اسلام آباد +پشاور(نوائے وقت رپورٹ) بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ 27 ستمبر کے جلسے میں پوری قوم نکلے، یہ جلسہ قوم کی آزادی کے لیے ہے، بانی نے پارٹی کو ہدایت کی ہے جلسے کو کامیاب بنائیں۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن علیمہ خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے 4 پیغامات بھیجے ہیں، بانی نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاہدہ کی بہت اہمیت ہے، پاکستان کو عالمی سطح پر رابطے تیز اور بحال رکھنے چاہییں، بانی نے کہا حرمین شریفین کی حفاظت ہمارے لئے سعادت ہے۔ علیمہ خان نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں ایک گواہ جھوٹا ثابت ہوا ہے، جھوٹی گواہی پر کیس ختم ہونا چاہیے، سابق ملٹری سیکریٹری نے بھی تمام دستاویزات کو درست قرار دیا، لگتا ایسے ہے اگلی دو تین سماعتوں میں کیس ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے اس کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی رہا ہوجائیں گے، بانی پی ٹی آئی نے اخبار پڑھے ہیں، انہوں نے کرکٹ پر بات کی۔ بانی نے کہا کہ محسن نقوی نے کرکٹ تباہ کردی، بانی نے کہا 2021 میں پاکستان نے انڈیا کو 10 وکٹوں سے ہرایا تھا۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں 2 تہائی اکثریت ملی تھی، ہمارا ووٹ چوری کیا گیا، ہمارے ووٹ چوری کرکے چوروں کو حکومت دی گئی، سزا یافتہ لوگوں کو ملک پر مسلط کیا گیا، پاکستان میں اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا ہے، 26ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو مکمل طور پر دبا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی ججز رول آف لاء کیلئے کھڑے ہوئے ہیں، جو ججز رول آف لاء کیلئے کھڑے ہیں، وہ قوم کے ہیرو ہیں۔ بانی نے کہا کہ 27 ستمبر کے جلسے میں پوری قوم نکلے، میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا یے، یہ جلسہ قوم کی آزادی کیلئے ہے، بانی نے پارٹی کو ہدایت کی ہے جلسے کو کامیاب بنائیں۔ علیمہ خان نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے جلسے کی ذمہ داری علی امین گنڈا پور اور جنید اکبر کو سونپی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تین سال سے ہم نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی، مذاکرات کے بجائے انہوں نے ہماری پارٹی کو مزید دبایا ہے، مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، بیرسٹر گوہر، بیرسٹر سیف اور علی امین گنڈا پور کو کہا ہے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات نہ کرے، جس نے بات کرنی ہے وہ جیل آئے۔ تحریک انصاف نے 27 ستمبر پشاور جلسے کو بانی کی رہائی کے لیے ایک سنگ میل قرار دے دیا، وزیراعلیٰ کے پی نے کہا ہے کہ پشاور کا جلسہ تاریخ رقم کرے گا۔وزیراعلیٰ خیبرپی کے کی زیر صدارت اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں ضلع پشاور پی ٹی آئی کی کمیٹی کے عہدے داروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں 27 ستمبر جلسے کے انتظامات اور حکمت عملی کے حوالے سے مشاورت کی گئی اور تیاریوں کو حتمی شکل دی گئی۔جلسے کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپی کے کے ترجمان فراز مغل کو فوکل پرسن مقرر کردیا گیا۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ عمران خان کی کال پر 27 ستمبر کا تاریخی جلسہ پشاور میں ہوگا، جلسہ رنگ روڈ موٹروے چوک کے قریب منعقد کیا جائے گا، جلسہ شام 4 بجے شروع ہوگا، جلسے میں درود و سلام اور اجتماعی دعا کا خصوصی اہتمام ہوگا۔ جلسے کو عمران خان کی رہائی اور حقیقی آزادی کی تحریک کا سنگ میل قرار دیا گیا۔وزیراعلی خیبرپی کے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کے لیے سب ایک ہیں، پشاور کا جلسہ تاریخ رقم کرے گا، یہ اجتماع حقیقی آزادی کی جدوجہد کا تسلسل ہے، عمران خان کی قیادت میں قوم اپنے حق کی جنگ لڑ رہی ہے، سب نے ایک ہو کر خان کی تحریک کو مزید مضبوط بنانا ہے۔علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پشاور کا عظیم الشان اجتماع تحریک انصاف کا تاریخی باب ثابت ہوگا، قوم متحد ہو تو کوئی طاقت آزادی کی راہ نہیں روک سکتی ، یہ تحریک عوام کے مستقبل اور انصاف کے قیام کی جدوجہد ہے، عمران خان کی رہائی ہماری منزل ہے، حقیقی آزادی کی جدوجہد میں پشاور کا جلسہ سنگ میل ہوگا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: عمران خان کی بانی نے کہا بانی پی ٹی پی ٹی ا ئی ا زادی کی نے کہا کہ علی امین کی رہائی پشاور کا دیا گیا کا جلسہ جلسے کو کہا ہے کے لیے

پڑھیں:

کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-7
میر بابر مشتاق
سنتے تھے کہ طوائف اپنی عزت بیچ کر اپنے گرو کا پیٹ بھرتی ہے۔ اب یہ مثال سیاست پر فٹ کر کے دیکھ لیجیے؛ آج تحریک انصاف کے ارکان وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو طوائف ادا کرتی ہے، اور پیپلزپارٹی وہ گرو ہے جو ہر وقت اپنی ’’مانگ‘‘ بھروانے کے لیے ان ارکان کو بلا لیتی ہے۔ جب گرو یعنی پیپلزپارٹی کو ووٹوں کی ضرورت پڑی، تحریک انصاف کے ارکان حاضری دینے پہنچ گئے۔ سینیٹ الیکشن میں زرداری صاحب کے نامزد امیدواروں کو مدد درکار تھی؟ کپتان کے کھمبے دوڑ پڑے۔ کراچی کے میئر کے لیے 32 ووٹ کم تھے؟ پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین خدمت کے لیے پیش ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے لیے 6 ووٹ درکار تھے؟ تحریک انصاف نے سخاوت میں 9 ارکان زرداری کی جھولی میں ڈال دیے۔ کسی نے سچ کہا تھا، ’’تم پی ٹی آئی کو ووٹ دو، ووٹ زرداری کی جیب میں ملے گا!‘‘

اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ وجہ سادہ ہے: عوام اپنے نمائندوں کو نمائندہ نہیں، کپتان کا کھمبا سمجھتے ہیں۔ انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں، تم صرف کپتان کے کھڑے کیے گئے آدمی ہو۔ کپتان چاہے جس پر ہاتھ رکھ دے، وہ چور بھی سر آنکھوں پر، اور جسے رد کر دے، وہ حاجی بھی بھاڑ میں جائے۔ اب سوچو! جب ایک نمائندہ جانتا ہے کہ وہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ ’’کپتان کے کرشمے‘‘ سے آیا ہے، تو وہ تمہارے لیے کیوں کھڑا ہوگا؟ جہاں زیادہ مفاد اور اقتدار دکھائی دے گا، وہ وہیں جا لگے گا۔ ویسے بھی کپتان صاحب نے آج تک ’’بہتر مردم شناسی‘‘ کا ثبوت کب دیا ہے؟ محمود خان سے بزدار تک، گنڈاپور سے موجودہ مراد سعید کی سستی نقل تک، ہر مثال بتاتی ہے کہ عمران خان کی ٹیم چننے کی صلاحیت کسی تجربہ گاہ میں ناکام تجربے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کپتان کھمبے کھڑا کرتا ہے، زرداری کی کرین آکر اٹھا لے جاتی ہے۔ بس یہی ہے پوری سیاست کی تلخ سچائی۔

اب آتے ہیں اس کھیل کے دوسرے منظر پر؛ جہاں نظریہ کی موت کو ’’سیاسی حکمت ِ عملی‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ جب تک عمران خان ہے، زرداری چاروں صوبوں میں حکومت بنائے گا۔ سینیٹ الیکشن؟ عمران زرداری کے جیب میں۔ رجیم چینج؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کراچی میئر الیکشن؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کشمیر حکومت سازی؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ یعنی عمران کو ووٹ دو، زرداری کو اقتدار دو۔ ’’کپتان کھیلتا کہیں ہے، جیتتا زرداری ہے!‘‘ اللہ بخشے عمران خان کو، فرمایا کرتے تھے کہ ’’لوگ میرے نظریے پر اکٹھے ہو رہے ہیں‘‘۔ واقعی اکٹھے ہوئے تھے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان، خواتین، بزرگ۔ مگر اب لگتا ہے وہ سب نظریے کے گرد نہیں، اقتدار کے گرد جمع ہوئے تھے۔

آزاد کشمیر کی سیاست نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ تحریک انصاف کے نو وزراء ایک ایک کر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے وہی چہرے جو کل تک ’’نیا کشمیر‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے، آج ’’پرانے پاکستان‘‘ کی کرسیوں پر بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔ زرداری ہاؤس میں شمولیت کی تقریب ایسے منعقد ہوئی جیسے نظریہ نہیں، بلکہ سیاسی وفاداری کا جنازہ پڑھا جا رہا ہو۔ ظفر اقبال، عبدالماجد، اکبر ابراہیم اور دیگر وہ نام ہیں جو کبھی خود کو انقلاب کا سپاہی سمجھتے تھے، آج وہ اقتدار کے غلام بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر نظریہ کہاں گیا؟ کیا تحریک انصاف واقعی تبدیلی کی علامت تھی؟ یا وہ صرف ایک سیاسی پروجیکٹ تھا جو اپنا کام مکمل کر چکا؟ کہتے ہیں زرداری سیاست نہیں کھیلتے، وہ کھیل بناتے ہیں۔ کراچی، کشمیر، یا سینیٹ۔ ہر جگہ پیپلز پارٹی کا جادو چل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کپتان کی ’’ٹیم‘‘ دراصل زرداری کی ’’ریزرو فورس‘‘ ہے۔ جہاں اسے ضرورت پڑتی ہے، وہاں یہ فورس پہنچ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ’’سیاسی چالاکی‘‘ کا ماسٹر کہا جاتا ہے، مگر تحریک انصاف نے تو ’’سیاسی نادانی‘‘ میں بھی نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نظریہ بیچ کر وزارتیں خریدنے والوں کا قافلہ روز لمبا ہوتا جا رہا ہے۔

یہ المیہ صرف تحریک انصاف کا نہیں، یہ پورے سیاسی نظام کا عکاس ہے۔ یہاں جماعتیں نظریے سے نہیں، اقتدار کی ہوا کے رُخ سے چلتی ہیں۔ جب اقتدار کا موسم بدلتا ہے تو نظریہ بھی نئی سمت اُڑ جاتا ہے۔ وفاداریاں وزارتوں اور وعدوں کے بدلے فروخت ہوتی ہیں، اور عوام سوچتے رہ جاتے ہیں۔ کیا واقعی یہ وہی ’’تبدیلی‘‘ تھی جس کا خواب انہیں دکھایا گیا تھا؟ عمران خان کہا کرتے تھے: ’’ہم پرانے پاکستان کی سیاست ختم کرنے آئے ہیں‘‘۔ افسوس! آج لگتا ہے کہ پرانے پاکستان کی سیاست نے تحریک انصاف کو ہی ختم کر دیا ہے۔ زرداری ہاؤس میں جشن کا سماں ہے۔ فریال تالپور مسکرا رہی ہیں۔ جن لوگوں نے کل ’’کرپشن مافیا‘‘ کے خلاف نعرے لگائے تھے، آج وہی ہاتھ بڑھا کر اسی مافیا کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، تماشا ہے تماشائی عوام ہیں، اور اداکار وہ رہنما جو نظریے کو لباس کی طرح بدل لیتے ہیں۔ قیام پاکستان نظریے کی بنیاد پر ہوا، مگر اس ملک کی سیاست ہمیشہ مفاد کی بنیاد پر چلی۔ آج تحریک انصاف کے ٹوٹتے دھاگے دراصل نظریہ سیاست کی تدفین ہیں۔ یہ محض وفاداریوں کی تبدیلی نہیں، یہ اخلاقیات، شرافت اور امید کے جنازے کا منظر ہے۔

سوال یہ نہیں کہ یہ وزراء کیوں گئے، سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں ایسا کیا باقی نہیں رہا کہ وہ لوگ رُکے نہیں؟ کیا خان صاحب کا نظریہ صرف جیل کی دیواروں میں قید ہو گیا ہے؟ یا یہ جماعت ایک ایسی کشتی بن چکی ہے جس کے ملاح اب اپنے اپنے کنارے ڈھونڈ رہے ہیں؟ پاکستان میں اگر تبدیلی آنی ہے تو پہلے سیاسی کلچر بدلنا ہوگا۔ ضرورت ہے کہ: 1۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی جمہوری نظام کو مضبوط کریں۔ 2۔ شفافیت کو سیاست کا حصہ بنائیں۔ 3۔ نظریاتی تربیت کو لازم کریں۔ 4۔ وفاداری بدلنے والوں کے لیے واضح قانون بنائیں۔ 5۔ عوام نمائندوں سے کارکردگی کا حساب لیں۔ ورنہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ کپتان کھمبے کھڑا کرے گا، زرداری کرین لے جائے گا۔ عوام نظریے کا نعرہ لگائیں گے، اور اقتدار والے مفاد کا جشن منائیں گے۔

شاید اصل سوال اب یہ نہیں کہ کپتان کی ٹیم ناکام ہوئی یا زرداری کامیاب، بلکہ یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی نظریہ جیتے گا؟ یا یہاں ہمیشہ مفاد ہی بادشاہ رہے گا؟ فی الحال تو لگتا ہے کہ نظریہ قبر میں ہے، اور اس کی قبر پر سیاست دان پھول نہیں۔ بیان بازی کے پتھر رکھ رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، ایک کھیل ہے۔ جس میں کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں، مگر کھیل وہی رہتا ہے۔

(یہ کالم کسی مخصوص جماعت کے حق یا مخالفت میں نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے طنزیہ رویوں پر ایک فکری تبصرہ ہے۔)

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ، عوامی مشکلات کے پیش نظر پی ٹی آئی کا جلسہ منسوخ کرنیکا اعلان
  • کوئٹہ میں پی ٹی آئی جلسہ،شہر بھر کے راستے بند، موبائل انٹرنیٹ سروس بھی معطل
  • کوئٹہ میں پی ٹی آئی کا جلسہ، حکومت نے انٹرنیٹ اور سڑکیں بند کر دیں
  • کوئٹہ: پی ٹی آئی جلسے کے پیش نظر راستے بند، انٹرنیٹ سروس معطل
  • کوئٹہ :پی ٹی آئی جلسے کے پیش نظر راستے بند، موبائل اورانٹرنیٹ سروس معطل 
  • کوئٹہ میں پی ٹی آئی جلسے کے پیش نظر شہر بھر کے راستے بند، موبائل انٹرنیٹ معطل
  • پی ٹی آئی کا کوئٹہ جلسہ خطرے میں، ضلعی انتظامیہ نے اجازت کی درخواست مسترد کردی
  • بلوچستان بھر میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ، تحریک انصاف کی جلسے کی اجازت مسترد
  • اسٹیبلشمنٹ سے بات نہیں ہوگی، آزادی یا موت ، غلامی قبول نہیں ،عمران خان
  • کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!