لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں شہری نے انکشاف کیاہے کہ میو ہسپتال میں خیبرپختون خوا سے آدھا صوبہ علاج کیلئے  آیا ہوا ہے ، کے پی کے کے ہسپتال میں تو ایک ڈسپرین بھی نہیں ملتی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک اینکر پرسن شہریوں سے گفتگو کر رہاہے ، اسی دوران ایک شہری اینکر پرسن کو بتاتا ہے کہ پنجاب میں سہولیات ہیں ، کے پی کے میں علاج کی سہولت نہیں ہے ، میو ہسپتال میں آدھا کے پی کے علاج کیلئے آیا ہواہے ، وہ کہتے ہیں وہاں پر ڈسپرین کی گولی تک نہیں ملتی ،ہسپتال میں ایک پٹھان نے کہا کہ میں کے پی کے سے آیا ہوں تو اسے پرچی نہیں دی گئی اور بتایا گیا کہ یہ سہولت پنجاب کیلئے ہے، پھر میں نے اپنے گھر کا پتہ لکھوایا ، پھر اس بیچارے کی بیوی کا علاج ہوا، اس کا شناختی کارڈ پر پشاور کا ایڈریس درج تھا۔ 

یادماضی عذاب ہے یا رب، پروفیسر شمشیر گوندل نے ماضی قریب میں ہونیوالے واقعات گنوادیئے

آدھا KPK مئیو ہسپتال میں آیا ہوا ہے۔
کے ہی کے کے ہسپتالوں میں ڈسپرین تک نہیں ملتی۔
وہاں جو شخص بیمار ہو اسکو 804 والی پشاوری چپل سونگھاؤ مریض صحت یاب ہوجاتا ہے ???? pic.

twitter.com/52PYtyaCOH

— Shakir juggan (@sami_lost2022) July 11, 2025

مزید :

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: ہسپتال میں کے پی کے

پڑھیں:

شہری اور دیہی زندگی

شہری اور دیہاتی زندگی میں بہت بنیادی فرق ہے۔شہری زندگی کی بات کریں تو اس میں جدید سہولیات کے مواقع ہیں اور یہ تیز رفتار طرزِ زندگی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔جبکہ دیہاتی زندگی قدرتی ماحول،سادگی اور روایتی طرزِ زندگی پر مبنی ہے۔زندگی شہر کی ہو،یا دیہات کی، حادثات و واقعات پر مبنی ہے۔روز مرہ زندگی کو دیکھتے ہیں تو ان گنت واقعات سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔ایسے بھی واقعات گزرتے ہیں جو انہونے ہی نہیں،چونکا دینے والے بھی ہوتے ہیں۔اگرچہ جرائم کی روک تھام کے لیئے بہت سے ادارے موجود ہیں لیکن پھر بھی ان کی بیخ کنی نہیں ہوتی۔ قانون اور ادارے جرائم کی روک تھام میں ناکام نظر آتے ہیں۔معاشرتی قدریں گہنا سی گئی ہیں۔ دانشور اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے بھی اب برملا کہنے لگے ہیں کہ معاشرتی اقدار کا جب تک خیال نہیں رکھا جاتا،حالات اسی طرح چلتے رہیں گے۔آخر کب تک ہم ان ساری مصیبتوں کا بوجھ اٹھائیں گے۔کیا ہم وہ لمحے نہیں دیکھ سکتے؟ جب ہم بھی اچھا وقت دیکھ سکیں اور ہماری بھی زندگیوں میں ڈھنگ کا کوئی بدلا آ جائے۔ہم بھی آسانیوں کو زندگی کا حصہ بنتے دیکھیں۔اگرچہ سائنس نے ہمیں نئی جہتوں میں داخل کر دیا لیکن کوئی کسک اب بھی باقی ہے کہ ہم نے بہت کچھ کھو دیا اور بہت کچھ کھونے والے ہیں۔پہلی سی محبتیں رہی ہیں وہ شفقتیں اور نہ ہی ماضی کی روایات۔جدید معاشرتی تہذیب نے سب اچھی اقدار کو مٹا دیا ہے۔وہ کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جو نہیں دیکھنا چاہتے۔تعلیم کے نام پر بیوپار ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کے پاس ڈگریاں ہیں لیکن سکلز نہیں۔ ان حالات میں اچھے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔شہروں میں تعلیم، صحت، نقل و حمل اور مختلف تفریح کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ دیہی زندگی میں ایسا نہیں۔شہروں میں کاروبار اور ملازمتوں کے بھی وسیع مواقع موجود ہوتے ہیں۔ خاص طور پر کارپوریٹ اور کافی صنعتی شعبے یہاں ہیں جبکہ گائوں میں ایسا کچھ نہیں۔محرومیوں کا طویل سلسلہ ہے جو ہمیں دیہی زندگی میں ملتا ہے۔شہر کی زندگی بہت تیز رفتار ہے۔مواصلات کے ذرائع بھی زیادہ اور وسیع ہیں۔سفری سہولتیں بھی آسان اور تیز رفتار ہیں۔زیادہ آبادی ہونے سے شہروں میں کثافت بھی زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث ہجوم،بھیڑ بھاڑ اور ٹریفک کا مسئلہ رہتا ہے۔آلودگی کے مسائل بھی یہاں بہت زیادہ ہیں ٹریفک گرد سے اٹھی ہوائوں کے باعث یہاں ماحولیاتی آلودگی بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔شہر اگرچہ جدید ہو گئے ہیں۔ بہت ترقی کر لی ہے۔ لیکن شہروں میں رہنے والے اکثر تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔لوگوں کا ایک دوسرے سے میل جول کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جس نے لوگوں کی اکثریت کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ اس کا شکار مرد ہی نہیں،اب عورتیں بھی ہو رہی ہیں۔دیہی معاشروں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ مضبوط سماجی روابط رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کی آبادی کم ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں امن اور سکون شہری علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ یہاں شور شرابا اور ٹریفک کے مسائل نہیں ہوتے۔لوگ قدرتی ماحول میں اپنا وقت گزارتے ہیں-
موجودہ پنجاب حکومت نے پنچاب کی دیہی زندگی کو بہتر بنانے کے لیئے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں کسانوں کے لئے آسان شرائط پر قرضے،ٹریکٹرز اور کھاد کی فراہمی جبکہ صحت و تعلیم کے بہت سے منصوبے بھی شامل ہیں۔تاریخ شاہد ہے جن دیہی علاقوں نے ترقی کی، وہ دیہی علاقے گائوں سے قصبے بن گئے۔بعد میں یہی قصبے مزید ترقی کر کے شہروں میں تبدیل ہوئے۔
تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ گیتھا یوک جو ترکی میں واقع ہے وہ پہلا باقاعدہ شہر ہے جو گائوں اور قصبوں کے ملاپ سے بنایا گیا۔تہذیب انسانی کی ارتقا میں ہمیشہ سے ٹائون پلاننگ کسی نہ کسی صورت شامل رہی ہے-حکمرانوں کی ضرورت اور وسائل کی دستیابی نے جب شہروں کو جنم دیا تو دیہات سے لوگ شہروں میں آ کر آباد ہونے لگے۔ یہ وہ لوگ تھے جو وسائل رکھتے تھے یا وسائل پیدا کرنے کی خواہش ان میں تھی۔انسانی تہذیب کے ابتدائی دور سے ہی شہروں کا وجود ملتا ہے۔زیادہ تر شہر دریا یا سمندر کے کنارے بسائے گئے۔دنیا میں جہاں بھی ترقی اور خوشحالی ہے۔وہ شہروں ہی کی مرہون منت ہے-پاکستان میں شہروں اور شہری آبادی کا سلسلہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کا ہے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور اور ڈھاکہ وغیرہ پہلے سے شہر تھے۔انگریزوں نے بھی منصوبہ بندی سے کچھ شہر بسائے۔جیسے ایبٹ آباد، فیصل آباد وغیرہ۔تاہم آزادی کے وقت ہماری بیشتر آبادی دیہاتوں میں ہی اقامت پذیر تھی۔ پاکستان بننے کے بعد دیہات سے شہروں کی طرف اقامت اختیار کرنے کے سلسلے نے نئے شہروں کو آباد کیا جہاں بسنے والوں کے لئے ان شہروں نے اعلی تعلیم اور روزگار کے بہت سے مواقع پیدا کئے۔جبکہ احساس محرومی بھی رہا جس سے یہاں جرائم نے جنم لیا۔تاہم دیہی علاقوں میں جرائم کا تناسب وہ نہیں جو شہروں میں ملتا ہے۔جرائم کی بیخ کنی کے لئے اگرچہ بہت سے ادارے سرگرم عمل ہیں لیکن جرائم ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔اس اعتبار سے دیہات کی زندگی پرامن اور اطمینان بخش ہے کہ یہاں ہنگامہ آرائی اور جرائم کی کوئی لہر نظر نہیں آتی۔ کاش ہمارے شہر بھی امن کا گہوارہ بن جائیں۔گائوں جیسے ہو جائیں۔شہری لوگ بھی دیہی علاقے کے لوگوں کی طرح امن، محبت اور سادگی سے رہنا اور جینا سیکھ لیں۔

متعلقہ مضامین

  • اداکارہ طوبیٰ انور کا انکشاف: شوبز اداکاراؤں کی ذہنی صحت کیلئے واٹس ایپ گروپ تشکیل
  • شہری اور دیہی زندگی
  • فنکاروں کی ذہنی صحت اور حالات سے آگاہ رہنے کیلئے واٹس ایپ سپورٹ گروپ بنایا ہے، طوبیٰ انور کا انکشاف
  • اداکارہ حمیرا کے چچا نے میڈیا کو حقائق بتا دیئے؛ ویڈیو وائرل
  • مقروض باپ نے بیٹی کے علاج کیلئے فیس بک پر مدد کی اپیل کے بعد خودکشی کرلی
  • صنعتی تنازعات کے حل کیلئے 7 شہروں میں این آئی آر سی کورٹس ویڈیو لنک سے منسلک
  • 40 ہزار سے کم آمدنی والوں کیلئے نئی امدادی اسکیم کی حقیقت کیا؟
  • سیاسی نعروں کے بجائے ، عوام کیلئے کام کریں،علی امین گنڈا پور
  • جن حلقوں میں سہولیات میسر نہیں وہاں کے ارکان اسمبلی کو جوتے مارنے چاہییں، علی امین گنڈاپور