اگر حماس سے مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ پھر شروع کردیں گے، اسرائیلی فوجی سربراہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
تل ابیب: اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات ناکام ہوئے تو اسرائیل غزہ میں فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دے گا۔
جنرل ضمیر نے اپنی فوجی کمانڈروں سے خطاب میں کہا کہ موجودہ وقت جنگ بندی نہیں بلکہ "آپریشنل صورتحال میں تبدیلی" ہے اور مذاکرات ناکامی کی صورت میں آپریشنز پھر بحال کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی کارروائیوں سے حاصل ہونے والی فیلڈ میں کامیابیاں سیاسی مذاکرات میں وزن دے رہی ہیں، مگر اگر سیاسی راستہ ناکافی رہا تو فورسز کو دوبارہ میدان میں لانا پڑے گا۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب حماس اور بین الاقوامی ثالث یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
بعد ازاں امریکی صدارت کی جانب سے بھی اشارہ دیا گیا تھا کہ حماس اگر غزہ کا کنٹرول چھوڑنے سے انکار کرے تو سخت نتیجے بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ عسکری اور سیاسی قیادت کی یہ پیشین گوئیاں مذاکراتی عمل اور کشیدگی دونوں کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارتی آرمی چیف کے ’دھرم یُدھ‘ والے بیان پر نئی بحث چھڑ گئی، فوج میں مذہبی رنگ شامل ہونے پر تشویش
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپیندر دویویدی کے حالیہ بیان نے بھارت میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ انہوں نے ایک تقریب کے دوران کہا کہ آپریشن سندور محض ایک عسکری کارروائی نہیں تھا بلکہ ایک دھرم یُدھ (مذہبی جنگ) تھا۔ اس بیان کو ملک کے مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں میں فوج کو ’مذہبی رنگ میں رنگنے‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بیان نے بھارتی فوج کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھا دیےتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی کو’دھرم یُدھ ‘ قرار دینا بھارت کی طویل عرصے سے قائم غیر سیاسی اور غیر مذہبی فوجی روایت سے انحراف ہے۔
رپورٹس کے مطابق ناقدین کا کہنا ہے کہ مذہبی الفاظ کا استعمال فوج کے اندر نظریاتی جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تاثر ملتا ہے کہ عسکری بیانیہ سیاسی نظریات یا اکثریتی مذہبی سوچ سے متاثر ہو رہا ہے؛ اور فوج جیسے ادارے کی غیر جانب داری متاثر ہو سکتی ہے۔
تنقید کرنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’سِندور‘ کا نام ہندو مذہبی علامت سے منسوب ہے، جس سے عسکری مہم کو مذہبی یا ثقافتی شناخت کے ساتھ جوڑنے کا تاثر پیدا ہوا۔ بعض تجزیہ کاروں نے اس نام کو ’سفرو نائزیشن‘ یعنی ’ہندوتوا رنگ‘ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔
نماز کے دوران کارروائی نہ کرنے کے بیان پر بھی ردِعملجنرل دویویدی نے مزید کہا کہ فوج نے آپریشن کے دوران کبھی نماز کے وقت حملہ نہیں کیا۔جسے مخالفین نے ’بین السطور اسلاموفوبیا‘ قرار دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس طرح کے جملے جنگ کو مذہبی زاویے سے پیش کرنے کا تاثر دیتے ہیں، جو تنازع کو علاقائی کے بجائے مذہبی رنگ دینے کے مترادف ہے۔
بیان سیاسی فائدے کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہےتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مذہبی یا جذباتی بیانات سیاسی ماحول میں ہندو ووٹر بیس کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق عسکری کارروائیوں کو مذہبی بیانیے سے جوڑنا انتخابی سیاست پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
حکومتی یا فوجی ردِعمل؟تا حال بھارتی حکومت یا فوج نے اس حوالے سے کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں کیا، تاہم معاملہ تیزی سے ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں میں بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں