گلیشیئرز کا پگھلاؤ آتش فشاں سرگرمیوں کو خطرناک حد تک بڑھا سکتا ہے، نئی تحقیق میں انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنسدانوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے ایک نئے اور تشویشناک پہلو سے آگاہ کیا ہے کہ تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز دنیا بھر میں آتش فشاں سرگرمیوں کو کئی گنا زیادہ خطرناک بنا سکتے ہیں۔ یہ انکشاف پراگ میں منعقدہ گولڈشمڈ کانفرنس میں پیش کی گئی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔
یونیورسٹی آف وسکونسن- میڈیسن کے محقق پابلو مورینو کی قیادت میں کی گئی اس تحقیق کے مطابق، گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے زیر زمین میگما چیمبرز پر پڑنے والا دباؤ کم ہورہا ہے، جس کے نتیجے میں آتش فشاں زیادہ کثرت اور شدت کے ساتھ پھٹ رہے ہیں۔
مورینو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیئرز کے غائب ہونے سے آتش فشاں سرگرمیاں نہ صرف زیادہ ہوں گی بلکہ ان کی تباہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘
اس تحقیق میں چلی کے پیٹاگونیا علاقے میں موجود چھ آتش فشانوں کو زیر مطالعہ رکھا گیا، جہاں سائنسدانوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ گلیشیئرز کے پگھلاؤ نے ماضی میں آتش فشاں پھٹنے کے رجحانات کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ جیسے جیسے گلیشیئرز پگھلے ہیں، آتش فشاں سرگرمیوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ رجحان صرف جنوبی امریکا تک محدود نہیں، بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی جہاں گلیشیئرز اور آتش فشاں پہاڑ قریب قریب موجود ہیں، وہاں بھی اسی طرح کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس تحقیق نے موسمیاتی تبدیلی کے ان غیر متوقع اثرات کی طرف توجہ دلائی ہے جو اب تک سائنسدانوں کی توجہ سے کسی حد تک پوشیدہ تھے۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والی اس نئی تحقیق نے سائنسی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے، کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے اثرات صرف سمندروں کی سطح بلند ہونے یا موسم کے نمونے بدلنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ زمین کی اندرونی ساخت اور سرگرمیوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔
سائنسدان اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ رجحان مزید تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی
پڑھیں:
شادی میں تاخیر پاکستانی خواتین کو موٹاپے سے بچانے میں مددگار ثابت
ایک نئی اور منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ شادی میں تاخیر سے شہری علاقوں میں رہنے والی پاکستانی خواتین میں موٹاپے کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔
ماضی میں کی جانے والی متعدد تحقیقات میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ شادی کے بعد مرد و خواتین کا وزن بڑھتا ہے اور بعض جوڑوں میں شادی موٹاپے کا سبب بھی بنتی ہے۔
طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق سال 2012-13 اور 2017-18 کے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں نصف سے زیادہ بالغ خواتین زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں لیکن شادی میں تاخیر کا اثر شہری خواتین کے وزن پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کم عمری میں شادی کرنے سے موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ کم عمری میں خواتین کی زرخیزی کی وجہ سے ان پر بچے پیدا کرنے کا دباؤ ہوتا ہے جب کہ ان میں تعلیم، صحت سے متعلق معلومات اور گھریلو فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے۔
مذکورہ تحقیق یونیورسٹی آف یارک کی سربراہی میں کی گئی، اس میں بتایا گیا ہے کہ صنفی سماجی روایات اور شہری زندگی مل کر پاکستان میں موٹاپے کی شرح بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ شادی میں تاخیر سے خواتین کو زیادہ تعلیم، خواندگی اور صحت سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے، اس سے وہ بہتر صحت مند عادات اپناتی ہیں اور غذائیت پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔
اسی طرح شادی میں تاخیر سے اکثر شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا فرق کم ہوتا ہے، جس سے خواتین کو خوراک سمیت گھر میں فیصلہ سازی کا زیادہ اختیار ملتا ہے۔
یہ تحقیق اس سے پہلے کے شواہد پر مبنی ہے کہ شادی میں تاخیر سے تعلیم، روزگار کے مواقع، فیصلہ سازی کی طاقت، خواتین کی صحت اور ان کے بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔
تحقیق میں شامل ماہرین نے بتایا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں تقریبا 40 فیصد خواتین 18 سال سے کم عمری میں شادی کر لیتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق شہری علاقوں میں رہنے والی خواتین کے لیے شادی میں ہر اضافی سال کی تاخیر سے موٹاپے کا خطرہ تقریباً 0.7 فیصد کم ہوتا ہے اور 23 سال یا اس کے بعد شادی کرنے والی خواتین اس سے زیادہ فائدہ حاصل کر پاتی ہیں۔