پاک فضائیہ کے سربراہ سے بحرین نیشنل گارڈ کے کمانڈر کی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
تصویر سوشل میڈیا۔
کمانڈر بحرین نیشنل گارڈ جنرل شیخ محمد بن عیسیٰ نے منگل کو ایئر ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا اور پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو سے ملاقات کی۔
مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں دفاعی تعاون اور مشترکہ ٹریننگ اور ایوی ایشن انڈسٹری میں گہرے اشتراک کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
ایس پی آر کے مطابق ایئر چیف نے کمانڈر بحرین نیشنل گارڈ کو پاک فضائیہ میں جدتوں سے متعلق آگاہ کیا اور انفرااسٹرکچر کے ذریعے فضائیہ کو جدید بنانے کے منصوبوں کے بارے میں بتایا۔
ایئر چیف نے کہا کہ اسٹریٹیجک اقدامات فضائیہ کی تیاری اور کثیرالجہتی جنگ میں تکنیکی برتری کو مزید بڑھانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاک بحرین مذہبی، تاریخی اور عسکری تعلقات بہترین تعاون کی صورت میں نمایاں ہیں۔
ایس پی آر کے مطابق اس موقع پر کمانڈر بحرین نیشنل گارڈ نے بھارت کے خلاف جنگ میں پاک فضائیہ کی غیرمعمولی کارکردگی پر مبارکباد دی اور پاک فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت، آپریشنل تیاری اور شاندار جرات کو سراہا۔
ایس پی آر کے مطابق کمانڈر بحرین نیشنل گارڈ نے ٹریننگ کے شعبے میں اشتراک بڑھانے کی خواہش ظاہر کی، کمانڈر بحرین نیشنل گارڈ نے مشقوں کے ذریعے مشترکہ تربیت کی اہمیت پر زور دیا اور دوطرفہ مشقیں اور تربیتی منصوبے شروع کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
ایس پی آر کے مطابق ملاقات دوطرفہ دفاعی تعلقات کو مزید تقویت دینے کے عزم کی عکاس ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کمانڈر بحرین نیشنل گارڈ ایس پی آر کے مطابق پاک فضائیہ
پڑھیں:
1965ء، پاک فضائیہ نے ٹرانسپورٹ طیارے کو بطور بمبار طیارہ استعمال کر کے دشمن کو ہکا بکا کردیا
—تصویر بشکریہ پاک فضائیہ1965 میں پاک فضائیہ نے بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے سی-130 طیاروں کو بطور بمبار طیارہ استعمال کر کے دشمن کو حیران کردیا۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ جاری تھی، پاک فضائیہ کو میدان جنگ میں مکمل فضائی برتری حاصل تھی، لیکن لاہور پر حملہ آور بھارتی فوج بدستور بی آربی کنال کی دوسری جانب مورچہ بند تھی اور لاہور شہر پر مزید حملوں کا خطرہ موجود تھا، دشمن بھاری توپ خانے سے مسلسل لاہور کے دفاع میں موجود ہماری بری فوج پر گولہ باری کر رہا تھا، اس صورتحال میں دشمن کو سبق سکھانے کے لیے پاک فضائیہ نے جارحانہ روش اختیار کی۔
21 ستمبر 1965ء کی شب پاک فضائیہ نے ایک منفرد قدم اٹھاتے ہوئے اپنے سی-130 ٹرانسپورٹ طیاروں کو بطور بمبار استعمال کرنے کا انوکھا فیصلہ کیا، اس سلسلے میں ان جہازوں میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں جس میں ان جہازوں کے پچھلے حصے میں موجود دروازوں کو عارضی طور پر ہٹا دیا گیا تاکہ بھاری گولہ بارود با آسانی دشمن پر گرایا جاسکے۔
یکم ستمبر 1965 کے تاریخی دن جب پاک فضائیہ کے شہبازوں نے دشمن کے عددی برتری کے غرور کو خاک ملاتے ہوئے اپنی فضائی برتری قائم کی تھی۔
یہ یقیناً ایک پُر خطر مشن تھا، مشن میں شامل پہلا طیارہ فلائٹ لیفٹیننٹ نذیر احمد اور فلائٹ لیفٹیننٹ جاوید حیات ملک جبکہ دوسرا طیارہ ونگ کمانڈر زاہد بٹ اڑا رہے تھے، اس حملے میں شامل سی- 130 ہرکولیس طیاروں نے رات 11 بجے دریائے راوی کو پار کیا اور 8 ہزار فٹ کی بلندی سے 18 ہزار پاؤنڈ وزنی بم دشمن کی پوزیشنز پر گرا دیے، حملہ کامیاب رہا اور دشمن کی 40 عدد بڑی توپیں فوری طور پر خاموش ہوگئیں اور گولہ باری کا سلسلہ فوری طور پر تھم گیا، یہ ایک کامیاب ضرب تھی، جس کو مزید تقویت دینے کے لیے کچھ وقفے کے بعد ایک اور ضرب ونگ کمانڈر زاہد بٹ(جو اس وقت پاک فضائیہ کے 35 ویں ونگ کے کمانڈنگ آفیسر تھے) نے لگائی، گو کہ پچھلے حملے کے بعد اب دشمن زیادہ چوکس ہوچکا تھا اور اب وہاں دشمن کی طیارہ شکن توپیں بھر پور فائرنگ کر رہی تھیں، لیکن ونگ کمانڈر زاہد بٹ نے انکی کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنے مشن کو کامیابی سے مکمل کیا۔