سپریم کورٹ: پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج ، جبری ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن دینے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے قراردیا ہے کہ اگر بطور سزاکسی کوجبری طور پر ریٹائرڈ کریں گے تو10 سال سروس ہونے کی صورت میں اسے پنشن ملے گی۔ کہاں لکھا ہے کہ سزاہوجائے اور 20سال سروس نہ ہوتواُس کوپنشن نہیں ملے گی، اگر اتناہی مسئلہ ہے توپنجاب حکومت اپنے رولز میں ترمیم کرلے، موجودہ رولز کافائدہ تولوگو ںکودیں۔
بینچ نے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواستیں خارج کردیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 2رکنی بینچ نے سوموار کے روز جبری ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن نہ دینے کے معاملہ پر سیکرٹری خزانہ پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایڈمن ایس اینڈ جی اے ڈی ڈپارٹمنٹ لاہور اوردیگر کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سید انجم عباس، عمران حسین قریشی اور محمد یاسر کے خلاف دائر درخواستوںپرسماعت کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد مسعود غنی پیش ہوئے جبکہ مدعاعلیہان ذاتی حیثیت میں بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ پنشن کے لئے مدعاعلیہان کی مطلوبہ سروس پوری نہیں تھی، مدعاعلیہان کو ڈسپلنری کارروائی کے بعد جبری طور پر ریٹائرڈ کیا گیا، مدعاعلیہان پر پنجاب سروس رولز 1963لاگو ہوتے ہیں، پنشن کے لئے کم ازکم سروس 20سال ہونی چاہیے ،جبکہ مدعاعلیہان میں سے ایک کی سروس14سال، ایک کی13سال اورایک کی 16سال ہے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ اگر بطور سزاکسی کوجبری طور پر ریٹائرڈ کریں گے تو10سال سروس ہونے کی صورت میں اسے پنشن ملے گی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ کہاں لکھا ہے کہ سزاہوجائے اور 20سال سروس نہ ہوتواُس کوپنشن نہیں ملے گی، اگر اتناہی مسئلہ ہے توپنجاب حکومت اپنے رولز میں ترمیم کرلے، موجودہ رولز کافائدہ تولوگو ںکودیں۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ایکٹ رولز کوروک نہیں رہا، اگرتبدیل کرنے ہیں تورولز تبدیل کرلیں، رولز میں ترمیم کرنی ہے توکرلیں۔ بینچ نے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواستیں خارج کردیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس سید منصورعلی شاہ پنجاب حکومت کی جانب سے ملے گی
پڑھیں:
بنگلہ دیش: جبری گمشدگی کے جرائم پر سخت سزائیں دینے کا فیصلہ، آرڈیننس منظور
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی مشاورتی کونسل نے 2025 کے لیے ’جبری گمشدگی کی روک تھام، علاج اور تحفظ‘ کے مسودے کی حتمی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت اغوا یا جبری گمشدگی کے مرتکب افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا موت ہوگی۔
چیف ایڈوائزر پروفیسر یونس کے پریس سیکریٹری شفیق العالم نے جمعرات کو فارن سروس اکیڈمی ڈھاکہ میں مشاورتی کونسل کے اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا۔ اجلاس کی صدارت چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کی۔
مزید پڑھیں: پولیس اصلاحات: آئرلینڈ کی بنگلہ دیش کو معاونت فراہم کرنے کی پیشکش
پریس سیکریٹری کے مطابق یہ آرڈیننس متاثرین کے لیے انصاف یقینی بنانے اور جبری گمشدگی کے خلاف سخت قانونی فریم ورک قائم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس پر طویل عرصے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے۔
مسودے کو پہلے پالیسی کی منظوری حاصل تھی، تاہم کونسل کے حالیہ اجلاس میں اسے باضابطہ نفاذ کے لیے حتمی شکل دی گئی ہے۔
تجویز کردہ قانون میں جرم کے مرتکب افراد کے لیے موت کی سزا اور معاونین یا سہولت فراہم کرنے والوں کے لیے سخت قید کی سزائیں شامل ہیں۔
یہ اقدام حکومت کے اس حالیہ فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے لیے علیحدہ کمیشن قائم نہ کیا جائے بلکہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے دائرہ کار میں ان معاملات کی تحقیقات شامل کی جائیں۔
سرکاری حکام کے مطابق یہ نیا قانونی فریم ورک عبوری مدت کے دوران قانون کی بالادستی اور جوابدہی کو مضبوط بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے، جس کے بعد قومی انتخابات ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پروفیسر یونس کے روڈ میپ کی حمایت کرتے ہیں، نئے انتخابات کے بعد استحکام آئےگا، بنگلہ دیشی فوج
رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش میں حالیہ برسوں میں 1900 سے زیادہ جبری گمشدگیوں کی شکایات موصول ہو چکی ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ نئے آرڈیننس کے ذریعے ذمہ دار افراد کو سب سے اعلیٰ سطح کے انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا دی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آرڈیننس بنگلہ دیش پروفیسر یونس جبری گمشدگی چیف ایڈوائزر مشاورتی کونسل وی نیوز