلے راستے سے دریا کے اندر گئے۔

سوات میں ڈوبنے والے 1 ہی خاندان کے 2 افراد مردان میں سپردِ خاک

دریائے سوات میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والے 1 ہی خاندان کے 2 افراد کو مردان میں سپردِ خاک کر دیا گیا، 1 بچے کی تلاش جاری ہے جبکہ 3 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔

سیاحوں نے دریا کے اندر سیلفیاں لینا شروع کیں، مقامی لوگوں نے سیاحوں کو سیلابی پانی آنے کے خدشہ کا بتایا، سیاح سیلفیاں لیتے لیتے دریا کے مزید اندر گئے اور مقامی افراد کی نہیں مانی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق 9 بجکر 50 منٹ پر ریسکیو 1122 کو کال موصول ہوئی، حادثہ کی نوعیت کا اندازہ نہ ہونے پر ریسکیو ٹیمیں کشتیاں اور جال ساتھ نہیں لائے، 10 منٹ بعد کشتی اور جال منگوا کر کارروائی شروع کی گئی۔

ریلے میں پھنسے سیاح دریائے سوات کا مزاج نہ بھانپ سکے

خطرناک مقامات پر سیلفی لینا، تصاویر اور ویڈیو بنانے کا شوق ہر سال سیاحتی موسم میں کئی قیمتی جانیں نگل لیتا ہے۔

واقعہ کی اطلاع ملتے ہی انتظامیہ کے اہلکار سب سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچے، کارروائی کے دوران تین سیاح اور ایک مقامی فرد کو ریسکیو کیا گیا۔

دوسری جانب کمشنر مالا کنڈ عابد وزیر نے جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ کل سے دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا جا رہا ہے، ہوٹل کو سیل کرکے مالک کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

کمشنر مالاکنڈ نے کہا کہ دریائے سوات کے اندر باہر مائننگ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سوات میں

پڑھیں:

سانحہ سوات کا ذمہ دار کون؟ سیاح مدد کو پکارتے رہے بچایا کیوں نہیں جا سکا؟

سانحہ سوات کا ذمے دار کون؟ بے رحم موجوں کے بیچ مدد کو پکارتے سیاحوں کو بچایا کیوں نہیں جاسکا؟ امدادی ٹیمیں دیر سے کیوں پہنچیں؟ پہنچنے کے بعد بھی ریسکیو اہلکار ناکام کیوں ہوگئے؟

کیا عملے کے پاس ریسکیو کا سامان موجود تھا؟ عینی شاہدین اور جاں بحق ہونے والوں کے گھر والوں کے سوالوں کے جواب کون دے گا؟ غم سے نڈھال لواحقین کا کہنا ہے ریسکیو ادارے ڈیڑھ گھنٹے بعد آئے ان کے پیارے ٹِیلے پر پھنسے رہے، ان کی آنکھوں کے سامنے بپھرا ریلا لوگوں کو بہا لے گیا۔

دریائے سوات میں پانی کے ریلے میں بہنے والے افراد میں سے 11 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں، 2 کی تلاش جاری ہے، 8 افراد کی نماز جنازہ ڈسکہ میں ادا کردی گئی۔

گزشتہ روز کے واقعے کے خلاف سوات میں وکلاء نے آج عدالتوں کا بائیکاٹ کیا، سوات کی ضلعی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ سیاحوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ایک نہ سُنی۔

خیبر پختونخوا حکومت نے ڈپٹی کمشنر سوات سمیت کئی افسران کو معطل کر دیا، واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بنادی۔

متعلقہ مضامین

  • سوات، سیلابی ریلے میں سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ایک اور دریائی مقام پر مزید شہری پھنس گئے
  • سانحہ سوات کا ذمہ دار کون؟ سیاح مدد کو پکارتے رہے بچایا کیوں نہیں جا سکا؟
  • دریائے سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ، ڈپٹی کمشنر کو معطل کردیا گیا
  • دریائے سوات میں ڈوبنے والے ایک اور سیاح کی لاش نکال لی گئی، جاں بحق افراد کی تعداد 10 ہو گئی
  • سوات: سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ایک اور دریائی مقام پر مزید شہری پھنس گئے
  • سوات: سیلابی ریلے میں سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ایک اور دریائی مقام پر مزید شہری پھنس گئے
  • دریائے سوات میں ڈوبنے والے ایک اور سیاح کی لاش نکال لی گئی
  • سوات واقعہ، دریامیں ڈوبنے والے ایک اور سیاح کی لاش نکال لی گئی، جاں بحق افراد کی تعداد 10 ہو گئی 
  • دریائے سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ، انکوائری کمیٹی تشکیل، میڈیکل ایمرجنسی نافذ