غزہ میں امداد کے نام پر قتل عام: GHF کی سرگرمیاں بند کی جائیں، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ : امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ “غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” (GHF) کے تحت قائم کیے گئے امدادی مراکز دراصل فلسطینیوں کے لیے موت کے جال بن چکے ہیں، اقوام متحدہ، انسانی حقوق تنظیموں اور بین الاقوامی قانونی ماہرین نے ان مراکز پر ہونے والی درجنوں ہلاکتوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے GHF کی سرگرمیوں کو جنگی جرائم کے مترادف قرار دے دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق GHF کی امدادی سرگرمیوں کے آغاز (27 مئی) کے بعد سے اب تک 550 سے زائد فلسطینی شہری اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں جب کہ 4,000 سے زائد زخمی اور 39 افراد لاپتا ہیں، ان واقعات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ان مراکز پر ہوئیں جہاں بھوک سے بے حال فلسطینی شہری امداد کے حصول کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (UNOCHA) کی ترجمان اولگا چیریوکو نے کہا ہےکہ غزہ کے شہری جنہیں زندہ رہنے کے لیے خوراک لینا مجبوری بن چکا ہے، انہیں گولیاں ماری جا رہی ہیں۔ یہ عمل انسانیت کی توہین ہے اور ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں، ادویات اور بنیادی طبی سامان کی شدید قلت ہے، جب کہ اسرائیل انسانی امداد کے داخلے کو تقریباً بند کیے ہوئے ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر کی ترجمان نے کہا کہ “GHF کا ماڈل ناکام ہو چکا ہے، صرف اقوام متحدہ کے ذریعے امداد کی بحالی ہی انسانی جانیں بچا سکتی ہے، یہ ایک بند گلی ہے، اس سے نکلنے کا واحد راستہ جنگ بندی، آزاد امدادی رسائی اور عالمی انسانی اصولوں کی بحالی ہے،یہ صورتحال نہ صرف اسرائیل بلکہ GHF کو بھی عالمی قانون کی گرفت میں لا سکتی ہے اور آنے والے دنوں میں ممکنہ طور پر متعدد ممالک میں قانونی کارروائیاں شروع ہونے کا امکان ہے۔
اقوام متحدہ سمیت 15 بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیموں نے GHF کی سرگرمیوں کو فوراً بند کرنے اور اقوام متحدہ و فلسطینی این جی اوز کے ذریعے امدادی عمل بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب غزہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ شہریوں کو خوراک کے بہانے ان مراکز میں بلایا جاتا ہے، پھر منصوبہ بندی کے تحت ان پر فائرنگ کی جاتی ہے،قابض ریاست خوراک کو قتلِ عام کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور امداد کے نام پر شہریوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔
GHF امدادی مراکز یا ’موت کے کیمپ‘؟
خیال رہےکہ GHF کے تحت قائم کیے گئے مراکز کو امریکا اور اسرائیل کی جانب سے “امدادی مراکز” قرار دیا جا رہا ہے، فلسطینی حکام اور انسانی حقوق کے ادارے ان مراکز کو “موت کے کیمپ” یا “قتل گاہیں” قرار دے رہے ہیں۔
جنیوا میں قائم بین الاقوامی ادارہ TRIAL انٹرنیشنل نے GHF کے خلاف جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے،GHF امدادی اصولوں، غیر جانبداری اور انسانی تحفظ کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ GHF کی سرگرمیاں فلسطینیوں کی جبری جنوبی نقل مکانی کی راہ ہموار کر رہی ہیں، نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے استعمال سے شہریوں کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال کا خطرہ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
TRIAL انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ امداد کے نام پر لوگوں کو جنوبی غزہ میں منتقل کر کے نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو GHF کی قیادت جنگی جرائم اور نسل کشی میں معاونت کے الزام میں بین الاقوامی سطح پر فوجداری مقدمات کا سامنا کر سکتی ہے۔
اقوام متحدہ نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ امدادی سرگرمیوں کو محفوظ بنانے، قحط کے شکار شہریوں کو فوری خوراک و طبی امداد فراہم کرنے، اور انسانی جانوں کو بچانے کے لیے لازمی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی جائے اور امداد کی فراہمی اقوام متحدہ اور اس کی مجاز ایجنسیوں کے ذریعے بحال کی جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی اقوام متحدہ اور انسانی ان مراکز امداد کے کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال لی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں یہ پاکستان کی آٹھویں مدت کار اور 2013 کے بعد اس کی پہلی صدارت ہے۔ اسلام آباد نے جنوری 2025 میں ایک غیر مستقل رکن کے طور پر اپنی موجودہ دو سالہ مدت کا آغاز کیا اور 2026 کے آخر تک کام کرے گا۔
پاکستان یو این سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کا نائب چیئرمین مقرر
تنازعات سے دوچار دنیا میں پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت گوکہ علامتی ہے لیکن وہ اہم اسٹریٹجک کردار ادا کرسکتا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے، عاصم افتخار احمد نے چیلنجز کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان ایک ایسے وقت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے جا رہا ہے جب عالمی ہنگامہ خیزی، بڑھتے ہوئے تنازعات، پیچیدہ جغرافیائی سیاسی اور جیو اسٹریٹیجک منظر نامے اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ پاکستان کے لیے اس صدارت کا مطلب؟اگرچہ صدارت ماہانہ بنیاد پر گردش کرتی ہے اور اس کے پاس ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں ہوتی ہے، لیکن یہ صدارتی عہدے پر فائز ملک کو کونسل کے ایجنڈے اور لہجے پر اثر انداز ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
انسانی حقوق کونسل: پہلگام حملے پر بھارت اور پاکستان میں بحث
ایسے وقت جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کئی اہم مسائل بالخصوص غزہ اور یوکرین جیسے مسائل پر تیزی سے تعطل کا شکار دیکھا جا رہا ہے، یہ عالمی پلیٹ فارم اہمیت کا حامل ہے۔
کثیرالجہتی میکانزم پر عالمی اعتماد میں کمی کے باوجود، پاکستان کی قیادت، خواہ یہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، پر قریبی نگاہ ہو گی۔توقع ہے کہ پاکستان جولائی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اپنی صدارت کے دوران کم از کم دو کھلے اجلاس بلائے گا۔ ایسے اشارے ملے ہیں کہ وہ ان اجلاس میں آپریشن سیندور اور جموں و کشمیر کی صورتحال جیسے موضوعات کو زیر بحث لا سکتا ہے۔
پاکستان کے مستقل نمائندے، عاصم افتخار احمد نے تنازعات کے پرامن حل کے حوالے سے پاکستان کے عزم پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان بات چیت اور سفارت کاری کا پرزور اور مستقل حامی رہا ہے… ہم سلامتی کونسل کے کام میں ایک اصولی اور متوازن نقطہ نظر لائیں گے۔‘‘
انہوں نے کثیرالجہتی ادارے کو مضبوط بنانے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر اراکین کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنے کا عہد کیا۔
بھارت کا ردعملپاکستان کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے سے ایک دن قبل پیر کو بھارت نے ایک بار پھر سرحد پار دہشت گردی میں اسلام آباد کی شراکت کا الزام دہرایا۔ اس حوالے سے اس نے پہلگام حملے کا ذکر کیا۔
گزشتہ اپریل میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے میں چھبیس سیاح ہلاک ہوئے تھے۔
نئی دہلی نے اس کے لیے پاکستانی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو مورد الزام ٹھہرایا لیکن اسلام آباد نے اس کی تردید کی اور واقعے کی عالمی جانچ پر زور دیا۔بھارت نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں 'دہشت گردی کی انسانی قیمت‘ نامی نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ جس میں بین الاقوامی دہشت گردی کے مبینہ اسپانسر کے طور پر پاکستان کے کردار کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔
بھارت پاک کشیدگی پر اقوام متحدہ کے اجلاس میں کیا ہوا؟
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پیر کے روز نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اس نمائش کا مقصد اس تباہی کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرانا ہے، کہ دہشت گردی نے دنیا کو تباہ کردیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف عالمی موقف تیار کرنا ہے۔
جے شنکر نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے متحد ہو جائے کہ دہشت گردوں کو کسی قسم کی رعایت نہ ملے۔
انہوں نے کہا،''دنیا کو کچھ بنیادی تصورات پر اکٹھا ہو جانا چاہیے، دہشت گردوں سے کوئی رعایت نہیں، ان کے ساتھ پراکسی کے طور پر برتاؤ نہیں، اور جوہری بلیک میلنگ کے آگے جھکنا نہیں۔‘‘
بھارتی وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ پہلگام حملے پر بھارت کا ردعمل دہشت گردی کے خلاف 'زیرو ٹالیرینس‘ کے پیغام کی نشاندہی کرتا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین