’اے آئی شیف‘ برج خلیفہ کے ریستوران میں روایتی شیفس کی جگہ سنبھالے گا
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
دبئی میں جلد ہی ایک انوکھا ریسٹوران کھلنے جا رہا ہے جہاں کھانوں کی تیاری میں انسانی شیفس کی جگہ ایک مصنوعی ذہانت سے تیار شیف خدمات انجام دے گا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ’ووہو‘ نامی یہ ریسٹوران رواں برس ستمبر میں برج خلیفہ میں کھولا جائے گا، جو دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ ریستوران کے ابتدائی مرحلے میں اگرچہ کھانے انسان تیار کریں گے، مگر پورے نظام کی نگرانی ایک اے آئی شیف ’ایمن‘ کے سپرد ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: پلک جھپکتے ہی روبک کیوب حل کرنیوالے روبوٹ نے عالمی ریکارڈ بنا دیا
’ووہو‘ کے بانیوں کے مطابق ’ایمن‘ ایک جدید اے آئی ماڈل ہے جسے فوڈ سائنس میں کئی دہائیوں کی تحقیق، مالیکیولر کمپوزیشن کے ڈیٹا اور دنیا بھر کی ہزاروں ترکیبوں پر تربیت دی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اے آئی شیف نہ کھانوں کو چکھ سکتا ہے اور نہ ہی سونگھ سکتا ہے، مگر وہ کھانے کے اجزا، ساخت اور تیزابیت کا تجزیہ کر کے منفرد ذائقے اور امتزاج تخلیق کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اے آئی روبوٹ کی تیار کردہ پینٹنگ 10لاکھ ڈالرز میں فروخت
بانیوں نے بتایا کہ ’ایمن‘ کو خاص طور پر ایسی ترکیبیں بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو کچن میں اکثر ضائع ہونے والے اجزا کو دوبارہ قابل استعمال بناتی ہیں، جس سے نہ صرف فضلہ کم ہوگا بلکہ کھانوں میں جدت بھی آئے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں ’ایمن‘ کو دنیا بھر کے ریستورانوں کو لائسنس کے طور پر فراہم کیا جاسکتا ہے، تاکہ پائیداری کو فروغ دیا جائے اور خوراک کے ضیاع پر قابو پایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ایمن اے آئی شیف برج خلیفہ دبئی ریسٹورنٹ کھانا مصنوعی ذہانت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایمن اے ا ئی شیف برج خلیفہ ریسٹورنٹ کھانا مصنوعی ذہانت اے ا ئی شیف
پڑھیں:
نوبیل امن انعام کون جیت سکتا ہے اور فیصلہ کیسے ہوتا ہے؟
نوبیل امن انعام دنیا کا سب سے معزز عالمی اعزاز ہے جو ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے دنیا میں امن، بھائی چارے اور قوموں کے درمیان دوستی کے فروغ کے لیے نمایاں کام کیا ہو۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر دیا
سال 2024 کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نامزد کیا ہے۔ اگر ٹرمپ یہ انعام جیت لیتے ہیں تو وہ امریکا کے پانچویں صدر ہوں گے جنہیں نوبیل امن انعام دیا گیا، ان سے پہلے تھیوڈور روزویلٹ، ووڈرو ولسن، جمی کارٹر اور باراک اوباما اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔
کون جیت سکتا ہے؟
نوبیل انعام کے بانی، سویڈش صنعت کار الفریڈ نوبیل، جنہوں نے ڈائنامائٹ ایجاد کیا، اپنی وصیت میں لکھ چکے ہیں کہ یہ انعام اُس شخص کو دیا جانا چاہیے جس نے اقوام کے درمیان دوستی کو فروغ دیا ہو، جنگی افواج کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہوں، یا امن کے قیام اور فروغ کے لیے کانفرنسوں کا انعقاد کیا ہو۔
نوبیل کمیٹی کے موجودہ چیئرمین یورگن واتنے فریدنیس کے مطابق عملی طور پر دنیا کا کوئی بھی فرد یہ انعام جیت سکتا ہے، اور ماضی کی فہرست اس بات کی واضح مثال ہے کہ یہ انعام مختلف طبقوں اور ملکوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو دیا گیا ہے۔
کون نامزد کر سکتا ہے؟
ہزاروں افراد نوبیل انعام کے لیے کسی کو بھی نامزد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ان میں حکومتوں اور پارلیمان کے ارکان، موجودہ سربراہانِ مملکت، جامعات کے پروفیسرز (جو تاریخ، سماجی علوم، قانون یا فلسفہ پڑھاتے ہوں)، اور پچھلے نوبیل انعام یافتہ افراد شامل ہیں۔ البتہ کوئی بھی شخص خود کو نامزد نہیں کر سکتا۔
اگرچہ نوبیل کمیٹی نامزدگی کی فہرست کو 50 سال تک خفیہ رکھتی ہے، مگر جن لوگوں نے کسی کو نامزد کیا ہوتا ہے وہ خود چاہیں تو اس کا اعلان کر سکتے ہیں، جیسا کہ نیتن یاہو نے ٹرمپ کے لیے کیا۔
فیصلہ کون کرتا ہے؟
نوبیل امن انعام کا فیصلہ ناروے کی نوبیل کمیٹی کرتی ہے جس میں پانچ افراد شامل ہوتے ہیں جنہیں ناروے کی پارلیمنٹ نامزد کرتی ہے۔ یہ اراکین عموماً ریٹائرڈ سیاستدان ہوتے ہیں، لیکن ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:نوبیل امن انعام اکثر ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جنہیں عوام جانتے بھی نہیں، صدر ٹرمپ
موجودہ کمیٹی کی سربراہی ناروے کے “پین انٹرنیشنل” کے صدر کر رہے ہیں، جو آزادیٔ اظہار کی عالمی تنظیم ہے۔ کمیٹی کے ارکان کا انتخاب ناروے کے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی تناسب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
فیصلہ کیسے ہوتا ہے؟
نوبیل انعام کے لیے نامزدگیوں کا عمل ہر سال 31 جنوری کو مکمل ہوتا ہے، اس لیے نیتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ کی نامزدگی اس سال کے لیے قابلِ غور نہیں۔ کمیٹی کی فروری میں ہونے والی پہلی میٹنگ تک، خود کمیٹی کے ارکان بھی اپنے امیدوار نامزد کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد کمیٹی ایک مختصر فہرست تیار کرتی ہے، جس کے ہر امیدوار کا تفصیلی جائزہ مستقل مشیروں اور موضوعاتی ماہرین کی مدد سے لیا جاتا ہے۔ کمیٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ فیصلہ متفقہ ہو، لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو اکثریتی ووٹ سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ انعام کے اعلان سے صرف چند دن پہلے ہی حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
تنازعات
نوبیل امن انعام اکثر سیاسی پیغام سمجھا جاتا رہا ہے، اور بعض اوقات ایسے افراد کو بھی انعام دیا گیا ہے جن پر شدید اعتراضات ہوئے۔ نوبیل ویب سائٹ بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ بعض انعام یافتگان ’سیاسی طور پر متنازع شخصیات‘ تھیں۔
مثال کے طور پر 2009 میں باراک اوباما کو صرف چند ماہ بعد انعام دیا گیا، جس پر دنیا بھر میں سوالات اٹھے۔ 1973 میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور ویتنامی رہنما لی ڈک تھو کو ویتنام جنگ ختم کرنے کی کوششوں پر انعام دیا گیا، جس پر نوبیل کمیٹی کے دو اراکین نے استعفیٰ دے دیا۔ اسی طرح 1994 میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات، اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور شمعون پیریز کو مشترکہ انعام دیا گیا، جس پر بھی ایک رکن مستعفی ہو گیا۔
نوبیل انعام میں کیا ملتا ہے؟
نوبیل امن انعام جیتنے والے شخص یا ادارے کو ایک طلائی تمغہ، ایک خوبصورت ڈپلوما، 11 ملین سویڈش کراؤن (تقریباً 1.15 ملین امریکی ڈالر)، اور اگر پہلے سے مشہور نہ ہوں تو بین الاقوامی سطح پر فوری شہرت حاصل ہوتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الفریڈ نوبیل اوباما ڈونلڈ ٹرمپ نوبیل انعام نیتن یاہو