سلمان علی آغا نے رنر اپ کا چیک وصول کرکے کیوں پھینکا؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
کراچی:
ایشیا کپ کی اختتامی تقریب میں پاکستان ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا کی جانب سے رنر اپ کا چیک پھینکے جانے کی حقیقت سامنے آگئی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کپتان سلمان علی آغا بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اے سی سی کے عہدیدار امین الاسلام بلبل سے رنر اپ کا چیک وصول کرنے کے بعد فوراً تیز انداز میں پھینک دیتے ہیں۔
آغا سلمان کے اس عمل پر بھارتیوں نے پروپیگنڈا کیا کہ پاکستانی کپتان نے بھارتی مہمان سے چیک وصول کرکے سب کے سامنے ہتک آمیز انداز میں پھیک کر انکی توہین کی ہے اور انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ بھارتی ٹیم نے محسن نقوی سے ٹرافی وصول کرنے سے انکار کیا ہے۔
تاہم معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ جس شخصیت کو بھارتی کہا جارہا ہے وہ اصل میں بنگلادیش کرکٹ بورڈ کے صدر امین الاسلام ہیں۔ سلمان علی آغا کا چیک پھینکنا دانستاً نہیں تھا بلکہ چیک دینے کے فوراً بعد انہیں پریزنٹر نے اپنے پاس آنے کو کہا تو انہوں نے جلدی میں چیک کو رکھنے کی کوشش کی جس سے دیکھنے والوں کو لگا کہ شائد چیک کو پھینکا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایشیا کپ کے فائنل میں کامیابی کے بعد بھارتی ٹیم نے محسن نقوی سے ٹرافی وصول کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے باعث اختتامی تقریب تاخیر کا شکار ہوئی تھی۔
بھارتی ٹیم کے غیر پیشہ ورانہ رویے اور کھیل کو سیاست زدہ کرنے کے باعث تاریخ میں پہلی بار کسی ایشیا کپ میں فاتح ٹیم کو ٹرافی نہیں دی جاسکی۔
Salman Ali agha throw s away cheque that pakistan got as a runner up of this asian cup #IndianCricket #IndiaVsPakistan pic.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سلمان علی ا غا کا چیک
پڑھیں:
ایشیا کپ ٹرافی تنازع: بھارت کی اے سی سی صدر کو ہٹانے کی دھمکی
ایشین کرکٹ کونسل کو ایک غیر معمولی قیادت کے بحران کا سامنا ہے کیونکہ بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) مبینہ طور پر اے سی سی کے صدر محسن نقوی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جس سے براعظمی کرکٹ باڈی کے اندر گہرے سیاسی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ شدید اختلاف دبئی میں اپنی چیمپئن شپ کی فتح کے بعد بھارت کی جانب سے محسن نقوی سے ایشیا کپ ٹرافی قبول کرنے سے انکار سے پیدا ہوا ہے۔ بھارتی ٹیم نے ٹرافی اے سی سی ہیڈکوارٹر میں ہی چھوڑ دی، یہ ایک ایسا عمل ہے جو اب کرکٹ کی دنیا میں ایک بڑا سفارتی واقعہ بن چکا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ کونسل اب مخالف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ بنگلہ دیش بظاہر پاکستان کے ساتھ ہے، جبکہ سری لنکا بھارت کے مؤقف کی حمایت کر رہا ہے۔ افغانستان کی وفاداری غیر واضح ہے، اور ملک مبینہ طور پر دونوں کیمپوں کے درمیان اپنی حمایت تبدیل کر رہا ہے۔ صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب بھارتی میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ محسن نقوی نے اس معاملے پر بی سی سی آئی سے معافی مانگ لی ہے۔ نقوی، جو پاکستان کے وزیر داخلہ بھی ہیں، نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انہیں "من گھڑت بکواس" اور "سستا پروپیگنڈا" قرار دیا۔ ایک دو ٹوک بیان میں، پی سی بی چیف نے الزامات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے اعلان کیا، "میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ میں نے نہ معافی مانگی ہے اور نہ ہی مانگوں گا۔ اگر بھارت کو واقعی ٹرافی چاہیے، تو ان کا کپتان براہ راست میرے دفتر سے آ کر لے سکتا ہے۔" بی سی سی آئی، محسن نقوی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور پاکستانی حکومت میں ایک سینئر وزیر کے دوہرے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے، مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر انہیں ہٹانے کے لیے اپنا کیس بنا رہا ہے۔ تاہم نقوی کو ہٹانے کی راہ میں ایک بڑی آئینی رکاوٹ حائل ہے۔ اندرونی ذرائع نے بتایا ہے کہ اے سی سی کے آئین میں فی الحال اپنے صدر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک شروع کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ، دستاویزی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ جو تقریب کرکٹ کی عمدگی کا جشن منانے کے لیے تھی، وہ اب علاقائی کشیدگی کا مرکز بن گئی ہے۔ ایشیا کپ کی ٹرافی اب بھی لاوارث ہے اور رکن ممالک تقسیم ہیں، جس کی وجہ