سجاول،بجلی کی عدم بحالی پر دڑو کے تاجر و رہائشیوں کا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سجاول(نمائندہ جسارت) ضلع سجاول سندھ کے شہر دڑو کے مین کاروباری اور رہائشی علاقوں مکینوں نے دڑو شہر میں یکم محرم الحرام سے مسلسل احتجاج کر ہے ہیں جن میں سومرو، میمن، کچھی اور دیگر قومیت کے افراد شامل ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں سے واپڈا سجاول کے عملہ ہمارے علاقے کے ٹرانسفار مر سے تاریں اتار کر لے گئے ہیں جسکے باعث ان محلوں میں ہماری بجلی مسلسل بند ہے اور سخت گرمیوں کے سبب ہماری رات کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں احتجاج کرتے ہوئے کافی دن گزرگئے مگر سجاول ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہمیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر سجاول نے چوہڑ جمالی کا دورہ کیا اور واپڈا عملے کو بجلی کے بند فیڈر چالو کرنے کے احکامات جاری کیے اور رورل ہیلتھ سینٹر کیلیے بھی احکامات جاری کیے مگر ڈی سی ٹھٹھہ ہماری شکایتوں کا ازالہ نہیں کر رہے۔ انہوں سوال کیا کہ کیا ہم دڑو شہر والے ضلع سجاول کے رہائشی نہیں جو ہماری شکایتوں کا ڈپٹی کمشنر ازالہ نہیں کر رہے۔ انہوں نے وزیر اعلی سندھ اور کمشنر ڈویژن حیدر آباد سے مطالبہ کیا کہ ڈپٹی کمشنر سجاول کو ضلع کے تمام شہروں کے مسائل حل کرنے کیلیے پابند کیا جائے اور دڑو واپڈا عملے کے خلاف قانونی کارروائی کرکے سجاول ضلع کے شہر دڑو میں بجلی بحال کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈپٹی کمشنر
پڑھیں:
کچے مکانات، ہماری ثقافت اور تاریخ کے محافظ
لیوٹالسٹائی کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ فن میں سچی محبت اور حقیقت دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے ہو، تو جائیں اور دیہاتوں کے کچے مکانات میں رہنے والوں کے فن و آرٹ کو دیکھیں۔ اس میں آپ کو نظر بھی آئے گااور محسوس بھی کرسکو گے‘‘۔
ٹالسٹائی کی بات کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ فطرت کی گود میں پیدا ہوتے ہیں، وہاں پرورش پاتے ہیں، نہ صرف ان کی معاشرتی زندگی سادہ اور خلوص پر مبنی ہوتی ہے۔ بلکہ ان کے فن و آرٹ، ادب، شاعری اور دیگر روحانی سرگرمیوں میں بھی یہی چیزیں کارفرما ہوتی ہیں۔
مٹی کے یہ کچے گھرہمارے دیہاتی حسن اور ثقافت کے امین ہیں۔ فطرت سے قریب تر ان کچے مکانوں نے آج تک ہماری تاریخ، روایات، ثقافت، رومان اور اقدار کو محفوظ کر رکھا ہے۔ لیکن آج کل پوری دنیا اربنائزیشن کی طرف روا ں دواں ہے۔ اس کے باعث یہ کچے مکان یا تو خالی ہورہے ہیں یا پھر ڈھائے جارہے ہیں۔
پکے مکان کے اپنے کچھ لوازمات اور مطالبات ہوتے ہیں۔ آج ہمارے گھروں پر چین، جاپان اور یورپ کی الیکٹرانک مشینیں، کمپیوٹر، فریج اور واشنگ مشین قابض ہوگئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان چیزوں نے ہماری اقدارو روایات کو بھی متاثر کیا ہے۔ فطرت سے دوری نے ہمیں ایک ایسے ویرانے میں لاکھڑا کیا ہے جہاں اب کوئی چیز اپنی اصل شکل اور رنگ میں نظر نہیں آتی۔ ہم ایک ایسے کنکریٹ کے جنگل میں رہتے ہیں جہاں سے اب فطرت کا نظارہ اور ان نظاروں سے لطف اندوز ہونا بھی نصیب نہیں ہوتا، حالانکہ فطرت تو اب بھی موجود ہے۔ ویسا سورج ہے ویسا چاند ہے اور ویسے ہی تارے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ موسم بدل گئے، حالانکہ موسم نہیں بلکہ ہمارے مزاج بدل گئے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہمارے اندازے اور پیمانے بدل گئے ہیں۔ آج بھی جو لوگ کچے مکان اور دیہات میں رہتے ہیں انہیں ان اونچے اونچے مکانات، شہر کے محلات اور بنگلوں میں رہنے والے لوگ پسماندہ اور غیر مہذب سمجھتے ہیں۔ انہیں اُجڈ اور جاہل جیسے ناموں سے لکھتے اور پکارتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انہی کچے مکانات اور دیہات نے ہمیں خاندانی رشتوں کی مٹھاس دی ہے، ہمیں سچی محبت کرنے کا سلیقہ سکھایا، خلوص، صداقت اور اپنی مٹی اپنے وطن سے ناتا جوڑنے کا درس دیا ہے۔
اتحاد و اتفاق، تنظیم، مہمان نوازی، جرگہ سسٹم اور حجرہ کلچر غم اور خوشی دونوں کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی، خدمت، تعاون کرنا ہمیں انہی کچے مکانات میں رہنے والوں نے سکھایا۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری ثقافت کے اصل اور تاریخ کے محافظ یہی کچے مکانات ہیں۔ مٹی کے ان گھروں نے پیارو محبت کی عظیم داستانوں اور کرداروں کو جنم دیا ہے۔ فن و آرٹ کے نادر نمو نے تخلیق کیے ہیں۔ صنعت و ہنر کی بے شمارایجادات پیش کی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آج کا انسان پکا مکان بنانا اور اس میں رہنا بسنا چھوڑ کر مٹی کا مکان بنائے اور واپس دیہاتی زندگی اپنائے۔ لیکن اصل بات ہے انسانی رویوں کی، ہماری ثقافت اور اقدار کی، ہماری اپنی تہذیبی شناخت اور پہچان کی۔ ہم چاہے جہاں بھی اور جس جگہ بھی رہیں، اپنی تہذیب وثقافت کی ان اقدار و روایات کا دامن ضرور تھام کر رکھیں، جو اقدار و روایات آج بھی ہمای رہنمائی کرسکتی ہیں۔
یہ بات یہاں تک تو صحیح ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ دنیا گھٹتی جارہی ہے، بڑے بڑے اور وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے مکانات کے بجائے اب لوگ اپارٹمنٹس میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی وہ سوچ ترک کردیں جو ہماری مٹی کے خمیر میں شامل ہے۔ جدید سے جدید گھر بناکر سکھ کی زندگی ضرور گزاریں اور اس میں رہنا بھی کوئی بری بات نہیں، مگر کہنا مقصود یہ ہے کہ مٹی کے بنے یہ گھروندے ہمارا ورثہ ہے۔ آج بھی دور دراز کے دیہاتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پکے مکانات تعمیر کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں محض اس لیے کسی کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کچے مکان میں رہتا ہے۔ دراصل یہی ہماری تہذیب کاحصہ ہے، یہی ہماری ثقافت ہے اور یہی ہماری روایات ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی اس گلوبل ویلیج اور گلوبل ہوم نے ہمیں قدرتی مناظر سے دور کردیا ہے۔ آج ہمیں نہ تو پرندوں کی چہچہاہٹ سے محظوظ ہونا نصب ہوتا ہے اور نہ ہی دریاؤں کی گونجتی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ ہم صرف اسکرین پر درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ سننے تک محدود رہ گئے ہیں۔ پتھریلی زمینوں پر چلنے کے بجائے پکے فٹ پاتھوں پر واک کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
ذرا سوچیے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم خود مشین بنتے جارہے ہیں۔ جو بندہ مٹی میں نہیں کھیلا، بھلا اسے وطن کی مٹی کی خوشبو کیسے محسوس ہوگی اور جو خوشبو محسوس نہیں کرتا تو اس وطن کی مٹی سے کیسے پیار ہوسکتا ہے۔ ہم اپنے بلند وبالا مکانات کے خوب صورت ڈرائنگ رومز میں کچے مکانات کی دیدہ زیب پینٹنگز آویزاں کردیتے ہیں مگر ہم اس مٹی کی دل فریب خوشبو محسوس نہیں کرسکتے۔ کیا ہم واقعی تخیلاتی دنیا میں نہیں رہتے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔