یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔ پیٹر کی عمر آٹھ سال تھی‘ وہ مشرقی یورپ کے کسی چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا‘ والدین زمین دار اور خوش حال تھے‘ پیٹر ان کی اکلوتی اولاد تھا‘ وہ خوب صورت بھی تھا‘ ذہین بھی اور مہذب بھی۔ پیٹر گاؤں کا بے مثال بچہ تھا‘ بس اس میں ایک خرابی تھی‘ وہ خرابی کیا تھی؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں‘ یہ صرف پیٹر کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ہم سب کی کہانی ہے۔ یہ کہانی ہماری کہانی کیسے ہے؟ہمیں یہ جاننے کے لیے پہلے پیٹر کی کہانی سننا ہو گی۔
پیٹر میں بس ایک خرابی تھی‘ وہ ’’ڈے ڈریمنگ‘‘ کا شکار تھا‘ وہ بیٹھے بیٹھے کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتا تھا‘ وہ لمحہ موجود میں زندہ نہیں رہتا تھا‘ وہ وقت کو کبھی آگے لے جاتا تھا اور کبھی پیچھے۔ وہ اکثر اوقات کلاس میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں بیس سال کا خوب صورت جوان بن جاتا تھا‘ وہ خود کو گھوڑے پر بیٹھا ہوا دیکھتا‘ گھوڑے کو ایڑھ لگاتا اور اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگتا‘ پیٹر خیالوں کی دنیا میں سفر کرتا ہوا کبھی جنگیں لڑتا‘ کبھی شہزادی کے محل میں پہنچ جاتا‘ کبھی کسی ملکہ کو اغواء کر کے گھوڑے پر بٹھاتا‘ گھوڑے کو وادیوں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں اور میدانوں میں دوڑاتا اور دشمنوں کے گھوڑوں کو اپنے پیچھے بھاگتا ہوا محسوس کرتا‘ وہ کبھی رابن ہڈ بن کر امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے لگتا اور وہ کبھی کبھی خود کو پوپ بھی محسوس کرنے لگتا‘۔
وہ سمجھتا وہ ویٹی کن سٹی میں پوپ کی بالکونی میں کھڑا ہے اور پوری دنیا بالکونی کے نیچے کھڑی ہو کر اس کی زیارت کر رہی ہے‘ وہ وقت کو آگے اور پیچھے لے جانے والے اس کھیل کو بہت انجوائے کرتا تھا‘ وہ گھنٹوں بیٹھ کر یہ کھیل کھیلتا تھا‘ دنیا میں اس کھیل میں اس سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں تھا‘ پیٹر کی خواہش تھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے وقت کو کنٹرول کرنا سیکھ لے‘ وہ جب چاہے وقت کو آگے لے جائے اور جب چاہے وقت کو ری ورس کر لے‘ وہ ہمہ وقت یہ خواہش لے کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔
آپ اللہ کی کرنی دیکھیے‘ پیٹر ایک دن جنگل سے گزر رہا تھا‘ پیٹر کو ٹھوکر لگی‘ وہ گرا اور بے ہوش ہو گیا‘ آنکھ کھلی تو اس نے ایک بڑھیا کو اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا‘ یہ بڑھیا وقت تھی‘ وقت نے پیٹر سے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی‘ پیٹر نے کہا ’’میں چاہتا ہوں‘ میں جب چاہوں‘ میں وقت کو آگے پیچھے لے جا سکوں‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’بے وقوف بچے! وقت دریا ہے‘ یہ آگے کی طرف بہتا ہے‘ یہ پیچھے نہیں جاتا‘ میں تمہیں صرف وقت میں‘ صرف آگے بہنے کا طریقہ بتا سکتی ہوں‘‘۔
پیٹر مان گیا‘ بڑھیا نے اسے ایک گیند دی‘ گیند سے ایک دھاگا باہر لٹک رہا تھا‘ بڑھیا نے اسے بتایا‘ یہ دھاگا تمہاری زندگی جتنا طویل ہے‘ تم اس دھاگے کو جتنا باہر کھینچ لو گے‘ تم وقت میں اتنا ہی آگے چلے جاؤ گے‘ پیٹر خوش ہو گیا‘ بڑھیا چلی گئی‘ پیٹر نے تھوڑا سا دھاگا کھینچا‘ ٹرررر‘ ٹرررز کی آواز آئی اور پیٹر دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب اٹھارہ سال کا خوب صورت جوان تھا‘ وہ جوانی کی ایڑھیوں پر چلتا تھا اور شہر کی حسین خواتین بالکونی میں کھڑی ہو کر اسے دیکھتی تھیں‘ پیٹر جوانی کو انجوائے کرنے لگا‘۔
پیٹر نے دیکھا‘ اس کے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں‘ گاؤں کے سمجھ دار اور سیانے لوگ انتقال کر چکے ہیں اور گاؤں کا سائز بڑا ہو چکا ہے‘ پیٹر چند ماہ اس ٹائم فریم میں رہا‘ اکتاہٹ ہوئی تو اس نے صندوق سے گیند نکالا اور دھاگا کھینچ دیا‘ وہ مزید دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 28 سال کا جوان تھا‘ کھلنڈرے پن کی عمر گزر چکی تھی‘ وہ اب زندگی میں سیٹل ہونا چاہتا تھا‘ والدین بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور بیمار بھی۔
زمینیں بک رہی تھیں‘ گھوڑے نیلام ہو رہے تھے اور جمع پونجی خرچ ہو رہی تھی‘ ملازم ملازمت چھوڑ کر جا رہے تھے‘ پیٹر نے ملازمت کی کوشش کی لیکن وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا‘ کاروباری کوشش کی لیکن ناتجربہ کاری‘ سستی اور لاابالی پن سے مار کھا گیا اور سیاست میں قدم رکھا مگر اس میں بھی فیل ہو گیا‘ غیر سنجیدہ ماضی کی وجہ سے دوست احباب بھی ساتھ چھوڑ رہے تھے‘ وہ اب گاؤں میں مارا مارا پھرتا تھا اور اپنی بے مقصد زندگی کو کوستا تھا۔
پیٹر چند دن میں زندگی کے اس فیز سے بھی اکتا گیا‘ اس نے گیند نکالی‘ دھاگا کھینچا اور 38 سال کا ہو گیا‘ اس کی زندگی اب سیٹل ہو چکی تھی‘ سرکے بال کم ہو گئے تھے‘ کنپٹیاں سفید ہو رہی تھیں‘ گردن کے پچھلے مہروں میں اب ہلکی ہلکی درد رہتی تھی‘ محلے کی لڑکی ریٹا سے شادی بھی ہو چکی تھی اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے‘ ماں دو برس قبل انتقال کر گئی‘ باپ معذور ہوچکا تھا اور وہ اب سارا سارا دن وہیل چیئر پر بیٹھا رہتا تھا‘ بڑی حویلی اور فارم ہاؤس بک چکے تھے‘ وہ اب چھوٹے گھر میں رہتے تھے‘ بیوی اچار چٹنیاں بناتی تھی اور وہ بازار میں بیچ دیتا تھا‘ شام کے وقت گاؤں کے پب میں بیٹھ جاتا تھا اور بس یہ تھی زندگی۔
پیٹر نے گھبرا کر زور سے دھاگا کھینچ دیا‘ وہ اس بار بیس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 58 برس کا تھا‘ بچے جوان ہو کر شہر جا چکے تھے‘ گھر مزید چھوٹا ہو گیا تھا‘ بیوی ریٹا کے گردے فیل ہو چکے تھے‘ وہ پیٹ پر بیگ لگا کرزندگی گزار رہی تھی‘ محلے کے تمام پرانے لوگ مر چکے تھے‘ گاؤں قصبہ بن گیا تھا اور اس میں ہر وقت شور ہوتا رہتا تھا‘ وہ باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے اپنے کولہے کی ہڈی بھی تڑوا چکا تھا‘ ہڈی جڑ گئی لیکن اس کی چال میں جھول آ گیا۔
وہ اب چلتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہلکا سا جھکتا تھا‘ بڑا بیٹا شہر سے پیسے بھجوا دیتا تو دونوں میاں بیوی تین وقت کھانا کھا لیتے تھے‘ پیسے نہیں آتے تھے تو وہ آلو ابال کر کھا لیتے تھے‘ گھر میں سرے شام اندھیرا ہو جاتا تھااور اس کے بعد وہاں دونوں میاں بیوی کی کھانسی کی آوازیں ہوتی تھیں‘ پیٹر لائف کے اس فیز سے بھی گھبرا گیا‘ اس نے گیند نکالی اور دھاگا کھینچ دیا‘ وہ اب 68 سال کا ہو چکا تھا‘ بیوی فوت ہو گئی تھی‘ مکان بک گیا تھا‘ وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا‘ تمام دوست‘ احباب‘ رشتے دار مر چکے تھے‘ ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی تھی اور ٹیلی ویژن انٹرنیٹ میں تبدیل ہو رہا تھا۔
پیٹر کے پھیپھڑوں میں اب پانی بھی بھر جاتا تھا اور حلق میں بلغم بھی آتی تھی‘ وہ چلنے پھرنے سے بھی تقریباً معذور ہو چکا تھا‘ بھوک نہیں لگتی تھی اور اگر لگتی تھی تو کھانا نہیں ملتا تھا‘ کھانا مل جاتا تو دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھا نہیں پاتا تھا اور اگر وہ کھانا کھا لیتا تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور اگر کھانا ہضم ہو جاتا تو قبض ہو جاتی تھی اور قبض بھوک سے زیادہ اذیت ناک ہوتی تھی‘ زندگی خوف ناک بلکہ عبرت ناک صورت حال اختیار کر چکی تھی۔
پیٹر سارا سارا دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا رہتا تھا‘ وہ کتابیں پڑھنا چاہتا تھا لیکن نظر کی کمزوری آڑے آ جاتی تھی‘ وہ میوزک سننا چاہتا تھا لیکن کان کام نہیں کرتے تھے‘ وہ ماضی کو یاد کرنا چاہتا تھا لیکن یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی‘ پیٹر نے ایک دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے پوچھا ’’ پیٹر! تمہاری زندگی کا شان دار ترین وقت کون سا تھا؟‘‘ اس کے دماغ میں فوراً آٹھ سال کے پیٹر کی تصویر ابھری‘ اسے محسوس ہوا‘ اس کی زندگی کا شان دار ترین وقت وہ تھا‘ جب وہ کھیتوں‘ جنگلوں اور وادیوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور اندیشوں اور آلام کے سایوں نے ابھی جنم نہیں لیا تھا‘ پیٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے آخری بار دھاگا کھینچا‘ ٹک کی آواز آئی اور دھاگا ٹوٹ گیا۔
وہ اب اپنی قبر کے سرہانے کھڑا تھا‘ قبر پرانی بھی تھی‘ بوسیدہ بھی اور ویران بھی۔ قبر اپنے حالات کے منہ سے بول رہی تھی‘ مجھے مدت سے کسی نے نہیں دیکھا‘ میرے سرہانے کوئی نہیں آیا‘ کسی نے مجھ پر ایک پھول تک قربان نہیں کیا‘ پیٹر نے ہچکی لی اور اس کی آنکھ کھل گئی‘ وہ اسی طرح جنگل میں بیٹھا تھا‘ ہاتھ میں گیند تھی اور بڑھیا اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔
پیٹر نے گیند بڑھیا کو واپس کی اور اس سے پوچھا ’’وقت کیا ہے؟‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور بولی ’’وقت آج ہے‘ وقت لمحہ موجود ہے‘ آج سے پہلے افسوس تھا اور آج کے بعد حسرت ہو گی‘‘ پیٹر نے پوچھا ’’اور زندگی کیا ہے؟‘‘ بڑھیا نے جواب دیا ’’زندگی آج کو انجوائے کرنے کا نام ہے‘ آج کا دن‘ صرف آج کا دن‘ لمحہ موجود‘ جو لوگ آج میں بیٹھ کر گزرے کل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو آج میں بیٹھ کر مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں‘ ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا۔
انسان گزرے کل کو ٹھیک کر سکتا ہے اور نہ ہی آنے والے کل کو‘ یہ صرف آج کو ٹھیک کر سکتا ہے‘ یہ صرف آج کو درست رکھ سکتا ہے اور یہ صرف آج کو انجوائے کر سکتا ہے‘ تم آج آٹھ سال کے لڑکے ہو‘ تم اگلے سال نو سال کے ہو جاؤ گے‘ تم اس کے بعد کچھ بھی کر لو تم آٹھ سال میں واپس نہیں آ سکو گے چناںچہ اٹھو اور آٹھ سال کو انجوائے کرو‘ خود کو خوابوں میں ضایع نہ کرو کیوںکہ رابن ہڈ ہو یا پھر کنگ لیئر ہو‘ ان سب کا اختتام بہرحال ویران قبروں پر ہوتا ہے‘ دنیا میں ماضی اور مستقبل دونوں مر جاتے ہیں‘ صرف آج زندہ رہتا ہے چناںچہ زندہ میں زندہ رہو‘ ہمیشہ زندہ رہو گے‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور گیند سمیت غائب ہو گئی۔
پیٹر اٹھا اور وادی میں دوڑنے لگا‘ وہ اب آٹھویں سال کو انجوائے کر رہا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیٹر کی کہانی کو انجوائے کر چاہتا تھا کی وجہ سے رہتا تھا جاتا تھا میں بیٹھ تھا اور چکا تھا آٹھ سال بیٹھ کر سکتا ہے رہی تھی پیٹر نے رہا تھا تھی اور ہو گیا اور اس سال کا کا تھا وقت کو یہ صرف کی تھی
پڑھیں:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
بجٹ کی سالانہ رسم سے عوام کی دلچسپی ہر گزرتے سال کم ہوئی ہے۔ جو تھوڑی بہت دلچسپی باقی ہے، وہ بھی اس یقین کی تشفی کے لیے ہے کہ بجٹ میں کہیں کوئی بھولا بھٹکا ریلیف تو نہیں آن گھسا، یا کوئی ایسی تبدیلی تو بھول چوک سے شامل نہیں ہوگئی جس سے خلق خدا کو اشرافیہ کے شکنجے سے کچھ آسودگی میسر ہو۔شہر اقتدار میں اقتدار پر متمکن چہرے بدلے، سیاسی جماعتیں بدلیں، بیانئے بدلے لیکن بجٹ ترجیحات اور اشرافیہ کا مزاج ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والا ہی رہا۔
نئے سال کا یہ بجٹ بھی حسب معمول ’’ تاریخی‘‘ تھا، قومی اسمبلی میں منظوری سے قبل سوچی سمجھی عجلت میں کئی ترامیم جھٹ سے پیش ہوئیں اور کھٹ سے منظور ہوئیں۔ حسب معمول اپوزیشن کی تمام تجاویز رد کردی گئیں۔ یوں پارلیمانی نظام میں بجٹ سازی کا عمل مکمل ہو گیا، اللہ اللہ خیر صلا۔
لاہور کے ایک پالیسی ڈائیلاگ فورم، لاہور گورننس فورم ، نے گزشتہ ہفتے وفاقی بجٹ پر گفتگو کے لیے ایک محفل کا اہتمام کیا۔ معروف اکانومسٹ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری نے بجٹ کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔ خلاصہ یہ تھا کہ بجٹ کا سال اور نام تبدیل ہوا ہے لیکن وسائل کے حصول اور اخراجات کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
حسب معمول قرضوں کی ادائیگی اور سود سب سے بڑے قومی اخراجات ہیں۔ اس کے بعد ڈیفنس ، انتظامی اخراجات، پینشن اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کو جگہ ملی۔ آئی ایم ایف کی ہدایات اور سخت شرائط کے نتیجے میں مجموعی معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں لیکن اس کی بھاری کی قیمت جی ڈی پی گروتھ کی صورت میں ادا کرنی پڑی ہے۔ معاشی ڈھانچے میں کسی بھی قسم کی جوہری تبدیلی کا اشارہ حالیہ بجٹ سے نہیں ملتا۔
میکرو ایکنامک اشاریوں پر توجہ اپنی جگہ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر معیشت کے پیداواری شعبوں میں پیداواری صلاحیت بڑھانے، نئی انویسٹمنٹ اور نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم کرنے کے منصوبوں کی از حد ضرورت ہے۔
ڈاکٹر احسن رانا جو ایک معروف نجی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ حکومت براہ راست ٹیکسز بڑھانے میں یا تو ناکام رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹیکس ریونیو میں بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح مسلسل بڑھی ہے۔ ان کی ایک تخصیص یہ ہے کہ وہ حکومتی نظام کا ایک اہم کل پرزہ رہے لیکن بعد میں لکھنے پڑھنے سے شغف پال لیا۔ پی ایچ ڈی کی اور سرکاری نوکری تج کر یونیورسٹی تدریس کو اپنا لیا۔
انھوں نے پاکستان کے معاشی نظام پر ایک وقیع اور منفرد تحقیقی کتاب ’’ ہیں کواکب کچھ… سرمایہ دارانہ فلاحی نظام، مفروضے اور حقائق‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ محنت کش طبقات کی فلاح اور معاشی نظام میں ان کے لیے سکڑتی ہوئی ترجیحات ان کی تحقیق کا مستقل موضوع ہیں۔
اپنے تحقیقی کام کی مناسبت سے انھوں نے بجٹ میں کئی نکات کی نشاندہی کی جن کی وجہ سے موجودہ معاشی نظام فرسودہ ہو چکا ہے اور عام آدمی کے لیے ریلیف کے قابل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں موجودہ معاشی نظام آئی ایم ایف کی شرائط اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا پرتو ہے جس میں محنت کش طبقات کی شنوائی نہ ہونے کے برابر ہے، مقتدر اشرافیہ گاہے دھڑلے سے مفادات اور فوائد سمیٹنے کے چلن پر کاربند ہے۔ حالیہ بجٹ اسی چلن کا تسلسل ہے۔
اس موقعے پر ان کی کتاب ’’ ہیں کواکب کچھ‘‘ (پبلشر بک کارنر جہلم) کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور محنت کش طبقات کے مابین کشمکش کو سمجھنے اور ممکنہ حل کے تلاش میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر احسن رانا کے نزدیک سرمایہ دارانہ معاشروں میں موجود نام نہاد فلاحی نظام روایتی ’’خراج‘‘ کی دوسری شکل ہے، تاہم محروم طبقات سے ٹیکس کی صورت میں یہ خراج وصول کر کے اشرافیہ اس کا بڑا حصہ اپنی شاہ خرچیوں ، مراعات اور سہولتوں پر صرف کرنے پر کمر بستہ رہتا ہے لیکن محنت کش طبقات کو رعایت دینے پر آمادہ نہیں۔
ان کی یہ تصنیف پاکستان کے فلاحی نظام کے اندرونی تضادات، ناانصافیوں اور کجیوں کی ایک چشم کشا داستان ہے۔ یہ کتاب اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ پاکستان کے کروڑوں عوام کو آج جس درجہ درماندگی اور زبوں حالی کا سامنا ہے اس کا سبب تقدیر کا جبر یا دستیاب وسائل کی کمی نہیں بلکہ ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کے لوٹ مار اور چیرہ دستیوں میں پنہاں ہے۔ان کے بقول پاکستان کے صنعت کاروں ، بڑے تاجروں، بڑے ذمینداروں، سیاست دانوں، حکمرانوں اور محنت کشوں کے بل پر پھلنے پھولنے والے مراعات یافتہ یہ گروہ ہمارے پیداواری عمل اور اس کے ثمرات کی تقسیم کے نظام کو مکمل طور پر یرغمال بنا چکا ہے۔
ایک معروف دانشور ایوان الیچ کے بقول اگر آپ کسی معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو نیا اور متبادل بیانیہ تخلیق کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر احسن رانا کی یہ انتہائی اہم اور پر مغز کتاب پاکستان کے بارے میں اسی متبادل بیانیے کی ایک کامیاب کاوش ہے۔ مصنف کے بقول یہ کتاب اردو میں لکھنے کے کئی سبب ہیں۔
ان کے بقول اس موضوع پر اردو میں کتابیں بہت کم لکھی گئی ہیں۔1980 کی دہائی تک اردو میں سنجیدہ مباحثے کی شاندار روایت قائم رہی جس میں سجاد ظہیر ، سبط حسن اور علی عباس جلال پوری جیسے کئی بڑے لکھنے والے شامل تھے۔ ان کی تحریروں نے کئی نسلوں کی فکری آبیاری کی لیکن 1990 اور بعد کی دہائیوں میں ہونے والی تیز رفتار عالمگیریت میں جہاں اور بہت کچھ بہہ گیا وہاں اردو میں سنجیدہ مباحثے کی روایت بھی کمزور پڑ گئی۔ ڈاکٹر احسن رانا کے بقول سرمایہ دارانہ فلاحی نظام جیسے ثقیل موضوع پر تالیف کے لیے اردو کو ترجیح دے کر یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ اردو زبان میں سنجیدہ فکری بحث اس دور میں بھی نہ صرف ممکن ہے بلکہ لازم ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!