رائس پیپر سے روبوٹ بنانے کا طریقہ دریافت
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
سائنس دانوں نے رائس پیپر (چاول کے آٹے سے بنی انتہائی مہین کاغذ نما روٹی) سے روبوٹ بنانے کا طریقہ دریافت کر لیا۔ یہ دریافت روبوٹکس کے شعبے میں نئے باب کھولنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف برسٹل سے تعلق رکھنے والی سائنس دانوں کی ٹیم کو تحقیق میں معلوم ہوا کہ ویتنامی اسپرنگ رولز میں استعمال ہونے والا یہ جز مضبوطی اور نرمی میں سلیکون کو ٹکر دے سکتا ہے، سلیکون عام طور پر سافٹ روبوٹکس میں استعمال کیا جاتا ہے۔
رائس پیپر کے اضافی خصوصیات میں تحلیل ہوجانا، زہریلا نہ ہونا اور یہاں تک کے کھانے کے قابل ہونا شامل ہے۔
یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سائنس اینڈ انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والی کرسٹین بریگینزا کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق سافٹ روبوٹکس میں تجربہ کرنے، بنانے والے اور اختراع کرنے والوں میں سبھی کے لیے دروازے کھولتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ محققین کو پروٹوٹائپنگ کا ایک نیا نظری ہاور زراعت اور جنگلات کو دوبارہ اگانے کے لیے حوصلہ افزا ٹیکنالوجی دیتا ہے۔
ٹیم کی جانب سے اس کے دیگر استعمال میں بطور برتن کے استعمال شامل ہے اور ٹیم اس مٹیریل سے ایک روبوٹ بنانے کے لیے پُر امید ہے جو خود حرکت کرسکتا ہو۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
27ویں ترمیم: قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بل پاس کرانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
ملک بھر میں کی جانے والی قانون سازی عمومی طور پر پارلیمنٹ میں بل کے ذریعے کی جاتی ہے، بل یا تو پرائیویٹ ممبر یا حکومت کی جانب سے سینیٹ یا قومی اسمبلی میں پیش کیے جاتے ہیں۔
پرائیویٹ ممبر کی جانب سے بل کا مسودہ تیار کہ اسمبلی اجلاس کے دوران پرائیویٹ ممبر کے دن کے موقع پر پیش کیا جاتا ہے اور اس بل پر ایوان میں لائے رائے لی جاتی ہے اور پھر غور و فکر یا ترمیم کے لیے اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری: حکومت اب کسی تعاون کی امید نہ رکھے، رہنما جے یو آئی کامران مرتضیٰ
حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل کا مسودہ پہلے متعلقہ وزارت تیار کرتی ہے، اس بل کو پہلے وفاقی کابینہ سے منظور کرایا جاتا ہے جس کے بعد اسے پارلیمنٹ بھیج دیا جاتا ہے، سینیٹرز کا بل پہلے سینیٹ میں جبکہ اراکین قومی اسمبلی کا بل پہلے قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر بعد میں منظوری کے بعد دوسرے ایوان میں منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
ایوان میں پیش کیے جانے والے بل پر سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ اراکین کی رائے لیتے ہیں اور پھر یہ فیصلہ کرتے ہیں بل پاس کرنا ہے یا مزید غور و فکر کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ قائمہ کمیٹی میں متعلقہ بل پیش کرنے والے ممبر اور کمیٹی ارکان اس بل پر تفصیلی بحث کرتے ہیں اس میں ترامیم کرتے ہیں جس کے بعد کمیٹی ترامیم کو شامل کر کے مزدوری کے لیے دوبارہ ایوان میں بھیج دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: حکومتی تیاریاں مکمل، 27ویں آئینی ترمیم آج قومی اسمبلی سے منظور ہونے کا امکان
ایوان میں پرائیویٹ ممبر کا بل ممبر خود پیش کرتا ہے اور حکومتی بل وزیر قانون پیش کرتے ہیں، بل پیش کرتے وقت بتایا جاتا ہے کہ یہ بل کس سے متعلق ہے اور اس کے اہم نکات کیا ہیں، بل اگر قائمہ کمیٹی سے منظور ہو کر آئے تو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس بل پر کمیٹی کی کیا رائے تھی اور کمیٹی کی کون سی اہم تجاویز کو شامل کیا گیا ہے۔
قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے کے بعد بل دوبارہ متعلقہ ایوان قومی اسمبلی یا سینٹ میں پیش کر دیا جاتا ہے اور پھر سادہ اکثریت سے یا ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت سے یہ بل منظور کر لیا جاتا ہے اور پھر اسے دوسرے ایوان سے منظوری کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔
سینیٹ سے منظور کیا گیا بل قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا بل سینیٹ کو بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کیا اس منظور کیے گئے بل میں مزید کسی ترمیم کے لیے اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی بھیجنا ہے یا اسی طرح منظور کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ کے اختیارات ختم کرنا غیر آئینی ہے، 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر
اگر کوئی بل کسی ایک ایوان سے منظور ہو جائے اور دوسرے ایوان سے منظور نہ ہو سکے تو ایسے بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیج دیا جاتا ہے اور پھر مشترکہ اجلاس میں بل پر ووٹنگ کرائی جاتی ہے اور اگر اکثریت منظور کر لے تو یہ بل منظور ہو جاتا ہے وگرنہ یہ بل ڈراپ ہو جاتا ہے۔
قومی اسمبلی یا سینیٹ سے بل کی منظوری کے بعد اسے سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ وزارت پارلیمانی امور کو ارسال کر دیتے ہیں جو اس پر دستخط کے لیے اسے وزیراعظم افس بھیج دیتے ہیں وزیراعظم کے دستخط کے بعد اس بل کو حتمی منظوری کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کیا فارم 47 کی پیداوار حکومت آئینی ترمیم کا اختیار رکھتی ہے؟ لطیف کھوسہ
ایوان صدر میں اس بل کو سیکشن افیسر وصول کرتے ہیں اور اس بل کی فائل پر مختصرا متن لے کر بل کی کاپی اسسٹنٹ سیکرٹری کو بھیج دیتے ہیں جو کہ اپنی رائے اسی فائل پر لکھ کر بل صدر کے سیکرٹری کو بھیجتے ہیں اور پھر بل صدر تک پہنچایا جاتا ہے۔
آئین پاکستان کی شق 75 کے تحت وزیراعظم آفس سے جب بھی کوئی بل صدر کو بھیجا جاتا ہے تو 10 دنوں میں صدر نے اس بل پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ شق75(1) کے تحت صدر مملکت کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس بل پر 10 دنوں میں دستخط کرے یا دوبارہ غور کے لئے پارلیمنٹ بھیج دے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی کون سی قوم پرست سیاسی جماعتیں 27ویں آئینی ترمیم کی مخالف ہیں؟
آئین کے آرٹیکل 75(2) کے تحت اگر پارلیمنٹ کےمشترکہ اجلاس میں بل منظور کر لیا جائے اور صدر 10 دن کے اندر اس پر دستخط نہ کریں تو آئین کے آرٹیکل 75(3) کے تحت کوئی بھی بل خود ہی قانون بن جاتا ہے اور آئین کے آرٹیکل75(4) کے مطابق اس طرح سے منظور کیا گیا کوئی بھی بل یا ترمیم کو غلط نہیں قرار دیا جا سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
27ویں آئینی ترمیم آئین سینیٹ قانون سازی قومی اسمبلی