کراچی: سندھ ہائیکورٹ کا لائن لاسز پر مبنی لوڈشیڈنگ کے خلاف کے الیکٹرک کو نوٹس، نیپرا ریجنل ہیڈ بھی طلب
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں بجلی کی بدترین بندش کے معاملے پر سندھ ہائیکورٹ نے لائن لاسز کو جواز بنا کر لوڈشیڈنگ کرنے پر کے الیکٹرک اور دیگر متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں، عدالت نے نیپرا کے ریجنل ہیڈ کو بھی 25 جولائی کو طلب کر لیا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل کمال نے جماعت اسلامی کے 9 ٹاؤن چیئرمینز کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، جس میں لائن لاسز کی بنیاد پر کی جانے والی طویل لوڈشیڈنگ کو چیلنج کیا گیا ہے۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کے الیکٹرک اپنی ہی پالیسی کے برعکس شہر کے کئی علاقوں میں 18، 18 گھنٹے تک بجلی بند کر رہا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ نیپرا کو اس حوالے سے شکایات کی گئیں، لیکن اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
جسٹس فیصل کمال نے ریمارکس دیے کہ شہر میں لوڈشیڈنگ کس طرح ہو رہی ہے، ہم سب جانتے ہیں، ہم بھی یہیں رہتے ہیں اور شہریوں کی مشکلات کا اندازہ ہے،تاہم یہ معاملہ آئینی بینچ میں بھیجا جانا چاہیے تھا۔
وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ ریگولر بینچ اس نوعیت کے کیسز کی سماعت پہلے بھی کر چکا ہے۔ ہم حکم نہیں بلکہ ایک ڈیکلریشن چاہتے ہیں کہ نیپرا کو کے الیکٹرک کے خلاف ناجائز لوڈشیڈنگ پر کارروائی کا پابند کیا جائے۔
عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد کے الیکٹرک اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 25 جولائی کو نیپرا کے ریجنل ہیڈ کی طلبی کا حکم دے دیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے الیکٹرک
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت، وکیل پی ایف یو جے کے دلائل جاری
اسلام آباد (محمد ابراہیم عباسی) اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو کالعدم قرار دینے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ جسٹس انعام امین منہاس نے کیس کی سماعت کی۔
درخواستیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)، اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور اینکرز کی جانب سے دائر کی گئیں۔ عدالت میں صدر PFUJ افضل بٹ، سیکرٹری RIUJ آصف بشیر چودھری اور دیگر نمائندگان پیش ہوئے۔ حکومت کی طرف سے تحریری جواب بھی جمع کرا دیا گیا، جبکہ درخواست میں صوبائی حکومتوں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراض دور کیا جا چکا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار وکلاء کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت دی، جس پر پی ایف یو جے کے وکیل ڈاکٹر یاسر امان خان نے دلائل کا آغاز کیا۔
جسٹس انعام امین منہاس نے وکیل کو ہدایت دی کہ وہ پہلے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم سے پہلے اور بعد کی صورتحال سے عدالت کو آگاہ کریں اور بیک گراؤنڈ بیان کریں تاکہ کیس کو بہتر سمجھا جا سکے۔
ڈاکٹر یاسر امان خان نے بتایا کہ 2016 میں پیکا ایکٹ متعارف کرایا گیا تھا، جبکہ 2025 کی ترمیم میں اس ایکٹ سے کچھ شقیں نکالی گئیں اور کچھ شامل کی گئیں، جن میں سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل کا قیام بھی شامل ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا کے لیے پہلے کوئی ریگولیٹری نظام موجود نہیں تھا، اسی لیے پیکا قانون نافذ کیا گیا۔ اب پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (PTA) کو بطور ریگولیٹر مقرر کیا گیا ہے جو کہ گزشتہ 31 سالوں سے کام کر رہی ہے۔ وکیل کے مطابق پیمرہ الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرتا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا کا الگ ریگولیٹر موجود ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر ایک اتھارٹی سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کر رہی ہے تو اس پر اعتراض کس بنیاد پر ہے؟ وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کونسل آف اپیل صرف مشورہ دیتی ہے کہ کنٹینٹ کو ہٹایا جائے جبکہ اس کے لیے مکمل “ڈیو پراسس” ہونا ضروری ہے، یہ صرف ڈمی پوزیشنز نہیں ہو سکتیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ سندھ ہائیکورٹ پہلے ہی پیمرا کو ہدایت دے چکی ہے کہ کونسل آف اپیل کے قیام کے لیے اخبارات میں اشتہار دیے جائیں، مگر نہ یہ ہدایت قانون میں شامل کی گئی ہے اور نہ ہی پیمرا رولز میں اس کا کوئی ذکر ہے۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کے دو اہم فیصلے بھی موجود ہیں۔
عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر وکیل پی ایف یو جے کے دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
صدر زرداری کے پنجاب میں ڈیرے؛ اہم ملاقاتوں کی تیاریاں مکمل