موسمیاتی تبدیلیوں اور آدھے سر کے درد کا تعلق سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین صحت نے موسمیاتی تبدیلیوں اور درد شقیقہ (مائیگرین) کے درمیان گہرے تعلق کی نشاندہی کی ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ موسم کا بدلنا نہ صرف عام سر درد بلکہ مائیگرین جیسے شدید درد کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر انسانی جسم کے اعصابی نظام، ہارمونل توازن اور خون کی شریانوں پر پڑتا ہے۔ جب موسم تبدیل ہوتا ہے، خاص طور پر بارش یا طوفان سے قبل ہوا کے دباؤ میں اتار چڑھاؤ آتا ہے، جو دماغ کے اردگرد موجود شریانوں کو پھیلا یا سکڑا سکتا ہے۔ یہ عمل مائیگرین کے دورے کو جنم دے سکتا ہے۔
شدید گرمی یا سردی کے موسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے۔ گرمیوں میں پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن) مائیگرین کو بدتر بنا سکتی ہے، جبکہ زیادہ نمی والے موسم میں جسم پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ یہ کیفیت خاص طور پر اس وقت زیادہ ہو جاتی ہے جب پسینہ آ رہا ہو اور جسم میں پانی کی کمی واقع ہو جائے۔
ماہرین کے مطابق بہار اور خزاں کے موسم میں ہوا میں موجود پولن، دھول اور دیگر الرجی پیدا کرنے والے ذرات بھی مائیگرین کا سبب بن سکتے ہیں۔ ناک کی الرجی اور سوزش دماغ کے اعصابی راستوں کو متاثر کر کے سر درد کو جنم دے سکتی ہے۔
تیز دھوپ یا چمکتی ہوئی روشنی، چاہے وہ براہ راست ہو یا بادلوں سے چھن کر آ رہی ہو، کچھ افراد میں بصری خلل (آورا مائیگرین) کا باعث بن سکتی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کے باعث نیند کے معمولات میں خلل پڑنا بھی مائیگرین کے دوروں کو متحرک کر سکتا ہے، چاہے وہ نیند کی کمی ہو یا ضرورت سے زیادہ نیند۔
ماہرین صحت کا مشورہ ہے کہ جن لوگوں کو موسمی تبدیلیوں سے مائیگرین کے دورے پڑتے ہوں، وہ موسم کے مطابق اپنی روزمرہ کی عادات کو ایڈجسٹ کریں۔ مناسب مقدار میں پانی پینا، معیاری نیند لینا اور شدید موسمی حالات میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ان مسائل سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سکتا ہے
پڑھیں:
یورپ شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں، گرمی کی شدت سے 2 ہزار سے زائد اموات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میڈرڈ : یورپ کو لپیٹ میں لینے والی شدید گرمی کی لہر کے نتیجے میں اب تک تقریباً2 ہزار300 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے 65 فیصد اموات موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہوئی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس ایک سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یورپ میں جون کے آخر سے جولائی کے اوائل تک جاری رہنے والی شدید گرمی کی لہر نے درجہ حرارت کو معمول سے 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھا دیا، جس کے نتیجے میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔
یہ تحقیق امپیریئل کالج لندن اور لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے ماہرین نے مشترکہ طور پر انجام دی، جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف 10 دن کے اندر (23 جون تا 2 جولائی) ہونے والی اموات میں موسمیاتی تبدیلی کا کلیدی کردار ہے۔
تحقیق میں یورپ کے 12 بڑے شہروں کو شامل کیا گیا جن میں لندن، پیرس، فرینکفرٹ، بوداپسٹ، زاگرِب، ایتھنز، روم، میلان، ساساری، بارسلونا، میڈرڈ اور لزبن شامل ہیں۔ ماہرین نے بتایا کہ ان شہروں میں گرمی کی شدت معمول سے کہیں زیادہ تھی، جس کے سبب ہیٹ اسٹروک اور دیگر گرمی سے جڑی پیچیدگیوں کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
تحقیق میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے یورپ بھر میں گرمی کی شدت اور دورانیہ دونوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
تحقیق میں خبردار کیا گیا کہ اگر انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ برسوں میں نہ صرف گرمی کی لہریں مزید شدید اور طویل ہوں گی بلکہ اس کے باعث اموات کی شرح میں بھی اضافہ متوقع ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین کے موسمیاتی ادارے Copernicus Climate Change Service نے بدھ کو جاری کردہ ماہانہ بلیٹن میں بتایا ہے کہ جون 2025 عالمی سطح پر تیسرا گرم ترین جون ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ادارے کی کلائمیٹ اسٹریٹجک لیڈ سمینتھا برگس نے کہا کہ جون 2025 میں مغربی یورپ کے وسیع حصوں میں شدید گرمی نے انسانی صحت کو براہِ راست متاثر کیا، اس کی شدت میں ریکارڈ سطح پر گرم بحیرہ روم کے درجہ حرارت نے مزید اضافہ کیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ برسوں میں ہیٹ ویوز مزید متواتر، شدید اور وسیع پیمانے پر متاثر کن ہوں گی، خاص طور پر یورپ جیسے گنجان آباد خطے میں۔
طبی ماہرین کے مطابق شدید گرمی سے زیادہ خطرہ بوڑھے افراد، کمزور قوت مدافعت رکھنے والے افراد، دل اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو ہوتا ہے، شہریوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں، پانی کا زیادہ استعمال کریں اور ٹھنڈے مقامات پر قیام کو ترجیح دیں۔