سٹی42:  الیکشن کمیشن آف پاکستان نے   سپریم کورٹ کے فیصلےکے بعد  الیکشن کمیشن کے خلاف  بے بنیاد  پروپیگنڈا  پر سخت جواب دیتے ہوئے کہا ہے، " اپنی ناکامیوں کا الزام الیکشن کمیشن پر ڈالنےکا رویہ  غیر مناسب ہے۔"

الیکشن کمیشن نے کل سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ سے 8 فروری  2024 الیکشن میں شریک نہ ہونے والی پارٹی پی ٹی آئی کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستین دے  ڈالنے کے فیصلہ پر نطر ثانی کی درخواستوں پر فیسلہ سنایا تو ان درخواستوں میں سے ایک درخواست کے مدعی الیکشن کمیشن نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ جب اس فیصلہ پر پی ٹی آئی کے لوگوں نے بے سر و پا تنقید کی تو آج الیکشن کمیشن نے بیان جاری کیا اور کہا، "الیکشن کمیشن پر ہونے  والی تنقید  جھوٹ  اور  حقائق کے برعکس ہے"،  ادارہ کے بیان میں کہا گیا، "الیکشن کمیشن نے ہمیشہ آئین و قانون کے مطابق فرائض انجام دیئے ہیں۔"

ایران جنگ کا خاتمہ غزہ جنگ بندی کا سنہری موقع؛ قطر

الیکشن کمیشن نے یاد دلایا کہ  سپریم کورٹ نے بار بار  الیکشن کمیشن کے مؤقف کی توثیق کی ہے، سینیٹ الیکشن میں سیکرٹ بیلٹ سے متعلق مؤقف کی عدالت نے توثیق کی، ڈسکہ الیکشن پر الیکشن کمیشن کے فیصلےکو سپریم کورٹ نے دراست آئینی اقدام قرار دیا، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پرالیکشن کمیشن کی تشریح کو بھی درست قرار دیا۔   اے پی ایم ایل(ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی نام نہاد سیاسی پارٹی)  کی ڈی لسٹنگ کے فیصلے کو بھی سپریم کورٹ نے برقرار  رکھا۔

 ایران پر حملوں نے 'دنیا پر ثابت کردیا کہ ہم اب بھی" کمینے" ہیں، نفتالی بینیٹ

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی پر دیگر جماعتیں بھی ڈی لسٹ کی گئیں، پنجاب الیکشن ٹربیونلز پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ مسترد اور  الیکشن کمیشن کا مؤقف برقرار رکھا گیا، اب کل آنے والے فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں بھی الیکشن کمیشن کا مؤقف برقرار رکھا گیا۔

 الیکشن کمیشن سیاسی دباؤ  یا عوامی  پریشر میں آکر فیصلے نہیں کرتا، صرف آئین، قانون اور شواہد کی بنیاد  پر فیصلے کرتا ہے، الیکشن کمیشن کسی جماعت یا مفاداتی گروہ کے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوتا، اپنی ناکامیوں کا الزام الیکشن کمیشن پر ڈالنے کا رویہ غیر مناسب ہے۔

  ٹرمپ کا غزہ میں خوراک بانٹنے کے نئے سسٹم کا دفاع

پس منطر

پی ٹی آئی نے دوسری سیاسی جماعتوں سے خود کو بالاتر اور "حقیقی جمہوری" ظاہر کرنے کے لئے اپنے پارٹی آئین میں "انٹراپارٹی الیکشن" میں تمام ارکان کو ووٹ دینے کا حق دار قرار دیا، یونین کونسل کے برابر یونٹ بنا کر وہاں سے انٹراپارٹی الیکشن کی ابتدا کرنے اور منتخب نمائدوں کے ووٹ سے ضلعہ، صوبائی اور مرکزی عہدیدار بنانے کا طول طویل "آئیڈیل" تصور پیش کیا لیکن ایک بار بھی اس تصور اور اپنے آئین کے مطابق انٹراپارٹی الیکشن نہیں کروا۔

غزہ کی مستقبل کی گورننس میں کردار؛ سیز فائر کیلئے حماس کی شرط

ماضی میں پی ٹی آئی میں طوی لعرصہ تک خود اس پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر اور صدر مملکت کے عہدہ کے لئے پارٹی کے نامزد امیدوار جسٹس وجیہہ الدین احمد نے آئین کے ناقابل عمل ہو جانے کے بعد پارٹی سے علیھدگی اختیار کر لی اور پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ نافذ کر کے عمران خان کو ڈکٹیٹر نامزد کر کے گھر چلے گئے۔ عمران خان نے اس کے بعد کبھی اپنی کچن کیبنٹ کو  "کور گروپ" کا نام دے کر اس کے نام نہاد مشوروں سے تنہا خود پارٹی چلائی، کبھی عہدیدار نامزد کر دیئے، کبھی "ایس ایم ایس ووٹ" سے انٹراپارٹی الیکشن کا ناٹک کیا لیکن آخر کار انہیں الیکشن کمیشن کا سامنا کرنا پرا جس نے پی ٹی آئی کو اپنے آئین کے مطابق انتراپارٹی الیکشن کروانے کے لئے کئی  ڈیڈ لائن دیں، کئی مرتبہ مزید مہلتین دین اور آخر انٹرا پارٹی الیکشن کی آخری  ڈیڈ لائن مقرر کر کے اس کی پابند ی نہ کئے جانے پر  پی ٹی آئی کو کسی بھی الیکشن میں شریک ہونے سے روک دیا۔

اس حکم کی تعمیل میں پی ٹی آئی نے  2024 کا الیکشن نہیں لڑا۔ پارٹی کے عہدیداروں نے آزاد الیکشن لڑا، بعد میں پی ٹی آئی کی "پراکسی پارٹی" سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے اور سنی اتحاد کونسل نے آزاد ارکان کے شامل ہونے کے بعد مطالبہ کیا کہ اسے مخصوص نشستوں مین حصہ دیا جائے۔ یہ دلچسپ  بات تھی کہ سنی اتحاد کونسل کا اپنا ایک بھی آدمی عام انتخٓبات مین جیت کر قومی اسمبلی میں نہیں گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے اس مطالبہ کو قانونی بنیاد پر مسترد کیا، سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ مین کیس کیا، وہاں عدالت نے الیکشن کمیشن کی پوزیشن کو تسلیم کیا اور سنی اتحاد کی پیٹیشن مسترد کر دی، سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ، سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی سماعت کے بعد انوکھا فیصلہ سنایا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم سنا دیا۔ سنی اتحاد کونسل راتوں رات پی ٹی آئی بن گئی اور پی ٹی آئی جس نے الیکشن مین حسہ لیا نہ ہی عدالتوں میں درخواست دے کر کچھ مانگا، اسے بن مانگے ہی پارلیمانی پارٹی بنا دیا گیا۔

اس متنازعہ فیسلہ پر  نطر ثانی کی اپیلیں ہوئیں، جن کا فیصلہ کل ہوا جس میں سپریم کورٹ کے  13 رکنی بنچ  کے 7 ارکان نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ منسوخ کر دیا اور یہ مخصوص نشستیں جن پارٹیوں کو الیکشن کمیشن نے پہلے دی تھین، انہیں ہی واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

Waseem Azmet.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: انٹراپارٹی الیکشن الیکشن کمیشن پر سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ نے پارٹی الیکشن پی ٹی ا ئی کو پارٹی ا کے بعد

پڑھیں:

حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) حکومت کو آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے لیے سینیٹ میں 64 جبکہ قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔

سینیٹ

سینیٹ کے 96 رکنی ایوان میں حکمران اتحاد میں پیپلزپارٹی 26 ووٹوں کے ساتھ سرفہرست، مسلم لیگ ن 21 ووٹوں کے ساتھ دوسری بڑی حکومتی جماعت ہے، ایم کیو ایم اور اے این پی کے 3،3 ارکان موجود ہیں۔

نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ق اور 6 آزاد ارکان بھی حکومت کے ساتھ ہیں، حکمران اتحاد کو مجموعی طور پر 65 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

وینٹی لیٹر پر منتقل کی تردید، سینیٹرعرفان صدیقی کی صحت کے حوالے سے ان کے اہل خانہ کی وضاحت سامنے آ گئی

دوسری طرف تحریک انصاف کے 22، جے یو آئی کے 7، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل کا ایک ایک سینیٹر اپوزیشن کا حصہ ہے، سینیٹ میں اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 31 بنتی ہے

قومی اسمبلی

قومی اسمبلی کا ایوان 336اراکین پر مشتمل ہے، 10 نشستیں خالی ہونے کے سبب ایوان میں اراکین کی تعداد 326 ہے، آئینی ترمیم کے لئے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے۔

حکومتی اتحاد کو پیپلز پارٹی سمیت اس وقت 237 اراکین کی حمایت حاصل ہے، مسلم لیگ ن 125اراکین کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، پیپلز پارٹی کے 74 اراکین ہیں، ایم کیو ایم کے 22 ق لیگ کے 5،آئی پی پی کے 4اراکین ہیں۔

لاہور، ہربنس پورہ کے علاقے میں گھر میں سلنڈر دھماکے سے عمارت کی پہلی منزل منہدم، 3افراد جاں بحق

مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن کے علاوہ 4آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے، قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 89 ہے، اپوزیشن بنچوں پر 75 آزاد اراکین ہیں۔

جے یو آئی ف کے 10 اراکین ہیں، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، بی این پی مینگل اورپختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن بھی اپوزیشن بنچوں پر موجود ہے۔
 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن: طلال چودھری کوضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس
  • ڈیرہ غازیخان، این اے 185کے ضمنی الیکشن میں شیعہ علماء کونسل نے پی پی پی کے اُمیدوار کی حمایت کردی 
  • الیکشن کمیشن نے وزیر مملکت طلال چوہدری کے خلاف انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس لے لیا
  • الیکشن کمیشن نے طلال چوہدری کے خلاف انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس لے لیا
  • 27 ویں ترمیم؛   قومی اسمبلی میں کون سی پارٹی حمایت اور کون مخالفت کرے گا؟
  • اسلام آباد: تحریک انصاف اور اپوزیشن اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا ہے
  • حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار  
  • 27 ویں ترمیم: ججز کے تبادلے کی ترمیم میں تبدیلی پر غور، چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر معاملات طے نہ پاسکے
  • حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار
  • 27 ویں آئینی ترمیم میں عبوری صوبہ کو شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، امجد ایڈووکیٹ