Daily Ausaf:
2025-08-13@19:36:16 GMT

اجنبی جو قابض بنے

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

1947 ء کا موسمِ بہار تھا جب یورپ سے آئے اجنبی چہروں والے قافلے فلسطین کی سرزمین پر اترے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں دنیا اشکنازی یہودیوں کے نام سے جانتی ہے۔ ان کے چہروں پر مظلومیت کی جھوٹی پرچھائیاں اور دلوں میں ایک پرانا خواب تھا۔ ارضِ مقدس پر قبضہ !فلسطینی عربوں نے انسانیت کے ناطے انہیں پناہ دی، کھانے کو دیا، رہنے کو جگہ دی، مگر شاید وہ جانتے نہ تھے کہ جنہیں وہ مہمان سمجھ رہے ہیں وہی کل ان کے گھروں کے مالک بن بیٹھیں گے۔
اشکنازی یہودی اصل میں یورپ کے مختلف ممالک جیسے جرمنی، پولینڈ، روس، ہنگری اور آسٹریا سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی زبان عبرانی نہیں بلکہ یدش (Yiddish) تھے جو جرمن اور عبرانی کا ایک مرکب تھی۔ یہ لوگ وہاں صدیوں سے رہ رہے تھے لیکن جب نازی جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں پر مظالم شروع کیے تو لاکھوں یہودی جان بچا کر نکلے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرنے کے بجائے ان کا رخ فلسطین کی طرف تھا کیونکہ وہاں صہیونی تحریک پہلے سے ہی کام کر رہی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں صہیونیت یعنی Zionism کی ایک تحریک نے جنم لیا ۔ اس کا بانی تھیوڈور ہرزل تھا جس نے دعویٰ کیا کہ دنیا کے تمام یہودیوں کو ایک الگ ریاست ملنی چاہیے اور وہ ریاست صرف فلسطین میں بننی چاہیے۔ یہ محض ایک مذہبی یا روحانی خواب نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی منصوبہ تھا جسے مغربی طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی خاص طور پر برطانیہ اور بعد ازاں امریکہ کی۔1917 ء میں اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بالفور اعلامیہ جاری کیا جس میں یہودیوں کو فلسطین میں قومی وطن قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب فلسطین پر عثمانی خلافت کی گرفت ختم ہو چکی تھی اور برطانیہ نے فلسطین کو اپنا انتداب بنا لیا تھا۔
جب یہودی قافلے آنا شروع ہوئے تو فلسطینی عربوں نے انہیں انسانی ہمدردی کے تحت خوش آمدید کہا۔ کئی علاقوں میں زمین فروخت کی گئی، کئی جگہوں پر یہودیوں نے آبادیاں بسائیں لیکن ان کی تعداد پھر بھی اقلیت میں تھی۔ 1947ء تک فلسطین میں کل یہودیوں کی آبادی 30 فیصد سے بھی کم تھی جبکہ 70 فیصد سے زائد فلسطینی مسلمان اور عیسائی عرب تھے۔ مگر یہودیوں نے پہلے دن سے ہی ایک منظم حکمت عملی اختیار کی۔ زمین خریدنا، مسلح گروہ تیار کرنا، خفیہ ملیشیا قائم کرنا اور مغربی دنیا میں لابنگ کر کے اپنے لیے عالمی ہمدردی حاصل کرنا۔چودہ مئی 1948 ء کو وہ دن آیا جب دنیا کے نقشے پر ایک ناجائز ریاست اسرائیل کے نام سے وجود میں آئی۔ اگلے ہی روز عرب ممالک نے اس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا مگر بدقسمتی سے عربوں کی قیادت بکھری ہوئی، تیاری ناکافی اور عزائم غیر واضح تھے۔ اسرائیل نے برطانوی اسلحے، امریکی تعاون اور یورپی لابیوں کی مدد سے نہ صرف اپنا وجود قائم رکھا بلکہ فلسطینیوں کو ان کے ہی گھروں سے نکال دیا۔ اس سانحے کو آج ’’نکبہ‘‘ (تباہی) کہا جاتا ہے۔
تقریباً 8 لاکھ فلسطینی اپنے گھروں، کھیتوں، مسجدوں، قبرستانوں، بازاروں اور قصبوں سے نکال دیئے گئے۔ کئی کو قتل کیا گیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی، بچے یتیم اور خاندان برباد ہو گئے۔ یافا، حیفا، صفد، طبریہ اور لد جیسے شہر خالی کرائے گئے اور ان پر یہودی قابض ہو گئے۔
فلسطینیوں نے جنہیں نازی مظالم سے بچنے کے لیے پناہ دی تھی وہی آج ان کے گھروں کے مالک بن بیٹھے۔ اشکنازی یہودیوں نے اپنی چالاکی، مغربی حمایت اور منظم منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے ہی محسنوں کی زمین پر ظلم کا پہاڑ توڑ دیا۔ انہوں نے نہ صرف فلسطین پر قبضہ کیا بلکہ پوری تاریخ کو بھی مسخ کیا۔ مسجد اقصیٰ سے لے کر حیفا کے اسکولوں تک ہر چیز کو یہودی شناخت دینے کی کوشش کی ۔ یہاں تک کہ آج کے جدید اسرائیل میں اگر کوئی فلسطینی اپنی شناخت پر فخر کرے، اپنی زبان بولے یا اپنے حقوق مانگے تو وہ دہشت گرد کہلاتا ہے۔
آج اسرائیل دنیا کی جدید ترین فوجی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، جدید فضائیہ ہے، طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی ’’موساد‘‘ ہے اور اسے امریکہ اور یورپ جیسے طاقتور ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ لیکن اس تمام طاقت کے باوجود اسرائیل ایک خوفزدہ ریاست ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا وجود ظلم پر قائم ہے، جھوٹ پر قائم ہے اور جبر پر قائم ہے۔غزہ کی گلیوں میں پتھروں سے لڑتے بچے، مقبوضہ بیت المقدس میں نماز پڑھتے نمازی اور لبنان کی سرحد پر مزاحمت کار یہ سب اسرائیل کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں۔جس طرح وہ 1947 ء میں یورپ سے آئے تھے اور جس طرح وہ فلسطین میں زبردستی داخل ہوئے تھے ان شا اللہ وہ دن بھی دور نہیں جب وہ اسی ذلت سے نکالے جائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم جتنا بھی طاقتور ہو وہ ہمیشہ عارضی ہوتا ہے۔ نمرود، فرعون، ہٹلر، اور موسولینی جیسے جابر حکمران آج تاریخ کی گرد میں دفن ہو چکے ہیں۔ اسرائیل بھی اسی انجام سے نہیں بچ سکے گا۔فلسطین کے نوجوان، غزہ کے مجاہد، اور القدس کے نمازی اس دن کے لیے پر امید ہیں جب قابض کو اس سرزمین سے نکال باہر کیا جائے گا یا وہ انجام کو پہنچے گا۔دنیا خاموش نہیں رہی۔ اب یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں بھی لاکھوں لوگ فلسطین کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے سچ کو عام کر دیا ہے۔ وہ فلسطینی مظلوم بچے جن کی تصویریں کبھی دکھائی نہ دیتی تھیں آج دنیا بھر میں دلوں کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔یہ تحریر صرف تاریخ کا ایک گوشہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ آج بھی ظلم جاری ہے، آج بھی اشکنازی یہودی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال رہے ہیں، آج بھی بیت المقدس قید ہے اور آج بھی عالمی ضمیر امتحان میں ہے۔ لیکن امید زندہ ہے اور حالات اسرائیل کو ہر آنے والے دن مشکلات کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جن یہودیوں کو امن اور آئرن ڈوم جیسی فوجی تنصیبات اور لاکھوں ڈالر کے پیکیج اور مراعات دے کر اسرائیل میں آباد کر کے یہاں کی آبادی کو بڑھایا جا رہا تھا اب ایران اسرائیل جنگ کے بعد لاکھوں یہودی دوبارہ اسرائیل چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یورپ اور امریکی ممالک کو واپس روانہ ہو نا شروع ہو چکے ہیں۔ حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ شہیدوں کا لہو ، مجاہدین کے وار اور فلسطینیوں کی مزاحمت رنگ لانے والی ہے۔ فلسطین کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اشکنازی یہودی فلسطین میں رہے ہیں سے نکال ہے اور آج بھی

پڑھیں:

اسرائیلی فوج کا شام کے شمالی علاقے قنیطرہ کے 2 قصبوں پر دھاوا

اسرائیلی فوج نے شام کے جنوب مغربی صوبے قنیطرہ کے 2 قصبوں میں داخل ہو کر ملک کی خودمختاری کی ایک اور کھلی خلاف ورزی کی ہے۔

شامی سرکاری ٹی وی الاخباریہ شام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں بتایا:

’اسرائیلی قابض فوج کی ایک گشتی پارٹی قنیطرہ کے شمال میں واقع قصبہ ترنیجہ میں داخل ہوئی۔‘

یہ بھی پڑھیے پیوٹن اور اردوان کے درمیان رابطہ: اسرائیلی حملے شامی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار

رپورٹ کے مطابق گشتی پارٹی قصبے کے مرکزی چوک پر رکی اور پھر قنیطرہ کے شمالی دیہی علاقے میں واقع قصبہ حادر کی طرف روانہ ہو گئی۔ سرکاری ٹی وی نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

چینل نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی فوج کا ایک اور قافلہ تل الاحمر الغربی سے نکل کر جنوبی قنیطرہ کے دیہی علاقے میں واقع گاؤں الاسبہ کے مضافات کی طرف بڑھا، جس پر مقامی آبادی میں بے چینی پائی گئی۔

2024ء کے آخر میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے شامی گولان کی پہاڑیوں پر اپنا قبضہ مزید بڑھا دیا اور غیر عسکری بفر زون بھی ہتھیا لیا۔ یہ اقدام شام کے ساتھ 1974ء کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھا۔

یہ بھی پڑھیں:شام کی تقسیم ناقابلِ قبول، اسرائیل دہشتگرد ریاست ہے، رجب طیب اردوان

مختلف رپورٹس کے مطابق اسرائیل شام میں فوجی تنصیبات پر سینکڑوں فضائی حملے بھی کر چکا ہے، جن میں لڑاکا طیارے، میزائل سسٹمز اور فضائی دفاعی تنصیبات شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیلی فوج شام پر حملہ

متعلقہ مضامین

  • شہدائے فلسطین نے شہدائے کربلا کا کردار زندہ اور یزیدیت کا چہرہ آشکار کردیا ہے، متحدہ علماء محاذ
  • پاکستان میں فلسطینی سفیر ڈاکٹر زہیر زید کا پاکستان کے یوم آزادی پر تہنیتی پیغام
  • پرینکا گاندھی کا فلسطین کے حق میں بیان، بھارت میں اسرائیلی سفیر نے شرمناک قرار دے دیا
  • اسرائیلی فوج کا شام کے شمالی علاقے قنیطرہ کے 2 قصبوں پر دھاوا
  • آسٹریلیا کا بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • اب تک کتنے ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے یا اس کا اعلان کرچکے ہیں؟
  • سعودی عرب کا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم
  • انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ
  • آسٹریلیا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا
  • ’فری فلسطین‘ آئرش اداکارہ ڈینیس گو نے غزہ کے لیے آواز بلند کرنے کی اپیل کردی