Express News:
2025-11-12@07:51:35 GMT

اسٹوری آف لائف

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔ پیٹر کی عمر آٹھ سال تھی‘ وہ مشرقی یورپ کے کسی چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا‘ والدین زمین دار اور خوش حال تھے‘ پیٹر ان کی اکلوتی اولاد تھا‘ وہ خوب صورت بھی تھا‘ ذہین بھی اور مہذب بھی۔ پیٹر گاؤں کا بے مثال بچہ تھا‘ بس اس میں ایک خرابی تھی‘ وہ خرابی کیا تھی؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں‘ یہ صرف پیٹر کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ہم سب کی کہانی ہے۔ یہ کہانی ہماری کہانی کیسے ہے؟ہمیں یہ جاننے کے لیے پہلے پیٹر کی کہانی سننا ہو گی۔

پیٹر میں بس ایک خرابی تھی‘ وہ ’’ڈے ڈریمنگ‘‘ کا شکار تھا‘ وہ بیٹھے بیٹھے کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتا تھا‘ وہ لمحہ موجود میں زندہ نہیں رہتا تھا‘ وہ وقت کو کبھی آگے لے جاتا تھا اور کبھی پیچھے۔ وہ اکثر اوقات کلاس میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں بیس سال کا خوب صورت جوان بن جاتا تھا‘ وہ خود کو گھوڑے پر بیٹھا ہوا دیکھتا‘ گھوڑے کو ایڑھ لگاتا اور اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگتا‘ پیٹر خیالوں کی دنیا میں سفر کرتا ہوا کبھی جنگیں لڑتا‘ کبھی شہزادی کے محل میں پہنچ جاتا‘ کبھی کسی ملکہ کو اغواء کر کے گھوڑے پر بٹھاتا‘ گھوڑے کو وادیوں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں اور میدانوں میں دوڑاتا اور دشمنوں کے گھوڑوں کو اپنے پیچھے بھاگتا ہوا محسوس کرتا‘ وہ کبھی رابن ہڈ بن کر امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے لگتا اور وہ کبھی کبھی خود کو پوپ بھی محسوس کرنے لگتا‘۔

وہ سمجھتا وہ ویٹی کن سٹی میں پوپ کی بالکونی میں کھڑا ہے اور پوری دنیا بالکونی کے نیچے کھڑی ہو کر اس کی زیارت کر رہی ہے‘ وہ وقت کو آگے اور پیچھے لے جانے والے اس کھیل کو بہت انجوائے کرتا تھا‘ وہ گھنٹوں بیٹھ کر یہ کھیل کھیلتا تھا‘ دنیا میں اس کھیل میں اس سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں تھا‘ پیٹر کی خواہش تھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے وقت کو کنٹرول کرنا سیکھ لے‘ وہ جب چاہے وقت کو آگے لے جائے اور جب چاہے وقت کو ری ورس کر لے‘ وہ ہمہ وقت یہ خواہش لے کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔

آپ اللہ کی کرنی دیکھیے‘ پیٹر ایک دن جنگل سے گزر رہا تھا‘ پیٹر کو ٹھوکر لگی‘ وہ گرا اور بے ہوش ہو گیا‘ آنکھ کھلی تو اس نے ایک بڑھیا کو اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا‘ یہ بڑھیا وقت تھی‘ وقت نے پیٹر سے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی‘ پیٹر نے کہا ’’میں چاہتا ہوں‘ میں جب چاہوں‘ میں وقت کو آگے پیچھے لے جا سکوں‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’بے وقوف بچے! وقت دریا ہے‘ یہ آگے کی طرف بہتا ہے‘ یہ پیچھے نہیں جاتا‘ میں تمہیں صرف وقت میں‘ صرف آگے بہنے کا طریقہ بتا سکتی ہوں‘‘۔

پیٹر مان گیا‘ بڑھیا نے اسے ایک گیند دی‘ گیند سے ایک دھاگا باہر لٹک رہا تھا‘ بڑھیا نے اسے بتایا‘ یہ دھاگا تمہاری زندگی جتنا طویل ہے‘ تم اس دھاگے کو جتنا باہر کھینچ لو گے‘ تم وقت میں اتنا ہی آگے چلے جاؤ گے‘ پیٹر خوش ہو گیا‘ بڑھیا چلی گئی‘ پیٹر نے تھوڑا سا دھاگا کھینچا‘ ٹرررر‘ ٹرررز کی آواز آئی اور پیٹر دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب اٹھارہ سال کا خوب صورت جوان تھا‘ وہ جوانی کی ایڑھیوں پر چلتا تھا اور شہر کی حسین خواتین بالکونی میں کھڑی ہو کر اسے دیکھتی تھیں‘ پیٹر جوانی کو انجوائے کرنے لگا‘۔

پیٹر نے دیکھا‘ اس کے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں‘ گاؤں کے سمجھ دار اور سیانے لوگ انتقال کر چکے ہیں اور گاؤں کا سائز بڑا ہو چکا ہے‘ پیٹر چند ماہ اس ٹائم فریم میں رہا‘ اکتاہٹ ہوئی تو اس نے صندوق سے گیند نکالا اور دھاگا کھینچ دیا‘ وہ مزید دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 28 سال کا جوان تھا‘ کھلنڈرے پن کی عمر گزر چکی تھی‘ وہ اب زندگی میں سیٹل ہونا چاہتا تھا‘ والدین بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور بیمار بھی۔

زمینیں بک رہی تھیں‘ گھوڑے نیلام ہو رہے تھے اور جمع پونجی خرچ ہو رہی تھی‘ ملازم ملازمت چھوڑ کر جا رہے تھے‘ پیٹر نے ملازمت کی کوشش کی لیکن وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا‘ کاروباری کوشش کی لیکن ناتجربہ کاری‘ سستی اور لاابالی پن سے مار کھا گیا اور سیاست میں قدم رکھا مگر اس میں بھی فیل ہو گیا‘ غیر سنجیدہ ماضی کی وجہ سے دوست احباب بھی ساتھ چھوڑ رہے تھے‘ وہ اب گاؤں میں مارا مارا پھرتا تھا اور اپنی بے مقصد زندگی کو کوستا تھا۔ 

پیٹر چند دن میں زندگی کے اس فیز سے بھی اکتا گیا‘ اس نے گیند نکالی‘ دھاگا کھینچا اور 38 سال کا ہو گیا‘ اس کی زندگی اب سیٹل ہو چکی تھی‘ سرکے بال کم ہو گئے تھے‘ کنپٹیاں سفید ہو رہی تھیں‘ گردن کے پچھلے مہروں میں اب ہلکی ہلکی درد رہتی تھی‘ محلے کی لڑکی ریٹا سے شادی بھی ہو چکی تھی اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے‘ ماں دو برس قبل انتقال کر گئی‘ باپ معذور ہوچکا تھا اور وہ اب سارا سارا دن وہیل چیئر پر بیٹھا رہتا تھا‘ بڑی حویلی اور فارم ہاؤس بک چکے تھے‘ وہ اب چھوٹے گھر میں رہتے تھے‘ بیوی اچار چٹنیاں بناتی تھی اور وہ بازار میں بیچ دیتا تھا‘ شام کے وقت گاؤں کے پب میں بیٹھ جاتا تھا اور بس یہ تھی زندگی۔

پیٹر نے گھبرا کر زور سے دھاگا کھینچ دیا‘ وہ اس بار بیس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 58 برس کا تھا‘ بچے جوان ہو کر شہر جا چکے تھے‘ گھر مزید چھوٹا ہو گیا تھا‘ بیوی ریٹا کے گردے فیل ہو چکے تھے‘ وہ پیٹ پر بیگ لگا کرزندگی گزار رہی تھی‘ محلے کے تمام پرانے لوگ مر چکے تھے‘ گاؤں قصبہ بن گیا تھا اور اس میں ہر وقت شور ہوتا رہتا تھا‘ وہ باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے اپنے کولہے کی ہڈی بھی تڑوا چکا تھا‘ ہڈی جڑ گئی لیکن اس کی چال میں جھول آ گیا۔ 

وہ اب چلتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہلکا سا جھکتا تھا‘ بڑا بیٹا شہر سے پیسے بھجوا دیتا تو دونوں میاں بیوی تین وقت کھانا کھا لیتے تھے‘ پیسے نہیں آتے تھے تو وہ آلو ابال کر کھا لیتے تھے‘ گھر میں سرے شام اندھیرا ہو جاتا تھااور اس کے بعد وہاں دونوں میاں بیوی کی کھانسی کی آوازیں ہوتی تھیں‘ پیٹر لائف کے اس فیز سے بھی گھبرا گیا‘ اس نے گیند نکالی اور دھاگا کھینچ دیا‘ وہ اب 68 سال کا ہو چکا تھا‘ بیوی فوت ہو گئی تھی‘ مکان بک گیا تھا‘ وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا‘ تمام دوست‘ احباب‘ رشتے دار مر چکے تھے‘ ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی تھی اور ٹیلی ویژن انٹرنیٹ میں تبدیل ہو رہا تھا۔ 

پیٹر کے پھیپھڑوں میں اب پانی بھی بھر جاتا تھا اور حلق میں بلغم بھی آتی تھی‘ وہ چلنے پھرنے سے بھی تقریباً معذور ہو چکا تھا‘ بھوک نہیں لگتی تھی اور اگر لگتی تھی تو کھانا نہیں ملتا تھا‘ کھانا مل جاتا تو دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھا نہیں پاتا تھا اور اگر وہ کھانا کھا لیتا تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور اگر کھانا ہضم ہو جاتا تو قبض ہو جاتی تھی اور قبض بھوک سے زیادہ اذیت ناک ہوتی تھی‘ زندگی خوف ناک بلکہ عبرت ناک صورت حال اختیار کر چکی تھی۔

پیٹر سارا سارا دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا رہتا تھا‘ وہ کتابیں پڑھنا چاہتا تھا لیکن نظر کی کمزوری آڑے آ جاتی تھی‘ وہ میوزک سننا چاہتا تھا لیکن کان کام نہیں کرتے تھے‘ وہ ماضی کو یاد کرنا چاہتا تھا لیکن یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی‘ پیٹر نے ایک دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے پوچھا ’’ پیٹر! تمہاری زندگی کا شان دار ترین وقت کون سا تھا؟‘‘ اس کے دماغ میں فوراً آٹھ سال کے پیٹر کی تصویر ابھری‘ اسے محسوس ہوا‘ اس کی زندگی کا شان دار ترین وقت وہ تھا‘ جب وہ کھیتوں‘ جنگلوں اور وادیوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور اندیشوں اور آلام کے سایوں نے ابھی جنم نہیں لیا تھا‘ پیٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے آخری بار دھاگا کھینچا‘ ٹک کی آواز آئی اور دھاگا ٹوٹ گیا۔ 

وہ اب اپنی قبر کے سرہانے کھڑا تھا‘ قبر پرانی بھی تھی‘ بوسیدہ بھی اور ویران بھی۔ قبر اپنے حالات کے منہ سے بول رہی تھی‘ مجھے مدت سے کسی نے نہیں دیکھا‘ میرے سرہانے کوئی نہیں آیا‘ کسی نے مجھ پر ایک پھول تک قربان نہیں کیا‘ پیٹر نے ہچکی لی اور اس کی آنکھ کھل گئی‘ وہ اسی طرح جنگل میں بیٹھا تھا‘ ہاتھ میں گیند تھی اور بڑھیا اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔

پیٹر نے گیند بڑھیا کو واپس کی اور اس سے پوچھا ’’وقت کیا ہے؟‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور بولی ’’وقت آج ہے‘ وقت لمحہ موجود ہے‘ آج سے پہلے افسوس تھا اور آج کے بعد حسرت ہو گی‘‘ پیٹر نے پوچھا ’’اور زندگی کیا ہے؟‘‘ بڑھیا نے جواب دیا ’’زندگی آج کو انجوائے کرنے کا نام ہے‘ آج کا دن‘ صرف آج کا دن‘ لمحہ موجود‘ جو لوگ آج میں بیٹھ کر گزرے کل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو آج میں بیٹھ کر مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں‘ ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا۔ 

انسان گزرے کل کو ٹھیک کر سکتا ہے اور نہ ہی آنے والے کل کو‘ یہ صرف آج کو ٹھیک کر سکتا ہے‘ یہ صرف آج کو درست رکھ سکتا ہے اور یہ صرف آج کو انجوائے کر سکتا ہے‘ تم آج آٹھ سال کے لڑکے ہو‘ تم اگلے سال نو سال کے ہو جاؤ گے‘ تم اس کے بعد کچھ بھی کر لو تم آٹھ سال میں واپس نہیں آ سکو گے چناںچہ اٹھو اور آٹھ سال کو انجوائے کرو‘ خود کو خوابوں میں ضایع نہ کرو کیوںکہ رابن ہڈ ہو یا پھر کنگ لیئر ہو‘ ان سب کا اختتام بہرحال ویران قبروں پر ہوتا ہے‘ دنیا میں ماضی اور مستقبل دونوں مر جاتے ہیں‘ صرف آج زندہ رہتا ہے چناںچہ زندہ میں زندہ رہو‘ ہمیشہ زندہ رہو گے‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور گیند سمیت غائب ہو گئی۔

پیٹر اٹھا اور وادی میں دوڑنے لگا‘ وہ اب آٹھویں سال کو انجوائے کر رہا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیٹر کی کہانی کو انجوائے کر چاہتا تھا کی وجہ سے رہتا تھا جاتا تھا میں بیٹھ تھا اور چکا تھا آٹھ سال بیٹھ کر سکتا ہے رہی تھی پیٹر نے رہا تھا تھی اور ہو گیا اور اس سال کا کا تھا وقت کو یہ صرف کی تھی

پڑھیں:

نفرت اور محبت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251111-03-4

 

غزالہ عزیز

لوگ حیران ہوتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کب قائم ہوا وہ بھی اتنا گہرا کہ امریکا اپنا امیج، اپنا فائدہ دونوں کی پروا نہ کرے دنیا میں اٹھتے نفرت کے طوفان کو نظر انداز کر دے۔ آپ کا کیا خیال ہے اسرائیل کی غزہ میں درندگی، قتل و غارت گری اور نسل کشی میں امریکا کی پشت پناہی دنیا کو نظر نہیں آرہی؟؟ سب جانتے ہیں بس بولتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ نفرت جو اسرائیل کے لیے ہے وہ امریکا کے لیے بھی موجود ہے اظہار کرتے خوف کھاتے ہیں۔

 

امریکا اسرائیل اتحاد کی کم از کم پچاس سالہ طویل تاریخ ہے اور یہ اتحاد قائم کرنے میں سب سے زیادہ جو کردار تھا وہ اسرائیل کی سابق وزیراعظم گولڈا میئر کا تھا اگرچہ وہ اس وقت وزیر خارجہ تھی لیکن انہوں نے اس بات کے لیے اقوام متحدہ کو تیار کیا کہ اسرائیل کی آواز کو سنا جائے اور مانا جائے انہوں نے امریکا کو اس وقت یعنی1956 میں اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے پر بھی راضی کیا اگر چہ ان کے درمیان اس وقت اتنی قربت نہیں تھی لیکن گولڈا مئیر ایک ایسی شخصیت تھیں جنہوں نے اسرائیل کو 1967 میں چھے دن کی جنگ میں اسرائیلی کو شاندار عسکری کامیابی دلائی لیکن چونکہ جنگ میں اسرائیل کے 2700 فوجی ہلاک ہوئے تھے لہٰذا اس جنگ کو گولڈن مئیر کی ناکامی کے طور پر دیکھا گیا انہوں نے جنگ کے بعد وزیراعظم کے عہدے سے استعفا دے دیا وجہ اتنی بڑی تعداد میں اسرائیلی سپاہیوں کی ہلاکت تھی وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا کہ مصر اور شام حملہ کریں گے حالانکہ انہیں اردن کے بادشاہ کی جانب سے مطلع کیا جا چکا تھا انہوں نے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنٹوں کی بات پر اعتبار تھا جنہوں نے اس کو سنجیدہ خطرہ قرار نہیں دیا تھا مگر جب شام اور مصر نے ایک ساتھ اسرائیل پہ حملہ کیا تو اسرائیلی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں ہلاک ہوئی جس کی وجہ سے اسرائیل کی شاندار عسکری کامیابی نے گولڈن مئیر کو سیاسی طور پر مضبوط نہیں بلکہ کمزور بنایا بہت سے اسرائیلی اسی وجہ سے انہیں اسرائیل کی تاریخ کا بدترین وزیراعظم قرار دیتے ہیں۔

 

پچھلے دنوں گولڈا مئیر کے پوتے نے اسرائیل کی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جنگ کے بعد سابق وزیراعظم کے لیے خاص طور پر ان کے حامیوں کی طرف سے گولڈا مئیر کے ساتھ نفرت اور ان کے حامیوں کے ساتھ نفرت میں عورت سے نفرت ایک سخت نا انصافی تھی یعنی ان کا عورت ہونا اگر چہ انہوں نے ریاست کے لیے انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست کے قیام کے دوسرے پہلو پر غور کرنے میں ناکام اور نا اہل تھیں اور اسی لیے فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنا پڑا یہ دوسرا پہلو کیا تھا یہ دوسرا پہلو فلسطینیوں کی وہاں موجودگی تھی جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست میں ایک آزاد فلسطینی عوام کب تھے ایسا نہیں تھا کہ فلسطین میں کوئی فلسطین تھا جو اپنے آپ کو فلسطینی قوم سمجھتا تھا اور ہم نے آکر انہیں باہر نکال دیا اور ان کا ملک چھین لیا وہ یہاں موجود ہی نہیں تھے ان کی یہ بات اور اسرائیل کی تخلیق اس بات کی علامت ہے کہ فلسطینیوں کی شناخت کو نظر انداز کیا گیا، مسلم امہ خاص طور سے عرب خاموش رہے بلکہ اسرائیل کو مدد دی جو آج بھی اسی طرح ہے لیکن آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے سمجھ رہی ہے اور مظلوم کا ساتھ دینے کے لیے یکجا بھی ہے آج سوشل میڈیا عوام کو سچ بتانے اور سمجھانے کے لیے بہت اہم ہے۔

 

گولڈا مئیر کے یہ جملے اگر آج بولے گئے ہوتے تو سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھا دینے میں کامیاب ہو جاتے آج سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں ہے اور نہ کیا جا سکتا ہے لوگوں کا روایتی میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا پر اعتبار بڑھ گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان کے دسترس میں ہے یہاں وہ کسی سے کسی بھی وقت سوال کر سکتے ہیں ثبوت مانگ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ بات کرنے والا کتنا معتبر اور اس کی بات میں کس قدر وزن ہے لہٰذا دنیا بھر کے اور پاکستان کے عوام کے لیے سوشل میڈیا خصوصاً ٹویٹر ایک نئی طاقت اور ایک نیا ہتھیار ہے۔

 

غزالہ عزیز

متعلقہ مضامین

  • میں نے ہار نہیں مانی
  • برطانیہ میں چند روز۔ وطن سے دوری کی تپش
  • حیرانی
  • ایکو ٹورزم منصوبے فطری مقامات کو جدید سیاحتی مراکز میں بدل رہے ہیں، مریم نواز
  • لندن کے سی لائف ایکویریم میں پینگوئنز کی طویل قید، برطانوی ارکان پارلیمان کا رہائی کا مطالبہ
  • ساری اُمیدیں ختم ہو چکی ہیں!
  • سنو تم ستارے ہو!
  • نفرت اور محبت
  • کوچۂ سخن
  • اسمگلنگ سے بچائے گئے اڑیال کے تین بچوں کی مصنوعی خوراک پر کامیاب پرورش