Express News:
2025-08-13@10:47:30 GMT

اسٹوری آف لائف

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔ پیٹر کی عمر آٹھ سال تھی‘ وہ مشرقی یورپ کے کسی چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا‘ والدین زمین دار اور خوش حال تھے‘ پیٹر ان کی اکلوتی اولاد تھا‘ وہ خوب صورت بھی تھا‘ ذہین بھی اور مہذب بھی۔ پیٹر گاؤں کا بے مثال بچہ تھا‘ بس اس میں ایک خرابی تھی‘ وہ خرابی کیا تھی؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں‘ یہ صرف پیٹر کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ہم سب کی کہانی ہے۔ یہ کہانی ہماری کہانی کیسے ہے؟ہمیں یہ جاننے کے لیے پہلے پیٹر کی کہانی سننا ہو گی۔

پیٹر میں بس ایک خرابی تھی‘ وہ ’’ڈے ڈریمنگ‘‘ کا شکار تھا‘ وہ بیٹھے بیٹھے کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتا تھا‘ وہ لمحہ موجود میں زندہ نہیں رہتا تھا‘ وہ وقت کو کبھی آگے لے جاتا تھا اور کبھی پیچھے۔ وہ اکثر اوقات کلاس میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں بیس سال کا خوب صورت جوان بن جاتا تھا‘ وہ خود کو گھوڑے پر بیٹھا ہوا دیکھتا‘ گھوڑے کو ایڑھ لگاتا اور اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگتا‘ پیٹر خیالوں کی دنیا میں سفر کرتا ہوا کبھی جنگیں لڑتا‘ کبھی شہزادی کے محل میں پہنچ جاتا‘ کبھی کسی ملکہ کو اغواء کر کے گھوڑے پر بٹھاتا‘ گھوڑے کو وادیوں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں اور میدانوں میں دوڑاتا اور دشمنوں کے گھوڑوں کو اپنے پیچھے بھاگتا ہوا محسوس کرتا‘ وہ کبھی رابن ہڈ بن کر امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے لگتا اور وہ کبھی کبھی خود کو پوپ بھی محسوس کرنے لگتا‘۔

وہ سمجھتا وہ ویٹی کن سٹی میں پوپ کی بالکونی میں کھڑا ہے اور پوری دنیا بالکونی کے نیچے کھڑی ہو کر اس کی زیارت کر رہی ہے‘ وہ وقت کو آگے اور پیچھے لے جانے والے اس کھیل کو بہت انجوائے کرتا تھا‘ وہ گھنٹوں بیٹھ کر یہ کھیل کھیلتا تھا‘ دنیا میں اس کھیل میں اس سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں تھا‘ پیٹر کی خواہش تھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے وقت کو کنٹرول کرنا سیکھ لے‘ وہ جب چاہے وقت کو آگے لے جائے اور جب چاہے وقت کو ری ورس کر لے‘ وہ ہمہ وقت یہ خواہش لے کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔

آپ اللہ کی کرنی دیکھیے‘ پیٹر ایک دن جنگل سے گزر رہا تھا‘ پیٹر کو ٹھوکر لگی‘ وہ گرا اور بے ہوش ہو گیا‘ آنکھ کھلی تو اس نے ایک بڑھیا کو اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا‘ یہ بڑھیا وقت تھی‘ وقت نے پیٹر سے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی‘ پیٹر نے کہا ’’میں چاہتا ہوں‘ میں جب چاہوں‘ میں وقت کو آگے پیچھے لے جا سکوں‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’بے وقوف بچے! وقت دریا ہے‘ یہ آگے کی طرف بہتا ہے‘ یہ پیچھے نہیں جاتا‘ میں تمہیں صرف وقت میں‘ صرف آگے بہنے کا طریقہ بتا سکتی ہوں‘‘۔

پیٹر مان گیا‘ بڑھیا نے اسے ایک گیند دی‘ گیند سے ایک دھاگا باہر لٹک رہا تھا‘ بڑھیا نے اسے بتایا‘ یہ دھاگا تمہاری زندگی جتنا طویل ہے‘ تم اس دھاگے کو جتنا باہر کھینچ لو گے‘ تم وقت میں اتنا ہی آگے چلے جاؤ گے‘ پیٹر خوش ہو گیا‘ بڑھیا چلی گئی‘ پیٹر نے تھوڑا سا دھاگا کھینچا‘ ٹرررر‘ ٹرررز کی آواز آئی اور پیٹر دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب اٹھارہ سال کا خوب صورت جوان تھا‘ وہ جوانی کی ایڑھیوں پر چلتا تھا اور شہر کی حسین خواتین بالکونی میں کھڑی ہو کر اسے دیکھتی تھیں‘ پیٹر جوانی کو انجوائے کرنے لگا‘۔

پیٹر نے دیکھا‘ اس کے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں‘ گاؤں کے سمجھ دار اور سیانے لوگ انتقال کر چکے ہیں اور گاؤں کا سائز بڑا ہو چکا ہے‘ پیٹر چند ماہ اس ٹائم فریم میں رہا‘ اکتاہٹ ہوئی تو اس نے صندوق سے گیند نکالا اور دھاگا کھینچ دیا‘ وہ مزید دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 28 سال کا جوان تھا‘ کھلنڈرے پن کی عمر گزر چکی تھی‘ وہ اب زندگی میں سیٹل ہونا چاہتا تھا‘ والدین بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور بیمار بھی۔

زمینیں بک رہی تھیں‘ گھوڑے نیلام ہو رہے تھے اور جمع پونجی خرچ ہو رہی تھی‘ ملازم ملازمت چھوڑ کر جا رہے تھے‘ پیٹر نے ملازمت کی کوشش کی لیکن وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا‘ کاروباری کوشش کی لیکن ناتجربہ کاری‘ سستی اور لاابالی پن سے مار کھا گیا اور سیاست میں قدم رکھا مگر اس میں بھی فیل ہو گیا‘ غیر سنجیدہ ماضی کی وجہ سے دوست احباب بھی ساتھ چھوڑ رہے تھے‘ وہ اب گاؤں میں مارا مارا پھرتا تھا اور اپنی بے مقصد زندگی کو کوستا تھا۔ 

پیٹر چند دن میں زندگی کے اس فیز سے بھی اکتا گیا‘ اس نے گیند نکالی‘ دھاگا کھینچا اور 38 سال کا ہو گیا‘ اس کی زندگی اب سیٹل ہو چکی تھی‘ سرکے بال کم ہو گئے تھے‘ کنپٹیاں سفید ہو رہی تھیں‘ گردن کے پچھلے مہروں میں اب ہلکی ہلکی درد رہتی تھی‘ محلے کی لڑکی ریٹا سے شادی بھی ہو چکی تھی اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے‘ ماں دو برس قبل انتقال کر گئی‘ باپ معذور ہوچکا تھا اور وہ اب سارا سارا دن وہیل چیئر پر بیٹھا رہتا تھا‘ بڑی حویلی اور فارم ہاؤس بک چکے تھے‘ وہ اب چھوٹے گھر میں رہتے تھے‘ بیوی اچار چٹنیاں بناتی تھی اور وہ بازار میں بیچ دیتا تھا‘ شام کے وقت گاؤں کے پب میں بیٹھ جاتا تھا اور بس یہ تھی زندگی۔

پیٹر نے گھبرا کر زور سے دھاگا کھینچ دیا‘ وہ اس بار بیس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 58 برس کا تھا‘ بچے جوان ہو کر شہر جا چکے تھے‘ گھر مزید چھوٹا ہو گیا تھا‘ بیوی ریٹا کے گردے فیل ہو چکے تھے‘ وہ پیٹ پر بیگ لگا کرزندگی گزار رہی تھی‘ محلے کے تمام پرانے لوگ مر چکے تھے‘ گاؤں قصبہ بن گیا تھا اور اس میں ہر وقت شور ہوتا رہتا تھا‘ وہ باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے اپنے کولہے کی ہڈی بھی تڑوا چکا تھا‘ ہڈی جڑ گئی لیکن اس کی چال میں جھول آ گیا۔ 

وہ اب چلتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہلکا سا جھکتا تھا‘ بڑا بیٹا شہر سے پیسے بھجوا دیتا تو دونوں میاں بیوی تین وقت کھانا کھا لیتے تھے‘ پیسے نہیں آتے تھے تو وہ آلو ابال کر کھا لیتے تھے‘ گھر میں سرے شام اندھیرا ہو جاتا تھااور اس کے بعد وہاں دونوں میاں بیوی کی کھانسی کی آوازیں ہوتی تھیں‘ پیٹر لائف کے اس فیز سے بھی گھبرا گیا‘ اس نے گیند نکالی اور دھاگا کھینچ دیا‘ وہ اب 68 سال کا ہو چکا تھا‘ بیوی فوت ہو گئی تھی‘ مکان بک گیا تھا‘ وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا‘ تمام دوست‘ احباب‘ رشتے دار مر چکے تھے‘ ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی تھی اور ٹیلی ویژن انٹرنیٹ میں تبدیل ہو رہا تھا۔ 

پیٹر کے پھیپھڑوں میں اب پانی بھی بھر جاتا تھا اور حلق میں بلغم بھی آتی تھی‘ وہ چلنے پھرنے سے بھی تقریباً معذور ہو چکا تھا‘ بھوک نہیں لگتی تھی اور اگر لگتی تھی تو کھانا نہیں ملتا تھا‘ کھانا مل جاتا تو دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھا نہیں پاتا تھا اور اگر وہ کھانا کھا لیتا تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور اگر کھانا ہضم ہو جاتا تو قبض ہو جاتی تھی اور قبض بھوک سے زیادہ اذیت ناک ہوتی تھی‘ زندگی خوف ناک بلکہ عبرت ناک صورت حال اختیار کر چکی تھی۔

پیٹر سارا سارا دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا رہتا تھا‘ وہ کتابیں پڑھنا چاہتا تھا لیکن نظر کی کمزوری آڑے آ جاتی تھی‘ وہ میوزک سننا چاہتا تھا لیکن کان کام نہیں کرتے تھے‘ وہ ماضی کو یاد کرنا چاہتا تھا لیکن یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی‘ پیٹر نے ایک دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے پوچھا ’’ پیٹر! تمہاری زندگی کا شان دار ترین وقت کون سا تھا؟‘‘ اس کے دماغ میں فوراً آٹھ سال کے پیٹر کی تصویر ابھری‘ اسے محسوس ہوا‘ اس کی زندگی کا شان دار ترین وقت وہ تھا‘ جب وہ کھیتوں‘ جنگلوں اور وادیوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور اندیشوں اور آلام کے سایوں نے ابھی جنم نہیں لیا تھا‘ پیٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے آخری بار دھاگا کھینچا‘ ٹک کی آواز آئی اور دھاگا ٹوٹ گیا۔ 

وہ اب اپنی قبر کے سرہانے کھڑا تھا‘ قبر پرانی بھی تھی‘ بوسیدہ بھی اور ویران بھی۔ قبر اپنے حالات کے منہ سے بول رہی تھی‘ مجھے مدت سے کسی نے نہیں دیکھا‘ میرے سرہانے کوئی نہیں آیا‘ کسی نے مجھ پر ایک پھول تک قربان نہیں کیا‘ پیٹر نے ہچکی لی اور اس کی آنکھ کھل گئی‘ وہ اسی طرح جنگل میں بیٹھا تھا‘ ہاتھ میں گیند تھی اور بڑھیا اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔

پیٹر نے گیند بڑھیا کو واپس کی اور اس سے پوچھا ’’وقت کیا ہے؟‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور بولی ’’وقت آج ہے‘ وقت لمحہ موجود ہے‘ آج سے پہلے افسوس تھا اور آج کے بعد حسرت ہو گی‘‘ پیٹر نے پوچھا ’’اور زندگی کیا ہے؟‘‘ بڑھیا نے جواب دیا ’’زندگی آج کو انجوائے کرنے کا نام ہے‘ آج کا دن‘ صرف آج کا دن‘ لمحہ موجود‘ جو لوگ آج میں بیٹھ کر گزرے کل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو آج میں بیٹھ کر مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں‘ ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا۔ 

انسان گزرے کل کو ٹھیک کر سکتا ہے اور نہ ہی آنے والے کل کو‘ یہ صرف آج کو ٹھیک کر سکتا ہے‘ یہ صرف آج کو درست رکھ سکتا ہے اور یہ صرف آج کو انجوائے کر سکتا ہے‘ تم آج آٹھ سال کے لڑکے ہو‘ تم اگلے سال نو سال کے ہو جاؤ گے‘ تم اس کے بعد کچھ بھی کر لو تم آٹھ سال میں واپس نہیں آ سکو گے چناںچہ اٹھو اور آٹھ سال کو انجوائے کرو‘ خود کو خوابوں میں ضایع نہ کرو کیوںکہ رابن ہڈ ہو یا پھر کنگ لیئر ہو‘ ان سب کا اختتام بہرحال ویران قبروں پر ہوتا ہے‘ دنیا میں ماضی اور مستقبل دونوں مر جاتے ہیں‘ صرف آج زندہ رہتا ہے چناںچہ زندہ میں زندہ رہو‘ ہمیشہ زندہ رہو گے‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور گیند سمیت غائب ہو گئی۔

پیٹر اٹھا اور وادی میں دوڑنے لگا‘ وہ اب آٹھویں سال کو انجوائے کر رہا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیٹر کی کہانی کو انجوائے کر چاہتا تھا کی وجہ سے رہتا تھا جاتا تھا میں بیٹھ تھا اور چکا تھا آٹھ سال بیٹھ کر سکتا ہے رہی تھی پیٹر نے رہا تھا تھی اور ہو گیا اور اس سال کا کا تھا وقت کو یہ صرف کی تھی

پڑھیں:

تاریخ کے وارث یا مجرم

یہاں عروج کی گونج بھی محفوظ ہے اور زوال کی کراہیں بھی دفن ہیں۔ یہاں وقت کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دیتی ہے اور تقدیر کے بھنور میں گم داستانوں کی سرگوشیاں بھی۔ تاریخ انسانی کے سینے میں وہ سیکڑوں، ہزاروں کہانیاں دفن ہیں جنہیں کبھی مورخ نے لکھا، کبھی فاتح نے مٹایا، اور کبھی مٹی نے خود اپنے سینے میں چھپا لیا۔ یہ کہانیاں صرف ماضی کی گرد میں لپٹی یادیں نہیں۔ یہ وہ زندہ سائے ہیں، جو آج بھی ہمارے اطراف منڈلاتے ہیں، ہمیں پکار پکار کر کچھ سمجھانا چاہتے ہیں، بس ہم ہیں کہ سنتے نہیں۔

 ذرا نظر دوڑائیں تو کہیں روم کے عالی شان سینیٹ یا کیوریا جولیا میں سنگ مرمر کے ستونوں تلے بیٹھے سینیٹرز طاقت اور اختیار کے فلسفے پر تلخ بحثوں میں الجھے نظر آتے ہیں، تو کہیں قدیم ایتھنز میں ایکروپولس کے پہاڑی علاقے کے نزدیک پاتھنوں کے عبادت خانے میں ایتھنا کے سامنے جھکے پجاری جو یونانی دیوی کو اپنی قسمت سونپتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک منظر میں چنگیز خان منگولوں کے یاک کی نو دُموں والے علم کے سائے تلے اپنے بیٹوں کو ایک سانپ کی تمثیل کے ذریعے اتحاد کا درس دے رہا ہے تو دوسرے میں مغل سلطنت کا معمار بابر ایک باپ کی بے بسی اوڑھے ہمایوں کے بستر کے گرد یوں چکر لگا رہا ہے گویا اپنی جان اپنے وارث کے لیے کسی اَن دیکھے دربار میں گروی رکھ چکا ہو۔

دوسری طرف، سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول درویش شیخ ادیبالیس کے روبرو بیٹھا اپنے اس خواب کی تعبیر تلاش کر رہا ہے جس میں چاند اس کے سینے میں اترتا ہے اور پھر ایک ایسا درخت اُگاتا ہے جس کی شاخیں تمام دنیا پر سایہ فگن ہوجاتی ہیں تو کہیں فارس کا نوجوان شہزادہ سائرس اعظم، آنثان کے تخت پر بیٹھا دنیا کی سلطنت کو مٹھی میں لینے کے خواب بن رہا ہے۔ کہیں مدینے کی گلیوں میں صدیقؓ کا صبر، فاروقؓ کی عدالت، عثمانؓ کی حیاء اور علیؓ کی جرأت رب کی رضا کے سفر میں تاریخ کے سب سے روشن باب رقم کر رہے ہیں تو کہیں بیبرس، بہ طور سپاہ سالار، پہلی بار منگولوں کے قدم روک کر عالمِ اسلام کے ماتھے پر تحفظ کی لکیر کھینچتا دکھائی دیتا ہے، میدانِ بیت المقدس میں فتح کے جھنڈے تلے رحم اور عظمت کی چادر اوڑھے سلطان صلاح الدین ایوبی نمودار ہوتا نظر آتا ہے تو کسی منظر میں شیر میسور ٹیپو سلطان اپنے لہو سے وفاداری لکھنے کو تیار کھڑا ہے۔

یہ داستانیں فقط فتوحات کی نہیں بلکہ اطاعت کی بھی ہیں، کیوںکہ زندگی کی اصل اس کی تمام تر معنویت، اطاعت کے دامن میں ہی پنہاں ہے۔ چاہے وہ اطاعت رب کی ہو، بندوں کی ہو یا حکم رانوں کی اور اطاعت کا یہ دریا صرف دو چشموں سے پھوٹتا ہے۔ محبت اور خوف۔ یہ جو گم نامی کی دھول سے اٹھ کر پہاڑوں کو سرنگوں کرنے والے کردار تھے، ان کی عظمت کا راز ان کی تلوار کی جھنکار میں نہیں بلکہ اس حکمت و دانائی میں تھا جس نے معاشروں کو وہ نظام عطا کیا جہاں رعایا حکم راں کی محبت میں جھکتی تھی اور قانون کے رعب سے سنبھلتی تھی۔ ان کے نظام میں صرف حکم نہیں تھا، اس میں یقین، وابستگی اور ایک ایسا تعلق تھا جو زبردستی نہیں بلکہ فطری طور پر دلوں میں گھر کر جاتا تھا۔

لیکن افسوس جب وہ عظیم لوگ رخصت ہوئے اور ان کے جانشین مسندِاقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ اس راز کو بھول بیٹھے۔ نشۂ اقتدار نے ان کی بصیرت کو دھندلا دیا، اور انہوں نے ریاست کو صرف قانون کی زنجیروں سے باندھنے کی سعی کی۔ وہ یہ نہ جان سکے کہ جس ریاست سے محبت کا رشتہ منقطع ہوجائے وہاں قانون صرف خوف پیدا کرتا ہے، وفاداری نہیں۔ اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ قانون کی چھڑی سے چلنے والی سلطنتیں وقت کی گرد میں دفن ہوگئیں۔ نہ وہ وقار باقی رہا، نہ وہ نظام، اور نہ ہی وہ نام جو کبھی تاریخ کے ہر صفحے پر رقم ہوتے تھے۔

مذہب کی حکمت انسان کی انفرادی بدکرداری کو روزِمحشر کے ترازو پر تولا کرتی ہے مگر فطرت کو انتظار کی عادت نہیں۔ وہ قوموں کے اجتماعی گناہوں کا حساب یہیں اسی دنیا میں چُکتا کرتی ہے۔ تاریخ کے مزار میں دفن ہر عظیم قوم کے تابوت پر ایک مشترک نوحہ کندہ ہے ’’ہم نے خود اپنے چراغ بجھا دیے‘‘ اور جب ان قوموں کے زوال کا وقت آیا تو ان کے گلی کوچے ظلم و زیادتی سے آلودہ تھے، فضا میں حسدوحرص کی بدبو تھی، ادارے مفاد پرستی کی دلدل میں دھنستے جا رہے تھے اور بستیوں میں منشیات کے اڈے، ہوس کی منڈیاں، شراب خانے، جوئے کے ٹھکانے، زنا کے بازار، چوراہوں پر ڈکیتی، گلیوں میں قتل، عدالتوں میں رشوت، مسجدوں کے قریب سود کی چمکتی عمارتیں، دلوں میں جھوٹ، زبانوں پر خوشامد، چہروں پر دوغلاپن، بازاروں میں ملاوٹ، ناپ تول میں خیانت، دفاتر میں بدعنوانی اور رشوت ستانی، اور ہر دل میں ایک خودغرض ’’میں‘‘ کا شور سنائی دیتا تھا۔

یہی تنہائی اور یہی زہر پھر راستہ بناتی ہے اُن آسیبوں کے لیے جو نظام پر قابض ہوجاتے ہیں۔ میرٹ دفن ہو جاتا ہے، اور اقتدار اُن کے ہاتھ آتا ہے جو بددیانتی میں سب سے آگے ہوں۔ ان کے لیے قومیت ایک جھنڈا نہیں بلکہ کاروبار اور مذہب ایک عقیدہ نہیں بلکہ اشتہار بن جاتا ہے۔ یوں برائی کے کارندے مذہب و قومیت کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کی تجارت کرتے ہیں۔ سیاسی کرپشن تلوار بن جاتی ہے۔

اختلاف دفن، اور گونگے تاج دار تخت پر بٹھا دیے جاتے ہیں جن کے ذہنوں میں تاریکی بسی ہوتی ہے۔ ریاست عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ترقی کے نام پر سرابوں کا تعاقب کرتی ہے۔ خوف کو امید کے ریشمی کاغذ میں لپیٹ کر خوب بیچا جاتا ہے۔ سچائی بے وقوفی کہلاتی ہے، جھوٹ ذہانت، رشوت روزمرہ کا معمول اور دیانت داری بے وقوفی۔ اعتبار کی جڑیں بے یقینی کاٹتی ہے، افواہیں اجتماعی مشغلہ بن جاتی ہیں، اور کل کیا ہوگا، جیسے سوال وقتی سکون کی چادر تلے دب جاتے ہیں۔ منصوبے ضرور بنتے ہیں مگر ان کی پرواز کاغذوں اور تقریروں سے آگے نہیں بڑھ پاتی اور جب قومیں صرف نعروں میں زندہ رہنے لگتی ہیں تو فطرت بے آواز مگر فیصلہ کن انداز میں مداخلت کرتی ہے۔ پھر ایسی قومیں صرف تاریخ کی ایک سطر بن کر رہ جاتی ہیں پڑھنے کے قابل، مگر پلٹنے کے لائق نہیں۔

تاریخ تو ہمیشہ ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر ورق پر ایک چیخ اور ہر واقعے میں ایک نصیحت پوشیدہ ہوتی ہے مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم نے اسے کبھی سنجیدگی سے سننے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ہم نے تاریخ کو استاد نہیں، افسانہ گو سمجھا۔ اس کی صدائیں نہیں سنیں بس اس کے سائے میں دل بہلانے کے افسانے تراشتے رہے۔ شاید یہی وہ ہنر ہے جو ہمیں خوب آتا ہے۔ سبق سے گریز اور تسلیوں سے رفاقت۔ اور افسوس یہ ہنر شاید ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے، کوئی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔

متعلقہ مضامین

  • چین و برکس سے خوف
  • گہری خاموشی کا شور
  • افواہیں، دریا اور نیا موڑ
  • بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے
  • ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا
  • سکھر: نارا کینال میں خاتون پر مگرمچھ کے حملے کا واقعہ، محکمہ وائلڈ لائف کا انکار، ڈاکٹرز کی تصدیق
  • تاریخ کے وارث یا مجرم
  • فیصل آباد؛ بٹیر، تیتر اور پاڑہ ہرن کے غیرقانونی شکار کیخلاف کارروائیاں، مقدمات درج
  • نایاب نسل کے جانوروں کا غیر قانونی شکار جاری؛وائلڈ لائف کارروائی نہ کرسکا
  • عمران خان کا مخمصہ