کنگنا رناوت نے سیلفی لیتے مداح کو دھکا دینے پر جیا بچن کو آڑے ہاتھوں لے لیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
جیا بچن کے ایک مداح کو سیلفی لینے کے دوران دھکا دینا پر بالی ووڈ اور سیاست کا مشترکہ معاملہ بن گیا۔ کنگنا رناوت بھی میدان میں آگئیں۔
ماضی کی مقبول ترین ہیروئن جیا بچن کا تعلق سماج وادی پارٹی سے ہے اور وہ اپنی پارٹی سے رکن اسمبلی بھی ہیں۔
کنگنا رناوت بھی بالی ووڈ کی مشہور اور بے باک اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ حکمراں جماعت بی جے پی کی رکنِ پارلیمان ہیں۔
سینئر اداکارہ جیا بچن کے سیلفی لینے والے شخص کو دھکا دینے کے واقعے پر سیاسی عداوت اور پیشہ ورانی حسد نے صورت حال کو مزید گھمبیر کردیا۔
بالی ووڈ میں منہ پھٹ کہلائی جانے والی اداکارہ کنگنا رباوت نے جیا بچن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ لوگ ان کی بکواس اس لیے برداشت کرتے ہیں کیونکہ وہ امیتابھ بچن کی بیوی ہیں۔
اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر کنگنا رناوت نے مزید کہا کہ جیا بچن سب سے زیادہ بگڑی ہوئی، مراعات یافتہ، اور شرمندگی کی علامت خاتون ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سماج وادی پارٹی کی ٹوپی مرغے کی کلغی لگتی ہے اور جیا بچن لڑاکا مرغی کی طرح لگتی ہیں۔ یہ سب کچھ انتہائی شرمناک ہے۔
تاحال جیا بچن کا کنگنا رناوت کی اس پوسٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کنگنا رناوت جیا بچن
پڑھیں:
میانمار: سیاسی قیدی فوج کے ہاتھوں تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ، تفتیش کار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے غیرجانبدار تفتیش کاروں نے انکشاف کیا ہے کہ میانمار میں فوج کے حراستی مراکز میں قیدیوں کو منظم طور سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے دینا، دم گھونٹنا اور جنسی زیادتی سمیت کئی طرح کا بدترین سلوک شامل ہے۔
غیرجانبدارانہ تفتیشی طریقہ کار برائے میانمار (آئی آئی ایم ایم) کے مطابق، اس نے ملک میں ان جرائم کی تفصیلات جمع کرنے اور حراستی مراکز کی نگرانی سمیت سکیورٹی فورسز کے ان کمانڈروں کی نشاندہی کے معاملے میں اہم پیش رفت کی ہے جو ایسے جرائم کے ذمہ دار ہیں۔
Tweet URL'آئی آئی ایم ایم' کے سربراہ نکولس کومیجن نے بتایا ہے کہ فوج کے حراستی مراکز میں قیدیوں کے جنسی اعضا کو جلانے، دیگر جنسی تشدد اور جنگی قیدیوں سمیت حکومت کے خلاف مخبری کے الزام میں گرفتار کیے جانے والوں کو قتل کرنے جیسے جرائم کا منظم طور سے ارتکاب ہو رہا ہے۔
(جاری ہے)
فروری 2021 میں فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے اور ریاستی قونصلر آنگ سان سو کی سمیت سیاست دانوں کی گرفتاری کے بعد میانمار خانہ جنگی کا شکار ہے۔ فوجی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں اور انہیں پرتشدد انداز میں کچلنے کی کارروائیوں کے بعد ملک گیر مسلح مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے۔
جرائم کی تحقیقاتاس معاملے پر 'آئی آئی ایم ایم' کی جاری کردہ رپورٹ میں یکم جولائی 2024 سے 30 جون 2025 کے درمیانی عرصہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس دوران 1,300 ذرائع سے معلومات جمع کی گئیں جن میں 600 عینی شاہدین کے بیانات، تصاویر، ویڈیو، دستاویزات، نقشے اور فارنزک شہادتیں شامل ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فوج کی جانب سے سکولوں، گھروں اور ہسپتالوں پر حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ مارچ 2025 میں آنے والے زلزلے کے بعد امدادی کارروائیوں کے دوران بھی حملے جاری رہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کردہ یہ تفتیش کار ایسے حملوں کے ذمہ داروں کی نشاندہی کے لیے میانمار کی ایئر فورس اور اس کی اعلیٰ سطحی قیادت کی ذمہ داریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ریاست راخائن میں ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں نئی تحقیقات بھی شروع ہو گئی ہیں جہاں فوج اور اس کی مخالف آراکان آرمی علاقے پر قبضے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، 2016 اور 2017 میں روہنگیا آبادی کے خلاف جرائم کی تفتیش بھی جاری ہے۔
بین الاقوامی جواب طلبیتفتیش کاروں کی جمع کردہ شہادتوں کو پہلے ہی عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) اور عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے۔
ان ثبوتوں کی بدولت 'آئی سی سی' کے پراسیکیوٹر نے نومبر 2024 میں میانمار کی فوج کے سربراہ من آنگ لائن کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے تھے جبکہ رواں سال فروری میں ارجنٹائن کی وفاقی عدالت نے بھی 24 دیگر لوگوں سمیت ان کی گرفتاری کا حکم دیا تھاکومیجن نے بتایا ہے کہ میانمار میں فوجی حکومت کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم کی رفتار اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سیاسی، معاشی و انسانی بحرانمیانمار میں فوج، جمہوریت نواز فورسز اور قوم پرست مسلح گروہوں کے مابین لڑائی کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ ملک کو کڑے سیاسی، معاشی اور انسانی بحران کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں، اسے 2017 میں ریاست راخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائی کے سنگین اثرات بھی درپیش ہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے ان کارروائیوں کو نسلی صفائی کی کتابی مثال قرار دیا تھا جن کے نتیجے میں 10 لاکھ روہنگیا نے بنگلہ دیش کی جانب نقل مکانی کی جہاں یہ لوگ گنجان پناہ گزین کیمپوں میں مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوم متحدہ کے تفتیش کاروں نے خبردار کیا ہے کہ امدادی وسائل کا بحران ان کے کام پر اثر انداز ہو رہا ہے اور انہیں مظالم کے گواہوں تک براہ رسائی میں مشکلات، سلامتی کے خدشات اور سائبر سکیورٹی کے خطرات سمیت کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔