پاکستان میں کلائمیٹ کورٹس بنانے کی ضرورت ہے، جسٹس منصور علی شاہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں کلائمیٹ کورٹس بنانے کی ضرورت ہے اور موسمیاتی تبدیلی پر قومی کانفرنس کے دیگر شرکا نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے قومی پالیسی، مشترکہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور ان کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد میں”پاکستان کی آخری وارننگ “کے عنوان سے قومی کانفرنس منعقدکی گئی جس میں سینیٹرز، وزرا، پرائیویٹ آئی ٹی کمپنیوں اور سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصورعلی شاہ نے بھی شرکت کی۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں کلائمیٹ کورٹس کی ضرورت ہے، پاکستان ماحولیاتی آلودگی میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے لیکن متاثر بہت زیادہ ہو رہا ہے، پاکستان کو کلائمیٹ فنانس کی ضرورت ہے۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان جرمن واچ کے کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025 میں سب سے زیادہ متاثرہ ملک قرار پایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی، ژالہ باری اور اچانک سیلاب معمول بن چکے ہیں۔
وفاقی وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، سیلاب یا قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں کمیونیکیشن کا نظام بحال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں ہماری فائبرائزیشن بہتر ہو۔
کانفرنس میں سابق سینیٹر مشاہد حسین سید، ماہرموسمیات ڈاکٹر محمدحنیف، موبائل کمپنیوں کے سی ای اوز اور نجی کمپنیوں نے شرکت کی اور موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں کی ضرورت ہے کہ پاکستان نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں دس لاکھ سے زائد خواتین اور بچیوں کو خوراک کی ضرورت، اقوامِ متحدہ کا انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جنیوا: اقوامِ متحدہ کی خواتین سے متعلق ایجنسی یو این ویمن (UN Women) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں دس لاکھ سے زائد خواتین اور بچیوں کو فوری خوراکی امداد کی ضرورت ہے، جن میں سے تقریباً ڈھائی لاکھ کو ہنگامی غذائی معاونت درکار ہے، اگرچہ حماس اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی سے وقتی سکون ملا ہے لیکن بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یو این ویمن کے جنیوا دفتر کی ڈائریکٹر صوفیہ کالٹورپ نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ موجودہ جنگ بندی قحط سے پہلے امداد پہنچانے کا آخری موقع ہے،یہ جنگ بندی ہماری کھڑکی ہے تاکہ ہم تیزی سے امداد پہنچا سکیں اور قحط کو گرفت میں آنے سے پہلے روک سکیں۔
کالٹورپ نے بتایا کہ جنگ بندی اگرچہ خواتین اور بچوں کے لیے ایک مختصر وقفہ لائی ہے لیکن غزہ میں لاکھوں خواتین کئی بار بے گھر ہونے کے بعد اب سرد موسم میں پناہ سے محروم ہیں، پچھلے دو برسوں میں غزہ میں خواتین اور بچیاں ہر گھنٹے میں اوسطاً دو کے حساب سے قتل ہوئیں ، یہ تعداد اس جنگ کی ہولناکی ظاہر کرتی ہے اور ہماری اجتماعی ضمیر کو نسلوں تک جھنجھوڑتی رہے گی۔
یو این ویمن کے مطابق غزہ میں ہر سات میں سے ایک خاندان کی سربراہ اب ایک خاتون ہے اور ان خواتین تک امداد براہِ راست پہنچانا ناگزیر ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو کھانا کھلا سکیں، طبی سہولیات حاصل کر سکیں اور اپنی برباد زندگیوں کو دوبارہ سنوار سکیں۔
صوفیہ کالٹورپ نے کہا کہ غزہ کی بحالی خواتین کے بغیر ممکن نہیں، وہ خواتین اور لڑکیاں جنہوں نے قحط، خوف اور ہجرت کے دوران بھی غزہ کو زندہ رکھا، انہی کے ذریعے مستقبل کی تعمیر ممکن ہے۔
انہوں نے تمام فریقوں سے جنگ بندی پر عمل درآمد اور عالمی برادری سے مزید امداد فراہم کرنے کی اپیل کی، اگر خواتین اور بچیوں کی ضروریات کو مرکز میں نہیں رکھا گیا، اور اگر ان کی تنظیموں کو بحالی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا تو خواتین کو غزہ کے مستقبل سے ہی خارج کر دیا جائے گا۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ترمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل مسلسل جنگ بندی کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کررہا ہے ، عالمی ادارے بھی صیہونی فورسز کی جانب سے کی گئی خلاف ورزی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔