Express News:
2025-09-27@21:37:07 GMT

اسٹوری آف لائف

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔ پیٹر کی عمر آٹھ سال تھی‘ وہ مشرقی یورپ کے کسی چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا‘ والدین زمین دار اور خوش حال تھے‘ پیٹر ان کی اکلوتی اولاد تھا‘ وہ خوب صورت بھی تھا‘ ذہین بھی اور مہذب بھی۔ پیٹر گاؤں کا بے مثال بچہ تھا‘ بس اس میں ایک خرابی تھی‘ وہ خرابی کیا تھی؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں‘ یہ صرف پیٹر کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ہم سب کی کہانی ہے۔ یہ کہانی ہماری کہانی کیسے ہے؟ہمیں یہ جاننے کے لیے پہلے پیٹر کی کہانی سننا ہو گی۔

پیٹر میں بس ایک خرابی تھی‘ وہ ’’ڈے ڈریمنگ‘‘ کا شکار تھا‘ وہ بیٹھے بیٹھے کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتا تھا‘ وہ لمحہ موجود میں زندہ نہیں رہتا تھا‘ وہ وقت کو کبھی آگے لے جاتا تھا اور کبھی پیچھے۔ وہ اکثر اوقات کلاس میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں بیس سال کا خوب صورت جوان بن جاتا تھا‘ وہ خود کو گھوڑے پر بیٹھا ہوا دیکھتا‘ گھوڑے کو ایڑھ لگاتا اور اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگتا‘ پیٹر خیالوں کی دنیا میں سفر کرتا ہوا کبھی جنگیں لڑتا‘ کبھی شہزادی کے محل میں پہنچ جاتا‘ کبھی کسی ملکہ کو اغواء کر کے گھوڑے پر بٹھاتا‘ گھوڑے کو وادیوں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں اور میدانوں میں دوڑاتا اور دشمنوں کے گھوڑوں کو اپنے پیچھے بھاگتا ہوا محسوس کرتا‘ وہ کبھی رابن ہڈ بن کر امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے لگتا اور وہ کبھی کبھی خود کو پوپ بھی محسوس کرنے لگتا‘۔

وہ سمجھتا وہ ویٹی کن سٹی میں پوپ کی بالکونی میں کھڑا ہے اور پوری دنیا بالکونی کے نیچے کھڑی ہو کر اس کی زیارت کر رہی ہے‘ وہ وقت کو آگے اور پیچھے لے جانے والے اس کھیل کو بہت انجوائے کرتا تھا‘ وہ گھنٹوں بیٹھ کر یہ کھیل کھیلتا تھا‘ دنیا میں اس کھیل میں اس سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں تھا‘ پیٹر کی خواہش تھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے وقت کو کنٹرول کرنا سیکھ لے‘ وہ جب چاہے وقت کو آگے لے جائے اور جب چاہے وقت کو ری ورس کر لے‘ وہ ہمہ وقت یہ خواہش لے کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔

آپ اللہ کی کرنی دیکھیے‘ پیٹر ایک دن جنگل سے گزر رہا تھا‘ پیٹر کو ٹھوکر لگی‘ وہ گرا اور بے ہوش ہو گیا‘ آنکھ کھلی تو اس نے ایک بڑھیا کو اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا‘ یہ بڑھیا وقت تھی‘ وقت نے پیٹر سے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی‘ پیٹر نے کہا ’’میں چاہتا ہوں‘ میں جب چاہوں‘ میں وقت کو آگے پیچھے لے جا سکوں‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’بے وقوف بچے! وقت دریا ہے‘ یہ آگے کی طرف بہتا ہے‘ یہ پیچھے نہیں جاتا‘ میں تمہیں صرف وقت میں‘ صرف آگے بہنے کا طریقہ بتا سکتی ہوں‘‘۔

پیٹر مان گیا‘ بڑھیا نے اسے ایک گیند دی‘ گیند سے ایک دھاگا باہر لٹک رہا تھا‘ بڑھیا نے اسے بتایا‘ یہ دھاگا تمہاری زندگی جتنا طویل ہے‘ تم اس دھاگے کو جتنا باہر کھینچ لو گے‘ تم وقت میں اتنا ہی آگے چلے جاؤ گے‘ پیٹر خوش ہو گیا‘ بڑھیا چلی گئی‘ پیٹر نے تھوڑا سا دھاگا کھینچا‘ ٹرررر‘ ٹرررز کی آواز آئی اور پیٹر دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب اٹھارہ سال کا خوب صورت جوان تھا‘ وہ جوانی کی ایڑھیوں پر چلتا تھا اور شہر کی حسین خواتین بالکونی میں کھڑی ہو کر اسے دیکھتی تھیں‘ پیٹر جوانی کو انجوائے کرنے لگا‘۔

پیٹر نے دیکھا‘ اس کے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں‘ گاؤں کے سمجھ دار اور سیانے لوگ انتقال کر چکے ہیں اور گاؤں کا سائز بڑا ہو چکا ہے‘ پیٹر چند ماہ اس ٹائم فریم میں رہا‘ اکتاہٹ ہوئی تو اس نے صندوق سے گیند نکالا اور دھاگا کھینچ دیا‘ وہ مزید دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 28 سال کا جوان تھا‘ کھلنڈرے پن کی عمر گزر چکی تھی‘ وہ اب زندگی میں سیٹل ہونا چاہتا تھا‘ والدین بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور بیمار بھی۔

زمینیں بک رہی تھیں‘ گھوڑے نیلام ہو رہے تھے اور جمع پونجی خرچ ہو رہی تھی‘ ملازم ملازمت چھوڑ کر جا رہے تھے‘ پیٹر نے ملازمت کی کوشش کی لیکن وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا‘ کاروباری کوشش کی لیکن ناتجربہ کاری‘ سستی اور لاابالی پن سے مار کھا گیا اور سیاست میں قدم رکھا مگر اس میں بھی فیل ہو گیا‘ غیر سنجیدہ ماضی کی وجہ سے دوست احباب بھی ساتھ چھوڑ رہے تھے‘ وہ اب گاؤں میں مارا مارا پھرتا تھا اور اپنی بے مقصد زندگی کو کوستا تھا۔ 

پیٹر چند دن میں زندگی کے اس فیز سے بھی اکتا گیا‘ اس نے گیند نکالی‘ دھاگا کھینچا اور 38 سال کا ہو گیا‘ اس کی زندگی اب سیٹل ہو چکی تھی‘ سرکے بال کم ہو گئے تھے‘ کنپٹیاں سفید ہو رہی تھیں‘ گردن کے پچھلے مہروں میں اب ہلکی ہلکی درد رہتی تھی‘ محلے کی لڑکی ریٹا سے شادی بھی ہو چکی تھی اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے‘ ماں دو برس قبل انتقال کر گئی‘ باپ معذور ہوچکا تھا اور وہ اب سارا سارا دن وہیل چیئر پر بیٹھا رہتا تھا‘ بڑی حویلی اور فارم ہاؤس بک چکے تھے‘ وہ اب چھوٹے گھر میں رہتے تھے‘ بیوی اچار چٹنیاں بناتی تھی اور وہ بازار میں بیچ دیتا تھا‘ شام کے وقت گاؤں کے پب میں بیٹھ جاتا تھا اور بس یہ تھی زندگی۔

پیٹر نے گھبرا کر زور سے دھاگا کھینچ دیا‘ وہ اس بار بیس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 58 برس کا تھا‘ بچے جوان ہو کر شہر جا چکے تھے‘ گھر مزید چھوٹا ہو گیا تھا‘ بیوی ریٹا کے گردے فیل ہو چکے تھے‘ وہ پیٹ پر بیگ لگا کرزندگی گزار رہی تھی‘ محلے کے تمام پرانے لوگ مر چکے تھے‘ گاؤں قصبہ بن گیا تھا اور اس میں ہر وقت شور ہوتا رہتا تھا‘ وہ باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے اپنے کولہے کی ہڈی بھی تڑوا چکا تھا‘ ہڈی جڑ گئی لیکن اس کی چال میں جھول آ گیا۔ 

وہ اب چلتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہلکا سا جھکتا تھا‘ بڑا بیٹا شہر سے پیسے بھجوا دیتا تو دونوں میاں بیوی تین وقت کھانا کھا لیتے تھے‘ پیسے نہیں آتے تھے تو وہ آلو ابال کر کھا لیتے تھے‘ گھر میں سرے شام اندھیرا ہو جاتا تھااور اس کے بعد وہاں دونوں میاں بیوی کی کھانسی کی آوازیں ہوتی تھیں‘ پیٹر لائف کے اس فیز سے بھی گھبرا گیا‘ اس نے گیند نکالی اور دھاگا کھینچ دیا‘ وہ اب 68 سال کا ہو چکا تھا‘ بیوی فوت ہو گئی تھی‘ مکان بک گیا تھا‘ وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا‘ تمام دوست‘ احباب‘ رشتے دار مر چکے تھے‘ ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی تھی اور ٹیلی ویژن انٹرنیٹ میں تبدیل ہو رہا تھا۔ 

پیٹر کے پھیپھڑوں میں اب پانی بھی بھر جاتا تھا اور حلق میں بلغم بھی آتی تھی‘ وہ چلنے پھرنے سے بھی تقریباً معذور ہو چکا تھا‘ بھوک نہیں لگتی تھی اور اگر لگتی تھی تو کھانا نہیں ملتا تھا‘ کھانا مل جاتا تو دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھا نہیں پاتا تھا اور اگر وہ کھانا کھا لیتا تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور اگر کھانا ہضم ہو جاتا تو قبض ہو جاتی تھی اور قبض بھوک سے زیادہ اذیت ناک ہوتی تھی‘ زندگی خوف ناک بلکہ عبرت ناک صورت حال اختیار کر چکی تھی۔

پیٹر سارا سارا دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا رہتا تھا‘ وہ کتابیں پڑھنا چاہتا تھا لیکن نظر کی کمزوری آڑے آ جاتی تھی‘ وہ میوزک سننا چاہتا تھا لیکن کان کام نہیں کرتے تھے‘ وہ ماضی کو یاد کرنا چاہتا تھا لیکن یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی‘ پیٹر نے ایک دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے پوچھا ’’ پیٹر! تمہاری زندگی کا شان دار ترین وقت کون سا تھا؟‘‘ اس کے دماغ میں فوراً آٹھ سال کے پیٹر کی تصویر ابھری‘ اسے محسوس ہوا‘ اس کی زندگی کا شان دار ترین وقت وہ تھا‘ جب وہ کھیتوں‘ جنگلوں اور وادیوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور اندیشوں اور آلام کے سایوں نے ابھی جنم نہیں لیا تھا‘ پیٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے آخری بار دھاگا کھینچا‘ ٹک کی آواز آئی اور دھاگا ٹوٹ گیا۔ 

وہ اب اپنی قبر کے سرہانے کھڑا تھا‘ قبر پرانی بھی تھی‘ بوسیدہ بھی اور ویران بھی۔ قبر اپنے حالات کے منہ سے بول رہی تھی‘ مجھے مدت سے کسی نے نہیں دیکھا‘ میرے سرہانے کوئی نہیں آیا‘ کسی نے مجھ پر ایک پھول تک قربان نہیں کیا‘ پیٹر نے ہچکی لی اور اس کی آنکھ کھل گئی‘ وہ اسی طرح جنگل میں بیٹھا تھا‘ ہاتھ میں گیند تھی اور بڑھیا اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔

پیٹر نے گیند بڑھیا کو واپس کی اور اس سے پوچھا ’’وقت کیا ہے؟‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور بولی ’’وقت آج ہے‘ وقت لمحہ موجود ہے‘ آج سے پہلے افسوس تھا اور آج کے بعد حسرت ہو گی‘‘ پیٹر نے پوچھا ’’اور زندگی کیا ہے؟‘‘ بڑھیا نے جواب دیا ’’زندگی آج کو انجوائے کرنے کا نام ہے‘ آج کا دن‘ صرف آج کا دن‘ لمحہ موجود‘ جو لوگ آج میں بیٹھ کر گزرے کل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو آج میں بیٹھ کر مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں‘ ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا۔ 

انسان گزرے کل کو ٹھیک کر سکتا ہے اور نہ ہی آنے والے کل کو‘ یہ صرف آج کو ٹھیک کر سکتا ہے‘ یہ صرف آج کو درست رکھ سکتا ہے اور یہ صرف آج کو انجوائے کر سکتا ہے‘ تم آج آٹھ سال کے لڑکے ہو‘ تم اگلے سال نو سال کے ہو جاؤ گے‘ تم اس کے بعد کچھ بھی کر لو تم آٹھ سال میں واپس نہیں آ سکو گے چناںچہ اٹھو اور آٹھ سال کو انجوائے کرو‘ خود کو خوابوں میں ضایع نہ کرو کیوںکہ رابن ہڈ ہو یا پھر کنگ لیئر ہو‘ ان سب کا اختتام بہرحال ویران قبروں پر ہوتا ہے‘ دنیا میں ماضی اور مستقبل دونوں مر جاتے ہیں‘ صرف آج زندہ رہتا ہے چناںچہ زندہ میں زندہ رہو‘ ہمیشہ زندہ رہو گے‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور گیند سمیت غائب ہو گئی۔

پیٹر اٹھا اور وادی میں دوڑنے لگا‘ وہ اب آٹھویں سال کو انجوائے کر رہا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیٹر کی کہانی کو انجوائے کر چاہتا تھا کی وجہ سے رہتا تھا جاتا تھا میں بیٹھ تھا اور چکا تھا آٹھ سال بیٹھ کر سکتا ہے رہی تھی پیٹر نے رہا تھا تھی اور ہو گیا اور اس سال کا کا تھا وقت کو یہ صرف کی تھی

پڑھیں:

یہ کتا نہیں تھا، بکری تھی!

اسلام ٹائمز: کہاوت ہے کہ ایک کتا ندی سے نکلا، اس نے خود کو ہلایا اور قریب سے گزرنے والےراہگیر کے کپڑے اس کے نجس جسم سے اڑنے والے پانی کے قطروں اور چھینٹوں سے ناپاک ہو گئے۔ راہگیرکیساتھ ہی کھڑے اس کے ساتھی نے بے صبری سے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ گھبراو نہیں ، یہ کتا نہیں تھا، بکری تھی! اسی وقت کتے نے بھونکنا شروع کر دیا، کتے کے بھونکنے کی آواز سنتے ہی راہگیر نے سادگی سے کہا کہ دنیاکتنی عجیب ہو گئی ہے! بکری کو دیکھو، کتے کی آوازیں دی رہی ہے۔ ایک دلچسپ اور مختصر تحریر:

دنیا پر فریب اور دھوکا دہی کے ذریعے مسلط ممالک، گروہ، ادارے اور لابیز کھلم کھلا جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں، لیکن پھر بھی ترقی پذیر ممالک کے حکام سمجھتے بوجھتے ان مکاریوں سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں ایک کہاوت اور مثال سے عالمی ایٹمی ایجنسی کے ڈائریکٹر کے کردار کی وضاحت کی گئی ہے۔ جو نہ صرف ایرانی جوہری پروگرام کیخلاف سازشوں کا پردہ فاش کرتی ہے بلکہ پوری دنیا میں عالمی استعمار کی مکاریوں پر بھی صادق آتی ہے۔ رافیل گروسی نے ٹائمز اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران کے پاس اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دینے کی صلاحیت ہے اور وہ چند ہفتوں میں  یورینیم کی افزودگی کو 90 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔

اس بیان کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ گروسی نامی موساد کا اعلانیہ جاسوس سرکاری طور پر ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت اور اس میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے دشمن کو جواز فراہم کرنیکی کوشش کر رہا ہے۔ امریکن فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز (FDD) کے سی ای او جوناتھن اسکینزر نے بھی انکشاف کیا ہے کہ گروسی نے امریکہ کو جو معلومات دیں، ان ہی معلومات کا ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف امریکی آپریشن کو آگے بڑھانے میں موثر کردار تھا۔

ایران میں 90 فیصد یورینیم افزودگی کے امکان کے بارے میں گروسی کے حالیہ جھوٹ پر مبنی بیان کے بعد، فرانسیسی صدر نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں پوری ڈھٹائی سے کہا کہ ایران کو عالمی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون اور پابندیوں کی واپسی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہیے۔ کسی کو اب بھی شک ہے کہ گروسی موساد کے لیے جاسوسی کر رہا ہے اور اس کے ہاتھ ایران کے سائنسدانوں، کمانڈروں اور دیگر مظلوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں؟! کیا یہ تمام ثبوت یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟!"

ایک کہاوت ہے کہ ایک کتا ندی سے نکلا، اس نے جھری جھری لی اور قریب سے گزرنے والے راہگیر کے کپڑے اس کے نجس جسم سے اڑنے والے پانی کے قطروں اور چھینٹوں سے ناپاک ہو گئے۔ راہگیر کیساتھ ہی کھڑے اس کے ساتھی نے بے صبری سے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ گھبراو نہیں، یہ کتا نہیں تھا، یہ تو بکری تھی! اسی وقت کتے نے بھونکنا شروع کر دیا، کتے کے بھونکنے کی آواز سنتے ہی راہگیر نے سادگی سے کہا کہ دنیا کتنی عجیب ہو گئی ہے! بکری کو دیکھو، کتے کی آوازیں دی رہی ہے۔

دنیا میں عدم ایٹمی پھیلاو کا مسئول ہی جاسوس ہے، جنگ کیا رکے گی اور تشدد کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ ہر جنگ کا انحصار اس کے لئے کی گئی جاسوسی پر ہوتا ہے، لیکن ایران نے دشمن کے سارے ہتھکنڈے اور خواب چکنا چور کر دیئے ہیں۔ سادہ لوح عوام ان لوگوں کی باتوں اور بیانات پر سچ سمجھ کر اعتماد کرتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف ان عالمی فریبکار جھوٹوں کو بے نقاب کر رہا ہے بلکہ جھوٹ کا سہارا لیکر دوسروں کو دھمکانے کی سازشوں کو ناکام بھی بنا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مئی 2025
  • پرانے دوست!
  • غزہ میں کرنسی بھی مر گئی ہے
  • پنجاب بھر میں وائلڈ لائف کی کارروائیاں، غیرقانونی شکار پر بھاری جرمانے
  • یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر پیٹر وھیلَن کا لیکچر
  • کراچی۔۔۔ ایک بدقسمت شہر
  • لگژری لائف اسٹائل اور گوشواروں کے فرق کی فہرستیں تیار کرلی گئیں، فیصل واوڈا
  • لگژری لائف اسٹائل اور آمدن میں فرق پر ٹیکس دینا ہوگا، فیصل واوڈا
  • لگژری لائف اسٹائل اور گوشواروں کے فرق کی لسٹیں تیار کرلی گئی ہیں: فیصل واوڈا
  • یہ کتا نہیں تھا، بکری تھی!